18 ماہ سے روس کے زیر تسلط علاقوں کا قبضہ واپس حاصل کرنے کے لیے یوکرین کی جانب سے ملک کے مشرق اور جنوب میں وہ عسکری مہم بھرپور انداز میں جاری ہے جس کے لیے کافی عرصے سے تیاری کی جا رہی تھی۔
یوکرین کی فوج کے 49 سالہ کمانڈر ان چیف جنرل ویلری زلوزنی کا اس فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی میں اہم کردار تھا اور اب وہ ہی اس کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ وہ کچھ عرصہ پہلے تک ایک غیر معروف شخصیت تھے لیکن حالیہ دنوں میں جنرل زلوزنی کی شہرت یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی جتنی ہو چکی ہے۔
جنرل زلوزنی کو ان کے دوست اور پرانے کلاس فیلو ’ہمارا ولیرا‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کو جولائی 2021 میں یوکرین کی فوج کا کمانڈر ان چیف تعینات کیا گیا تھا۔
ان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کی تعیناتی خود صدر زیلینسکی نے کی تھی اور خود جنرل زولوزنی کے لیے یہ حیران کن تھی۔
ان کی شہرت ایک ایسے جدید کمانڈر کی ہے جو اپنے ماتحتوں کے ساتھ اکثر مذاق کرتے ہیں اور اپنے عہدے کا رعب نہیں جماتے۔
تعیناتی کے سات ماہ بعد ہی وہ روسی حملے کے جواب میں یوکرین کا دفاع کرنے پر مجبور ہوئے۔
چھبیس فروری 2022 کو یہ تو واضح ہو چکا تھا کہ روسی فوج ابتدائی دعوے کے مطابق ’تین دن میں دارالحکومت کیئو پر قبضہ‘ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے لیکن یوکرین کے لیے صوت حال بہت خوش آئند نہیں تھی۔
روسی فوج ملک کے شمال، مشرق اور جنوب میں پیش قدمی کر رہی تھی اور کیئو کو کافی خطرہ تھا۔
یوکرین کے اعلی عہدیداران اس بات پر غور کر رہے تھے کہ کیئو کے نزدیک ڈینیپرو دریا پر پل تباہ کر دیے جائیں تاکہ روسی فوج مشرقی کنارے سے مغربی کنارے کی جانب پیش قدمی نہ کر سکے جہاں یوکرین کی سرکاری عمارات موجود ہیں۔
انھوں نے جنرل زولوزنی کی رائے معلوم کرنے کے لیے ان کو فون کیا تو بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے جواب دیا کہ ’ہم کسی صورت ایسا نہیں کریں گے۔‘
ان کے مطابق ایسا کرنا ’مشرقی کنارے پر موجود عام شہریوں اور فوج کے ساتھ دھوکہ ہو گا۔‘
بی بی سی نے اس واقعے سے واقفیت رکھنے والے دو ذرائع سے بات کی ہے جنھوں نے اس کی تصدیق کی۔
اپریل 2022 تک یوکرین کی فوج روسی فوجیوں کو کیئو کے شمال اور مشرق میں پیچھے دھکیل چکی تھی۔
جنرل زولوزنی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو سوویت فوج میں خدمات سرانجام دے چکا ہے۔
1990 میں جب خود جنرل زولوزنی نے ملٹری سکول میں داخلہ لیا تو یوکرین ایک آزاد مملکت بن چکا تھا۔ 2014 میں ان کو مشرقی یوکرین میں ڈپٹی کمانڈر تعینات کیا گیا جہاں روسی فوج کی حمایت سے علیحدگی پسند جنگ لڑ رہے تھے۔
ان کے ساتھیوں سے بی بی سی کی بات چیت سے معلوم ہوا کہ اپنے کیریئر کے آغاز سے ہی وہ اپنے ماتحتوں سے اعتماد کا رشتہ قائم کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور انھیں فیصلہ سازی کا اختیار بھی دیتے تھے۔
جنرل زولوزنی کی ایک سابق ماتحت لڈمیلیا ڈولہونوسکا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بہت کم سوتے تھے اور محاذ پر موجود عسکری سٹاف سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔
’وہ جنرلوں سے کافی زیادہ بات چیت کرتے تھے لیکن یہ گفتگو ہمیشہ مرکوز اور پرسکون ہوتی تھی۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فوج کو اپنے جونیئر افسران کو فیصلہ سازی کا اختیار سونپنے کی وجہ سے روسی فوج پر سبقت حاصل ہوئی جہاں فیصلہ سازی کا اختیار اوپر کے درجے پر موجود افسران کو ہی ہوتا حاصل ہوتا ہے۔
یوکرین کی فوج میں موجود چند ذرائع نے تو یہ دعوی تک کیا کہ یوکرین کی کامیابی کی اصل وجہ زمین پر موجود کمانڈر اور ان کے فیصلے ہیں جبکہ جنرل زولوزنی کو صرف اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ انھوں نے اپنے ماتحت کمانڈروں کو کام کرنے کی آزادی دی۔
تاہم ایک جانب جہاں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی یوکرین کی عوام کے حوصلے بلند رکھنے اور مغربی دنیا سے معاشی اور عسکری مدد حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہے، وہیں جنرل زولوزنی کی پوری توجہ عسکری حکمت عملی کو درست رکھنے پر مرکوز رہی۔
گذشہ سال موسم گرما کے اختتام تک یوکرین کی فوج ملک کے مشرق اور جنوب میں کافی حصہ روس سے آزاد کروا چکی تھی۔
ایسے میں ملک کی فوج کے کمانڈر ان چیف ایک قومی ہیرو بن گئے۔ اس کے باوجود وہ نہ تو عوامی سطح پر دکھائی دیتے اور نہ ہی انٹرویو دیتے۔
لیکن ان کا نام اب یوکرین میں بہادری اور عزم کی علامت بن چکا ہے۔ ان کی شخصیت کے بارے میں کئی جملے عوام میں عام ہو چکے ہیں۔
ایسا ہی ایک جملہ ہے کہ ’جب زولوزنی ایک تاریک کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو وہ لائٹ آن نہیں کرتے بلکہ اندھیرا آف کر دیتے ہیں۔‘
ان کی مقبولیت کا مقابلہ صدر زیلینسکی سے ہونے لگا تو سازشی نظریات رکھنے والوں نے دونوں کے درمیان ممکنہ تناؤ کی افواہیں پھیلانا شروع کر دیں۔
یہ افواہ بھی پھیلی کہ صدر زیلینسکی ان کو عہدے سے ہٹانے والے ہیں یا پھر یہ کہ جنرل زولوزنی صدر زیلینسکی کی سیاسی لیڈر شپ کو چیلنج کر سکتے ہیں تاہم اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔
یوکرین کی صدارتی انتظامیہ میں شامل ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’صدر کے پاس حسد پالنے کے لیے کوئی وقت نہیں کیونکہ ان کی ساری توجہ یوکرین کے لیے ضروری عسکری حمایت حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔‘
فی الحال دونوں ہی اپنا اپنا کام کرنے میں خوش ہیں۔
گزشتہ جون میں جنرل زولوزنی نے ٹائمز میگزین سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ صدر زیلینسکی کو عسکری حکمت عملی کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کی وضاحت نہیں دیتے۔
جنرل زولوزنی نے کہا تھا کہ ’ان کو عسکری امور سمجھ بوجھ کی ضرورت نہیں بالکل ایسے ہی جیسے ان کو طب یا پل تعمیر کرنے کی سمجھ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔‘
سیاسی ماہرین کا کہنا کہ کہ موجودہ صورت حال میں جہاں یوکرین کی عوام کو ہمت کی ضرورت ہے، جنرل زولوزنی کی مقبولیت قدرتی عمل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس میں جنرل زولوزنی کی شخصیت کا بھی کردار ہے۔
ایک بار جنرل زولوزنی ایک ایسے فوجی کی شادی پر اچانک پہنچ گئے جسے پہلے یہ تقریب اس لیے ملتوی کرنا پڑی تھی کیونکہ اسے محاذ جنگ پر بھجوایا جا رہا تھا۔ بعد میں اس فوجی کو شادی کے لیے مختصر چھٹی دے دی گئی۔
حال ہی میں جب یوکرین کی جانب سے جوابی کارروائی کا تذکرہ عام ہوا تو روسی بلاگرز نے ایسی افواہیں پھیلانا شروع کر دیں کہ جنرل زولوزنی شدید زخمی ہو چکے ہیں یا ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان افواہوں کے بعد روس کے فارن انٹیلیجنس چیف سرگئی نارشکن نے کہا کہ ’ہمارے پاس یوکرین کی فوج کے کمانڈر کی صحت کے بارے میں تمام معلومات ہیں لیکن ہم ان کو عام نہیں کریں گے۔‘
جنرل زولوزنی کے قریبی ساتھی کرنل اناتولی شٹیفان نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین کی فوج کے اعلی عہدیداران نے ان افواہوں پر کہا کہ یہ روسی پراپپیگینڈا کے پاگل پن کی انتہا تھی تاہم یہ واضح ہو رہا تھا کہ یوکرین کے لوگ بھی پریشان ہو رہے تھے۔
جون کے آغاز میں یوکرین کی وزارت دفاع نے جنرل زولوزنی کی متعدد تصاویر شائع کیں جن میں ان کو دارالحکومت میں ایک تقریب میں حصہ لیتے دیکھا جا سکتا تھا۔
اس وقت تو شاید جنرل زولوزنی ایک ہیرو ہیں لیکن ان سے وابستہ امیدیں مستقبل کو پیچیدہ بنا سکتی ہیں۔
اگر یوکرین اس جنگ میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو تجزیہ کار اولیکسی کے مطابق یوکرین کو تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد یوکرین کو ایک شدید معاشی بحران کا سامنا ہو گا اور ایسے میں حالات بہت مختلف ہوں گے۔
سیاسی امور کی ماہر میکولا ڈیوڈک کا ماننا ہے کہ اگر یوکرین کی فوج کے کمانڈر نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو وہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’زیلنسکی ایک ایسا لیڈر ہے جس نے عوام کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑا لیکن زولوزنی وہ لیڈر ہے جس نے ان کا دفاع کیا۔ ایسے نظرے کی ہمارے معاشرے میں مانگ ہوتی ہے۔‘
بی بی سی نے جنرل زولوزنی سے انٹرویو کی درخواست کی تھی تاہم انھوں نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا۔