پاکستان کے وفاقی تحققیاتی ادارے ایف آئی اے نے پانچ افراد کو اسرائیل میں ملازمت کرنے اور ’مشکوک‘ ترسیلات زر پاکستان بھیجنے کے الزام میں گرفتار کر کے تحققیات شروع کر دی ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان نے سفارتی طور پر اسرائیل کو کبھی تسلم نہیں کیا۔
اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم میں شامل محمد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ایف آئی اے کرائم سرکل کے پاس اس سال ’سرکاری ذرائع‘ سے ایک انکوائری آئی کہ پاکستان میں آنے والی ترسیلات زر میں کچھ مشکوک ٹرانزیکشنز ایسی ہیں جو اسرائیل سے آئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ ٹرانزیکشن سنہ 2016 سے سنہ 2021 کے درمیان ہوئی تھیں اور اس معاملے کی دو ماہ تک تحقیقات ہوئیں۔
ایف آئی اے نے تحقیقات کرنے کے بعد پانچ افراد کو حراست میں لیا۔ ان تحقیقات میں مذید تین نام بھی سامنے آئے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
ایف ائی اے حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق مذہبی تنظیموں سے ہے۔ تاہم ایف آئی اے کے اہلکار کے بقول یہ مذہبی تنظیمیں کالعدم نہیں ہیں۔
اب تک جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ان میں کامران صدیقی، ستارہ پروین، عبدالماجد صدیقی اور محمد اسلم شامل ہیں۔ گرفتار کیے جانے والے افراد کا تعلق صوبہ سندھ کے علاقے میر پور خاص سے ہے۔
ان افراد کے خلاف درج مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ ان ملزمان نے ایک اسرائیلی ایجنٹ اسحاق متاط کو اسرائیل میں ملازمت کے لیے تین لاکھ سے لیکر سات لاکھ روپے تک دیے۔ ایف آئی آر کے مطابق گرفتار ہونے والے تمام افراد اسرائیل میں گاڑیاں دھونے کا کام کرتے تھے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ان میں سے چار افراد کے پاس ’شینجن‘ ویزہ تھے جو کہ 27 یورپی ممالک کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔ جس شخص کے پاس یہ ویزہ ہوتا ہے وہ ان 27 ممالک میں سے کسی بھی ملک میں داخل ہو سکتا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق یہ افراد چار سال تک اسرائیل میں گاڑیاں دھونے کا کام کرتے رہے اور اس عرصہ کے دوران وہ اسرائیلی کرنسی کو پاکستانی روپے میں تبدیل کرواتے اور پھر ویسٹرن یونین کے ذریعے اپنے رشہ داروں کو بھیجتے تھے۔
ایف آئی کے اہلکار کے مطابق 10 ملین روپے سے زیادہ کی رقم ملزمان کی طرف سے اپنے رشتہ داروں کو بھجوائی جا چکی ہے۔
یہ افراد اسرائیل کیسے پہنچے؟
محمد اقبال کے مطابق تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ان ملزمان نے اسرائیل جانے کے لیے ترکی، کینیا، سری لنکا، دوبئی اور سوئٹرز لینڈ کا روٹ اختیار کیا اور ان تمام افراد کو ان ملکوں سے اردن لیکر جانے تک اسرائیلی ایجنٹ اسحاق متاط ان افراد کے ساتھ موجود تھا۔
ایف آئی اے کرائم سرکل کے ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان کا دو دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے اور ان ملزمان سے ہونے والی اب تک کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ملزمان جب اردن پہنچ جاتے تو وہاں پر ان کی ایسے ممالک کی جعلی دستاویزات بنائی جاتی تھیں جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے۔
ان دستاویزات کے ذریعے وہ بارڈر کراس کرکے اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔
ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس اسرائیلی ایجنٹ کے اردن میں بھی انسانی سمگلروں کے ساتھ تعلقات تھے جن کی معاونت سے ایسے ممالک کی جعلی دستاویزات حاصل کی جاتی تھیں جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے۔
گرفتاری کیسے ہوئی؟
تفتیشی ٹیم میں شامل محمد اقبال کے مطابق گرفتار ہونے والے افراد چار سال اسرائیل میں رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ واپسی کے لیے ان افراد نے اپنا پاکستانی پاسپورٹ ہی استعمال کیا۔
ملزم محمد انور کے خلاف درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ وہ پہلے اردن، پھر دوبئی اور پھر پاکستان واپس آئے۔
محمد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمان نے اپنی جعلی دستاویزات ضائع کر دی ہیں جبکہ ان کے زیر استعمال موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے کچھ ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے جو تحقیقات کو آگے بڑھانے میں مدد دے گا۔
ایف آئی اے کے ایک اور اہلکار کے مطابق ملزمان واپسی کے بعد میر پور خاص میں جنرل سٹور اور موبائل نیٹ ورکنگ کا کام کر ر ہے تھے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمان کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد انھیں دوبارہ متعقلہ عدالت میں پیش کیا جائے گا اور اس معاملے کی مذید تحقیقات کے لیے عدالت سے ملزمان کے مذید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جائے گی۔