جنوری 2018 میں شمال مغربی شام میں روس کے زیر انتظام خمیم فوجی اڈے پر باغیوں کے حملے کے چند دن بعد اسی جگہ پر 13 ڈرونز نے بیک وقت حملہ کر دیا۔ یہ جنگ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔
روسی افواج نے ان میں سے سات ڈرونز کو مار گرایا اور باقی چھ کو جام کر دیا تھا۔ اس حملے میں کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا لیکن یہ ایک تشویشناک پیشرفت تھی۔
خمیم حملہ ایک غیر ریاستی عنصر کی طرف سے کیا گیا تھا۔ لیکن اب روایتی عسکری قوتیں جیسا کہ روس اور یوکرین بھی باقاعدگی سے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے سوارم ڈرونز یعنی ڈرونز کے جتھوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
سوارم ڈرونز کیا ہیں؟
ڈرون یا بغیر پائلٹ کے چھوٹے جہاز جنھیں ’یو اے وی‘ کہا جاتا ہے نسبتاً سستے ہوتے ہیں، ان کا استعمال کرنا آسان ہوتا ہے اور ان میں ایسی صلاحیتیں ہیں جو روایتی جنگی حکمت عملی کو پوری طرح الٹا دیتی ہیں۔
اگرچہ خمیم ایئر بیس پر حملے کے لیے استعمال کیے گئے ڈرون ڈیزائن کے اعتبار سے بنیادی قسم کے تھے لیکن وہ جنگ کے ایک ایسے مستقبل کی علامت تھے جس میں ایک سے زیادہ ڈرون ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی میں ہدف پر حملہ کرتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ انسانی مداخلت کے بغیر خود مختار انداز اور غیر معمولی تیزی رفتاری سے کام کرتے ہیں۔
دفاعی زبان میں اس طرح کے ڈرونز یا ’یو اے وی‘ کو ’سوارم ڈرون‘ کہا جاتا ہے جس میں ڈرونز کا ایک گروہ، جس میں 10 یا 100 یا 1000 سے زیادہ ڈورنز ایک ساتھ پرواز کرتے ہوئے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔
اس میں ہر ڈرون آزادانہ طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ گروہ کے باقی ڈرونز کے ساتھ اس طرح سے ہم آہنگ ہوتا ہے کہ ہر لمحے انسانی آپریٹر کی مداخلت کے بغیر یہ اپنا کام مؤثر طریقے سے انجام دیتا ہے۔
انڈیا مستقبل کی دفاعی صلاحیت کے لیے کس کوشش میں ہے؟
انڈیا کے دفاعی ادارے ان تبدیلیوں سے بخوبی واقف ہیں۔
شام کے تنازعے کا حوالہ دیتے ہوئے 2021 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے نے کہا تھا کہ ’کمپیوٹر الگورتھم پر مبنی ڈرون کا تخیلاتی اور جارحانہ استعمال، جو پہلے ادلب اور پھر آرمینیا-آذربائیجان کی جنگ میں ہوا، نے جنگ کے روایتی فوجی ہارڈویئر کو چیلنج کیا ہے جیسا کہ ٹینک، توپ خانہ اور زمینی فوج۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ انڈیا اہم تنصیبات پر حملوں کو روکنے کے لیے ڈرون کے جارحانہ استعمال اور انسداد ڈرون نظام دونوں پر کام کر رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں انڈیا نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں انڈیا کی حکومت نے اپنی ڈرون پالیسی کو آزادانہ شکل دی ہے، ڈرون کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے اپنے 2022-2023 کے بجٹ میں 120 کروڑ مختص کیے ہیں، اور ڈرون بنانے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے انڈیا میں نجی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
یہ 2030 تک انڈیا کو ڈرون کا ایک اہم مرکز بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
انڈین فضائیہ کے لیے سوارم ڈرون تیار کرنے والی ایک کپمنی کے بانی سمیر جوشی کہتے ہیں کہ ’سوارم ڈرون ہی جنگ کا مستقبل ہیں۔ اور انڈیا بھی اس میں حصے داری لینے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
’میک ان انڈیا‘ کے پروگرام کے تحت انڈیا ایسے سٹارٹ اپس کی حمایت کر رہا ہے جو اختراعی خیالات لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کوششوں کے تحت انڈیا نے 2018 میں ایک ڈرون سٹارٹ اپ ایوارڈ شروع کیا جسے پہلی بار سمیر جوشی کی کمپنی ’نیوز سپیس‘ نے جیتا تھا۔
سمیر جوشی نے ایک ایئر شو کے دوران دفاعی ڈرون کی بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سنہ 2018 میں انڈیا میں 50 سے 60 سٹارٹ اپس 1000 ڈرون آرڈرز کے لیے مقابلہ کر رہے تھے۔ اب 2500 ڈرون آرڈرز کے لیے 200 کمپنیاں ہیں۔‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرون کے استعمال اور طلب میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈرون سٹارٹ اپ ’آئیڈیا فورج‘ نامی کمپنی کے سی ای او انکیت مہتا نے یہ نشاندہی کی کہ انڈیا کا دفاعی شعبہ اب ڈرونز کو سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔
انھوں نے کہا ’میں نے ایک طرح سے ڈرون کے ضوابط کو نظر انداز کرنے سے انکار کرنے تک، اور پھر حمایت کرنے سے اسے قبول کرنے تک تبدیلی دیکھی ہے۔‘
مہتا کے سٹارٹ اپ نے 2009 میں بالی وڈ بلاک بسٹر فلم ’تھری ایڈیئٹ‘ میں استعمال ہونے والے عمودی ڈرون کا پروٹو ٹائپ بنایا تھا۔ اب انڈین افواج ان کے تیار کردہ ڈرونز کو چین کے ساتھ سرحد لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر استعمال کر رہی ہیں۔
فوج نے ان کی کمپنی کے ساتھ بلندی پر پرواز کرنے والے اور عمودی پرواز کرنے والے ڈرونز فراہم کرنے کے کئی معاہدے کیے ہیں جو سرحدی علاقوں کی نگرانی میں فوج کے لیے ایک مفید ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ ڈرونز ممکنہ طور پر انتہائی بلندی پر منفی درجہ حرارت میں بھی پرواز کر سکتے ہیں اور آسمان پر طویل عرصے تک بغیر ’ٹریس‘ ہوئے اپنا کام انجام دے سکتے ہیں۔
کمپنی کے ڈرونز کو شہری مقاصد کے ساتھ ساتھ کشمیر میں عسکریت پسندوں کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے۔
انڈیا میں ڈرونز کی تیاری
انڈیا کا مقامی ڈرون پروگرام امریکی ڈرون کے استعمال سے شروع ہوا تھا۔ اس ڈرون کی مدد سے انڈیا کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے ’لکشیہ‘ نامی ڈرون تیار کیا جو کہ انسانی نگاہ سے آگے تک جا سکتا تھا۔
اس کے بعد ڈی آر ڈی او نے ’نشانت‘ اور ’گگن‘ جیسے کئی شارٹ رینج ڈرون تیار کیے جس میں ہائی ریزولوشن تھری ڈی تصویریں بنانے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح ’رستم ٹو‘ خود بخود لینڈنگ کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ نگرانی اور جاسوسی کے لیے بہترین ڈرون ہے۔
تاہم انڈیا نے سب سے زیادہ اسرائیل سے ڈرون درآمد کیا ہے۔ بلکہ انڈیا نے پہلی مرتبہ اسرائیل سے ہی 1998 میں ڈرون برآمد کیا تھا۔
فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق انڈیا میں ڈرون کے پیداوار کی صلاحیت 2025 تک 4.2 ارب ڈالر تک ہو جائے گی اور سنہ 2030 تک یہ حجم 23 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
لیکن ترقی کے اس اندازے کا انحصار بہت حد تک حکومت کی پالیسیوں پر مبنی ہو گا۔ فی الحال حکومت نے تحقیق اور دفاعی مقاصد کے علاوہ دیگر ممالک سے ہر طرح کے ڈرون کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے تاکہ انڈیا میں اس کی پیداوار کو ترغیب دی جا سکے۔
’انڈیا 2030 تک ڈرونز تیار کرنے کا مرکز بننا چاہتا ہے‘
انڈیا کی ڈرونز کی صلاحیت، چاہے وہ مقامی سطح پر تیار ہو یا درآمد کیا گیا ہو، بنیادی طور پر کم اور درمیانی اونچائی تک جانے والے ڈرونز تک محدود ہے۔ بلندی پر پرواز کرنے کی صلاحیت والے جدید ڈرونز کے لیے انڈیا کو دوسرے ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے
حالیہ امریکی دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے 31 پریڈیٹر ڈرونز کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیا جو کہ بلندی پر کام کرتے ہیں جسے ’ہائی الٹیٹیود لانگ انڈیورینس‘ ڈرون کہتے ہیں۔
دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ راہول بھوسلے اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ انڈیا کے پاس اس طرح کے ڈرونز کا کوئی مقامی طور پر تیار کردہ متبادل نہیں ہے اور نہ ہی اسے بنانے کے لیے کسی دوسرے ملک کے ساتھ کوئی شراکت داری ہے۔
وہ کہتے ہیں ’جہاں تک اس کی نگرانی کی صلاحیتوں کا تعلق ہے، یہ ڈرون اب تک کا سب سے بہتر ڈرون ہے۔ نگرانی کے علاوہ اس میں ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت ہے۔‘
جموں ایئر بیس پر سنہ 2021 کے ڈرون حملے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’جموں کے بعد ہم نے بہت سے ڈرون شکن ڈرونز تیار کیے ہیں جو مجھے یقین ہے کہ انڈین فضائیہ نے تعینات کر دیے ہیں۔‘
انڈیا اور اس کے پڑوسی ممالک
چین اور پاکستان کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کشیدہ رہتے ہیں۔ لیکن اگر چین کی صلاحیتوں کی بات کریں تو اس نے اپنا مقامی ڈرون سسٹم تیار کر لیا ہے۔
سمیر جوشی کہتے ہیں کہ ’2000 کی دہائی کے اوائل سے چین نے فیصلہ کیا تھا کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ بہت اچھا نہیں ہے، لیکن جو وہ چاہتے ہیں وہ اچھا اور بے مثال ہو۔ اور وہ جو چاہتے تھے اس پر کام شروع کر دیا۔ پچھلے 20 سالوں میں انھوں سے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔‘
اگرچہ جنگ کی صورت میں استعمال نہ ہونے کی وجہ سے چین کے مقامی ڈرونز کی صلاحیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے، یہ واضح ہے اس نے ڈرونز کی ایک رینج تیار کی ہے اور مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے مزید تیار کر رہا ہے۔
اسی طرح پاکستان کے پاس چین اور ترکی کی مدد سے فراہم کردہ ڈرونز ہیں۔ ترکی سے حاصل کردہ ڈرونز کتنے موثر ہیں وہ آذربائیجان-آرمینیا اور یوکرین-روس جیسی جنگوں میں ظاہر ہو گیا ہے۔
بھوسلے کہتے ہیں کہ ’اسرائیلی اور امریکی ڈرونز ہمیں پاکستان پر، اور کچھ حد تک چین پر بھی برتری فراہم کرتے ہیں، کیونکہ یہ جنگوں میں آزمائے جا چکے ہیں۔‘
کیا انڈیا ڈرونز بنانے کا عالمی مرکز بن سکتا ہے؟
ایک ایسی صنعت میں قدم جمانے کے لیے جس پر امریکہ اور چین کا غلبہ ہے اور اب ترکی اور ایران جیسی ابھرتی ہوئی طاقتیں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں، انڈیا سمیر جوشی اور مہتا جیسے لوگوں پر انحصار کر رہا ہے۔
انڈیا میں ڈرون بنانے والے مقامی سطح پر ڈرون کی تیاری میں آنے والی مشکلات کی نشاندہی کرتے ہیں جیسا کہ سافٹ ویئر کا لائسنس اور مستقبل کے ڈرون میں استعمال ہونے والے ہارڈ ویئر کی درآمد جیسے چیلنج۔
اگرچہ وہ حکومت کی طرف سے کی گئی کوششوں کی تعریف کرتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ فنڈنگ جیسے مسائل بدستور موجود ہیں۔
دفاعی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر قمر آغا کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں انڈیا کا ایک بڑا ٹیکنیکل طبقہ پھیلا ہوا ہے جو اس کی ڈرون انڈسٹری کا اثاثہ بن سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کے لیے فنڈز تلاش کرنا زیادہ مشکل کام ہے۔
وہ کہتے ہیں ’اب ٹیکنالوجی پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ بلکہ فنڈنگ کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر حکومت فنڈنگ فراہم کر دے تو انڈیا میں بہت صلاحیت ہے۔‘
لیکن کیا انڈیا میں دستیاب تکنیکی صلاحیت ان چیلنجوں پر برتری حاصل کرسکتی ہیں جن کا اس کی نوزائیدہ ڈرون صنعت کو سامنا ہے؟
جوشی کہتے ہیں گذشتہ دو تین برسوں سے حکومت کافی توجہ سے ان جیسے ڈرونز تیار کرنے والوں کی بات سن رہی ہے لیکن ’میرا ماننا ہے کہ ہمیں اس کا پہلا اشارہ 2025 سے 2027 کے درمیان ملے گا کہ کیا جو حکومت ڈرون سیکٹر کے لیے چاہتی ہے ہم اس پر گامزن ہیں یا نہیں۔‘