پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور کے ساتھ جی ٹی روڈ پر ایک شادی ہال کے باہر پولیس کی بھاری نفری دور دور تک تعینات تھی اور گیٹ پر سادہ لباس میں لوگ فہرستیں دیکھ کر لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دے رہے تھے لیکن یہاں کسی کی شادی نہیں ہو رہی تھی۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اندر کیا ہونے جا رہا ہے ، کوئی انتہائی وی وی آئی پی شخصیت آ رہی ہے، یا کچھ بہت بڑا ہونے جا رہا ہے۔
ایک صحافی نے بتایا کہ انھیں ایسا لگا جیسے وزیر اعظم یہاں آ رہے ہیں اس لیے اتنے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ جن گاڑیوں نے وہاں پہنچنا تھا وہ گاڑیاں سیدھا شادی ہال میں پہنچ رہی تھیں اور ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی جبکہ میڈیا کے لوگوں کو تو قریب بھی نہیں آنے دیا جا رہا تھا۔
یہ دراصل خیبر پختونخوا کی ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کی تقریب تھی۔ یہ جماعت پی ٹی آئی کے سابق رہنما پرویز خٹک کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے اور وہاں سے آمدہ ٹکرز اور خبروں کے مطابق پرویز خٹک کی حمایت 56 سابق اراکین اسمبلی نے کی ہے۔
صحافیوں کو بھنک تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما اور سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک کچھ کرنے جا رہے ہیں اور صحافی تو خبر کے لیے کہیں بھی چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے اس تقریب میں بھی صحافی بن بلائے چلے گئے، لیکن چار مقامی صحافیوں کو سادہ لباس میں موجود اہلکاروں نے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور ان سے موبائل فون بھی لے لیے گئے۔
سینیئر صحافی فدا عدیل بھی وہاں گئے تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کے چار ساتھیوں کو تو ایک طرح سے حراست میں لے لیا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین اور ان کے ساتھی وہاں پہنچ گئے اور ساتھیوں کی رہائی کی بات کی جنھیں بعد میں چھوڑ دیا گیا، لیکن انھیں ان کے موبائل فون نہیں دیے گئے۔
صحافی چکمنی تھانے گئے اور وہاں بتایا گیا کہ موبائل فون انھیں بعد میں ملیں گے۔
پشاور کے ایک سینیئر صحافی سراج الدین نے بتایا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ پشاور کے جھگڑا سٹاپ سے آگے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔
’پولیس کافی چاک و چوبند نظر آرہی تھی۔ اس وقت دوپہر کا ایک بج رہا تھا اس لیے پولیس اہلکاروں کو کھانا بھی دیا جا رہا تھا۔‘
عام طور پر اس طرح پولیس اہلکاروں کو کھانا کم ہی دیا جاتا ہے صرف محرم کے دنوں میں یا کوئی غیر معمولی سرگرمی کے لیے تعیناتی ہو تو اس کے لیے پولیس اہلکاروں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ تقریب ایک شادی ہال میں ہو رہی تھی اور وہاں صحافی موجود تھے جنھیں بار بار یہی کہا جا رہا تھا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں کسی کو تصویر یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
سینیئر صحافی فدا عدیل نے بتایا کہ ’جب وہ پہنچے تو انھوں سڑک پر کھڑی میڈیا کی گاڑیاں دیکھیں اور صحافی خود سخت گرمی میں اس انتظار میں تھے کہ انھیں کب موقع ملے کہ وہ کوئی خبر نکالیں یا تصویریں اور ویڈیو بنا سکیں۔‘
صحافیوں نے بتایا کہ انھیں کہا گیا کہ خبر ٹکرز تصویریں اور ویڈیوز آپ کو مل جائیں گی، آپ یہاں سے چلے جائیں لیکن کچھ صحافی اپنی ذمہ داری خود ادا کرنا پسند کرتے ہیں۔
ایک صحافی نے بتایا کہ شادی ہال کے قریب تو کیا شادی ہال سے دور سے بھی تصویریں نہیں بنانے دی جا رہی تھیں، حیرانگی تھی کہ یہ کسی سیاسی جماعت کی تقریب ہے یا کچھ اور ہونے جا رہا ہے۔
صحافیوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس تقریب کا منتظم کون ہے کیونکہ پرویز خٹک اور ان کے صاحبزادے تو کافی دیر سے پہنچے تھے۔
وہاں آنے والے تین افراد تو ایسے تھے جو گرفتار تھے لیکن آج اس جماعت کے قیام کی تقریب میں شریک تھے۔ ان میں ارباب وسیم، واجد، اور شاہ فیصل کے نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں دو کی تصویریں گذشتہ روز جاری کی گئی تھیں جب انھیں ہتھکڑیاں لگا کے لے جایا جا رہا تھا۔ ایک رکن کے بارے میں بتایا گیا کہ انھیں آج صبح ہی حراست میں لیا گیا تھا۔
اس تقریب میں شریک سابق اراکین میں سے کچھ سے رابطے کی با رہا کوشش کی گئی لیکن ان کے نمبر بند آ رہے تھے۔ دیگر صحافیوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان اراکین سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا اور ان کے نمبر بند آ رہے تھے۔
اس تقریب کی اہم بات سابق وزیر اعلی محمود خان کی شرکت بتائی جا رہی ہے کیونکہ ان کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ عمران خان کو نہیں چھوڑیں گے اور ان کا اپنا گروپ بہت مضبوط ہے۔
یہاں عام تاثر یہ بھی تھا کہ صرف چند ایک کے علاوہ اس تقریب میں ایسا کوئی رکن موجود نہیں تھا جو پاکستان تحریک انصاف کا وہ چہرہ ہو جسے میڈیا میں یا سامنے آنے پر لوگ پہچانتے ہوں۔
سراج الدین نے بتایا کہ اس تقریب میں شرکت کے لیے اراکین گاڑیوں میں آتے اور سیدھا شادی ہال کے اندر چلے جاتے۔ لگ بھگ چالیس سے پچاس گاڑیاں شادی ہال کے اندر داخل ہوئی ہیں۔ صحافی اس انتظار میں تھے کہ ابھی پرویز خٹک پریس کانفرنس کرکے باقاعدہ اعلان کریں گے لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
حیران کن بات یہ تھی کہ تقریب تو سیاسی جماعت کے قیام کی تھی تو پھر اسے اتنا خفیہ کیوں رکھا جا رہا تھا کہ صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی تھی۔ پرویز خٹک اگر سیاسی جماعت کا اعلان کرنا چاہتے تھے تو وہ میڈیا کے سامنے باقاعدہ اعلان کر سکتے تھے، اس طرح کا اعلان بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔
ایک صحافی نے بتایا کہ سوچیں جب ایک سیاسی جماعت کے قیام کی تقریب میں صرف شادی ہال کی تصویر بنانے پر صحافیوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے تو اگر یہ جماعت اقتدار میں آ گئی تو پھر کیا حال ہو گا۔
سینیئر صحافی فدا عدیل نے بتایا کہ ’اگر صرف مل کر بیٹھنا ہی تھا تو یہ میٹنگ پرویز خٹک کے گھر میں بھی ہو سکتی تھی اس طرح کی تقریب تو اس نئی جماعت، اس کے قائدین اور اس کے منتظمین کے لیے بھی باعث شرمندگی ہی رہے گی۔‘
ایک صحافی نے بتایا کہ یہ شادی ہال جی ٹی روڈ پر واقع ہے اور کچھ لوگوں نے تو گاڑی میں گزرتے گزرتے بھی اس شادی ہال کی ویڈیو بنالی تھی۔
صحافیوں نے بتایا کہ دعوی تو 56 اراکین اسمبلی کی حمایت کا کیا گیا ہے لیکن وہاں موقع پر اراکین کی تعداد سے کافی کم تھی۔