انتباہ: اس تحریر میں موجود بعض تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔
‘بی بی نامئی نے اپنے شوہرکو بچانے کی بھرپورکوشش کی لیکن انھیں کامیابی نہ ملی لیکن اپنی جان گنوا کر انھوں نے قربانی کی ایک نئی داستان رقم کردی‘
یہ کہنا ہے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالغنی مری کا جن کے خاندان کے چار افراد ایک المناک واقعے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔
انھوں نے بتایا کہ بی بی نامئی نے جب دیکھا کہ ان کے شوہر خمیسہ خان گھر میں موجود کنویں میں بے ہوش ہو کرپانی میں ڈوب گئے ہیں تو کسی مرد کا انتظار کیے بغیر وہ ان کو بچانے کے لیے خود کنویں میں اتر گئیں لیکن کنویں میں گیس کی موجودگی کے باعث وہ بھی گر کر پانی میں ڈوب گئیں۔
ان دونوں کو بچانے کے لیے خاندان کے دو دیگر افراد نے بھی کوششیں کیں لیکن ایک دوسرے کی زندگیوں کو بچانے کی کوشش میں وہ سب زندگی کی بازی ہار گئے۔
غم سے نڈھال عبدالغنی نے بتایا کہ ’چار پیاروں کی ناگہانی موت نے ہمارے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔‘
انھوں نے بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم اے اور پولیس سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر بروقت نکالنے کے لیے کوشش کی جاتیں تو شاید ہمارے پیاروں کی زندگیاں بچ جاتیں۔
ان افراد کو بچانے کے لیے مبینہ طور پر بروقت اقدام نہ کرنے پر جمعے کے روز پی ڈی ایم اے کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے باہراحتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
تاہم پی ڈی ایم اے نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اتھارٹی نے ان افراد کو بچانے کے لیے بروقت کوششوں کا آغاز کیا اور خطرات کے باوجود انھیں بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔
‘پانی کی عدم دستیابی چاروں افراد کی ناگہانی موت کی وجہ بنی’
ہلاک ہونے والوں میں خاندان کے سربراہ محمد علی اور ان کے دو بیٹوں خمیسہ اورمحمد یوسف کے علاوہ خمیسہ کی بیوی نامئی شامل تھیں۔
بی بی نامئی کے چھ بچے ہیں جن میں چھ ماہ کی شیرخواربچی بھی شامل ہے۔
اس خاندان کے لوگ سریاب میں کیچی بیگ کے علاقے کلی بارانزئی میں طویل عرصے سے ایک کرائے کے گھر میں قیام پذیر ہیں۔ زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے خاندان کے افراد محنت مزدوری کرتے ہیں۔
عبدالغنی مری نے بتایا کہ کوئٹہ شہر بالخصوص سریاب کے اکثرعلاقوں میں گھروں میں لگے نلکوں پانی نہیں آتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کا کنبہ 30 کے قریب افراد پر مشتمل ہے اور ان کی پانی کی ضرورت کے لیے ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ مہینے میں پانی کے چار پانچ ٹینکرز منگوائیں۔
‘آپ کو معلوم ہے کہ اس مہنگائی میں اب پیسے والوں کے لیے پانی کا ٹینکر منگوانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہم غریب لوگ تواس کی بالکل سکت نہیں رکھتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمارے گھرمیں ایک چھوٹا سا کنواں ہے اور جب اس کی مشینری خراب ہوتی ہے تو ہم اس کو خود ٹھیک کرتے رہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ گھر میں لگے کنویں کی مشینری خراب ہوئی تھی جس کے باعث گھرمیں پانی کا مسئلہ تھا۔
’دو جون کو کنویں کے اندر مشینری کو ٹھیک کرنے کی کوشش ہمارے خاندان کے لیے نیک شگون ثابت نہیں ہوئی کیونکہ اس نے خاندان کے چار افراد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر دیا۔‘
شوہر کو بچانے کے لیے نامئی کنویں میں اتریں لیکن گیس کے باعث توازن کھو کر پانی میں گر گئیں۔
عبدالغنی کو خاندان کے چار افراد کے بچھڑ جانے کے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کئی مرتبہ اپنے آنسوؤں کو ضبط کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ چھ بھائیوں میں سے دوسرے نمبر پر سب سے بڑا بھائی خمیسہ کنویں کے اندر مشینری کو ٹھیک کرنے کے لیے اترے تھے۔
‘خمیسہ کنویں کے اندراترنے اور مشینری کو باہر نکالنے یا وہیں اس کو ٹھیک کرنے کے ماہر تھے لیکن دو جون کو وہ کنویں میں گیس کی موجودگی کے باعث بے ہوش ہو کر گر گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ میں اور خاندان کے زیادہ تر دیگر مرد کام کاج کے سلسلے میں گھر سے باہرتھے اس لیے خمیسہ کی بیوی بی بی نامئی نے دیکھا کہ شوہربے ہوش ہو کر پانی میں گر گیا تو وہ خود انھیں بچانے کے لیے کنویں میں اتر گئیں لیکن گیس کے باعث توازن کھو بیٹھیں اور پانی میں گرگئیں۔
عبدالغنی مری نے بتایا کہ ان کے بعد بوڑھے والد نے دونوں کو بچانے کی کوشش کے طورپرکنوِیں میں اترگئے لیکن وہ بھی بے ہوش ہوکرنیچے گر گئے۔
جب سب سے چھوٹے بھائی یوسف نے دیکھا کہ کوئی اور نہیں ہے تو یہ جانتے ہوئے کہ خطرہ ہے مگر پیاروں کو بچانے کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کروہ بھی کنویں میں داخل ہوا مگر وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے باعث ان کے ایک قریبی رشتہ داراورایک ہمسایہ چاروں کو بچانے کی کوشش کے طورپرکنویں میں اترے۔
انھوں نے کہا کہ دونوں کے اترتے وقت لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی اور احتیاطی تدابیر کے طورپر دونوں کو یکے بعد دیگرے رسیوں کے ذریعے اتارا گیا۔
انھوں نے کہا کہ جب کچھ گہرائی تک جانے پر ان کی حالت غیر ہو گئی اورانھوں نے خطرے سے آگاہ کیا تو ان کو فوری طور پرباہر نکال لیا گیا۔
’پی ڈی ایم اے کی ایمبولینس میں آکسیجن کے سلنڈر بھی نہیں تھے‘
عبدالغنی مری نے کہا کہ یہ واقعہ صبح نو ساڑھے نو بجے کے قریب پیش آیا اور لوگوں نے مقامی پولیس اور پی ڈی ایم اے کے کنڑول روم کو اس کی اطلاع دی مگر فوری طور پر کوئی نہیں پہنچا جس کے باعث چاروں میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچ سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اے کے اہلکار ایک ڈیڑھ بجے کے قریب پہنچے اوراپنی کارروائی کا آغاز کیا۔
‘جب پی ڈیی ایم اے کے اہلکارآئے توان کے پاس رسی تک نہیں تھی، انھیں ہم لوگوں نے رسی برابر کر کے دی۔‘
انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کا جب پہلا ریسکیو اہلکار داخل ہوا تو وہ بھی بے ہوش ہو گیا، بڑی تگ و دو کے بعد پی ڈی ایم اے والے کنویں سے صرف دو افراد کو نکال سکے۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ پی ڈی ایم اے والے جو ایمبولینس لائے تھے ان میں آکسیجن کے سلنڈر بھی نہیں تھے۔
انھوں نے کہا کہ دوافراد کی لاشوں کو نکالنے کے بعد پی ڈی ایم اے اہلکاروں نے گیس کی موجودگی کی آڑ میں دوسرے دو کو نکالنے کی کوششوں کو ترک کر دیا۔
عبدالغنی نے بتایا کہ ہمارے چار پیارے کنویں کے اندر تھے اورہم چاہتے تھے کہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیران کو نکال کران کی زندگیوں کو بچایا جائے ۔
انھوں نے کہا کہ ’اول تو پی ڈی ایم اے والوں نے بہت زیادہ تاخیر کی لیکن جب دو افراد کی لاشوں کو نکالا گیا تو انھوں نے مزید کام نہیں کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم تو اس وقت اس طرح تڑپ رہے تھے جس طرح مچھلی بغیر پانی کے ہوتی ہے لیکن پی ڈی ایم اے کے اہلکار پیچھے ہٹ گئے جس کے باعث پرائیویٹ غوطہ غوروں کو منگوایا گیا۔
عبدالغنی نے بتایا کہ پی ڈی ایم اے ایک بہت بڑا ادارہ ہے جس کے ملازمین کی تنخواہوں پرماہانہ لاکھوں روپے ادا کیے جاتے ہیں لیکن نہ صرف ان کا ردِ عمل بروقت نہیں تھا بلکہ لاشوں کو نکالنے کا عمل بھی مکمل نہیں کیا جس پر مجبوراً مستونگ سے پرائیویٹ غوطہ خوروں کو منگوانا پڑا۔
پی ڈی ایم اے بلوچستان کے حکام نے جائے وقوعہ پرتاخیر سے پہنچنے، کوتاہی کا مظاہرہ کرنے اور ایسے واقعات سے نمٹنے کی صلاحیت نہ رکھنے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
جب ان الزامات کے حوالے سے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر ظہیراحمد سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اطلاع ملنے کے فوراً بعد پی ڈی ایم کی ریسکیو ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی۔
’یہ بات کسی طرح درست نہیں ہے کہ پی ڈی ایم اے کی ٹیم تین گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی۔ اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ جب پی ڈی ایم اے کو اس واقعے کے بارے میں کال موصول ہوئی تو ریسکیوٹیم آدھے گھنٹے میں جائے وقوعہ پرپہنچ گئی تھی۔‘
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹرریسکیو نے بتایا کہ بنیادی طورپر یہ کام مائنز ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم اے اپنے کارکنوں کی جان کو خطرے میں ڈال کر لوگوں کی مدد کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کنویں میں گیس زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ٹیم کا ایک رکن بے ہوش ہوا تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے ان لوگوں کی بچانے کی ہرممکن کوشش کی۔‘
انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کے اہلکاروں نے تمام افراد کی لاشوں کو نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ظہیراحمد نے بتایا کہ یہ الزام بھی درست نہیں کہ پی ڈی ایم اے کی ایمبولینسز میں آکسیجن سلنڈر نہیں تھے،اس جدید دود میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایمبولینس اکسیجن سلنڈراور دیگر سہولیات کے بغیر ہو۔
انھوں نے کہا کہ جب مستونگ سے یہ دوغوطہ خور پہنچے توان کے پاس پی ڈی ایم اے اہلکاروں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں غوطہ خوروں کو کنویں کے اندر موجود دونوں لاشوں کو نکالنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور انھوں نے انتہائی کم وقت میں لاشوں کو نکال دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ چاروں افراد کو نکالنے میں بہت زیادہ تاخیر ہوئی جس کے باعث ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں نکالا جا سکا۔
انھوں نے کہا گذشتہ سال بھی سریاب روڈ پر ایک بچہ سمیت دو افراد کی لاشوں کو پی ڈی ایم اے کے اہلکار نہیں نکال سکے تھے۔
واضح رہے کہ ان میں بالاچ نامی نوجوان بھی شامل تھا جو ایک کچرہ چننے والے بچے کو بچانے کے لیے کنویں میں داخل ہوا تھا لیکن وہ بھی جان کی بازی ہارگیا تھا۔
ان دونوں افراد کی لاشوں کو پرائیویٹ غوطہ خوروں نے نکال دیا تھا۔
’تین کمانے والوں کے جانے سے ہماری مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا‘
عبدالغنی نے بتایا کہ کسی فیملی کے لیے صرف ایک فرد کی ناگہانی موت ایک بہت بڑا صدمہ ہوتا ہے۔ ہمارے خاندان کے تو چار پیارے ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
انھوں نے بتایا کہ ہمارا خاندان بڑا ہے جس کی خوشیوں کے لیے پہلے ہمارے والد نے پوری زندگی محنت کی اور اب آخر میں ان کو بچانے کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری بھابی بہت باہمت خاتون تھیں جس کا اظہارانھوں نے شوہرکو مشکل حالت میں دیکھ کر کیا۔
انھوں نے کہا کہ خمیسہ اور بھابی کے چھ بچے ہیں اوردونوں کی ناگہانی موت کی وجہ سے ان کے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی ہم چار بھائیوں کے کندھوں پرآ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا ہم لوگوں کی مالی حالت پہلے سے بہترنہیں تھی لیکن اب بیک وقت تین کمانے والوں کے جانے سے ہماری مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔