ایک چھوٹی سی ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے امریکی فوج کی لاکھوں ای میل برسوں سے ایک ایسے ملک پہنچتی رہی ہیں جو روس کا اتحادی ہے۔
اس غلطی کی وجہ ای میل کا ڈومین ہے۔ واضح رہے کہ امریکی فوج کی ’ڈاٹ ایم آئی ایل‘ ڈومین پر بھیجی جانے والی ای میلز مغربی افریقہ کے ملک مالی کی ڈومین ’ڈاٹ ایم ایل‘ پر جاتی رہی ہیں۔
ان میں سے کئی ای میلز میں حساس معلومات موجود تھیں جن میں پاس ورڈ، طبی ریکارڈ اور اعلیٰ عسکری افسران کی سفری تفصیلات شامل تھیں۔
پینٹاگون، جو امریکی محکمہ دفاع کا ہیڈکوارٹر ہے، نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا لیے گئے ہیں۔
یہ خبر سب سے پہلے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے شائع کی تھی جس کے مطابق جوہانز زوربیئر نامی ڈچ شخص نے 10 سال قبل اس مسئلے کی شناخت کی تھی۔
جوہانز کے پاس 2013 سے مالی کے ای میل ڈومین کا انتظام دیکھنے کا کنٹریکٹ ہے اور حالیہ چند ماہ کے دوران انھوں نے امریکی فوج کی جانب سے غلطی سے بھجوائی جانے والی ہزاروں ای میلز اکٹھی کیں۔
ان میں سے کسی بھی ای میل کو خفیہ نہیں گردانا گیا تھا تاہم برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ ان میں سے کئی الیکٹرانک پیغامات میں طبی معلومات، امریکی فوجی عمارات کے نقشے، مالی ریکارڈ، عسکری عہدیداران کی سفری تفصیلات اور چند سفارتی پیغامات بھی موجود تھے۔
گذشتہ ماہ جوہانز نے امریکی حکام کو ایک خط کے ذریعے ان کی اس غلطی سے آگاہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ مالی کی حکومت کے ساتھ ان کا معاہدہ ختم ہونے والا ہے جس کا مطلب ہو گا کہ امریکہ کے مخالف اس غلطی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
مالی کی فوجی حکومت سوموار کو اس ڈومین کا انتظام سنبھالنے والی تھی۔ بی بی سی نے جوہانز سے بھی ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔
واضح رہے کہ امریکی نظام میں ایسے پیغامات جنھیں ’خفیہ‘ یا ’ٹاپ سیکرٹ‘ سمجھا جاتا ہے، ایک الگ آئی ٹی سسٹم کے ذریعے بھجوائے جاتے ہیں۔ امریکی عہدیداران کا کہنا ہے کہ ایسے پیغامات کا غلطی سے کہیں جانے کا امکان موجود نہیں۔
تاہم سٹیون سٹرینسکی، جو امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کے انٹیلیجنس لا ڈویژن کے لیے کام کر چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ اکثر بے ضرر نظر آنے والی معلومات بھی امریکی کے مخالفین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں خصوصاً اگر ان میں عسکری افراد کی معلومات ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی بیرونی قوت ہمارے عسکری حکام کی معلومات پر مبنی فائل تیار کر سکتی ہے، جاسوسی کے مقاصد کے لیے، اور ان سے مالی فوائد کے بدلے معلومات فراہم کرنے کے لیے رابطہ کر سکتی ہے۔‘
’یہ یقینا ایسی معلومات ہیں جو کوئی حکومت استعمال کر سکتی ہے۔‘
سیراکیوز یونیورسٹی میں انفارمیشن سٹڈیز کے پروفیسر لی میکنائٹ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں امریکی فوج اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ معاملہ ان کی توجہ میں لایا گیا اور یہ ای میلز سائبر مجرمان کے بجائے مالی کی حکومتی ڈومین پر جا رہی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ٹائپو سکواٹنگ‘ ایک سائبر جرم ہوتا ہے جس میں انٹرنیٹ ڈومین کی سپیلنگ میں غلطی کرنے والے صارفین کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور یہ کافی عام ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس معاملے سے آگاہ ہیں اور اسے سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن سے ایسی غلطی دوبارہ نہ ہونے کو یقینی بنایا جائے گا۔
پروفیسر لی میکنائٹ اور سٹیون سٹرینسکی کہتے ہیں کہ حکومتی اور نجی سیکٹر میں کام کرنے والے آئی ٹی ماہرین کے لیے انسانی غلطی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
سٹیون سٹرینسکی کا کہنا تھا کہ ’انسانی غلطی روزمرہ کے معاملات میں سب سے بڑا سکیورٹی خدشہ ہے۔ آپ ہر انسان کو ہر وقت کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘