’کیا آپ نے کبھی دنیا کی سیر کا خواب دیکھا ہے اور وہ بھی ہر ملک کی سیر کا؟دنیا میں ایسے 300 سے بھی کم لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ایسے خواب کو پورا کیا۔ ان میں سے تین لوگ ایسے ہیں جنھوں نے دو بار دنیا کے تمام ممالک کا سفر کیا جبکہ دو ایسے افراد ہیں جو دنیا کی سیر پر نکلے تو پھر وہ گھر لوٹ کر واپس نہ آسکے۔
صرف ایک ہی ایسا شخص ہے، جس نے بغیر ہوائی سفر کیے دنیا کی سیر کا کارنامہ انجام دیا۔‘
’ونس اپان اے ساگا‘ ویب سائٹ پر ڈنمارک کے باشندے نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا نام ٹارب جورن سی پیڈرسن ہے۔ جو کسی مسافر کے لیے انتہائی غیر موزوں نام ہے لیکن اس بات نے مجھے کبھی نہیں روکا۔ آپ مجھے تھار کہیے۔‘
اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ انھیں ڈنمارک کے سائنسدان پیٹ ہیئن کی ایک بات نے دنیا کے سفر کی ترغیب دی، جنھوں نے کہا تھا کہ ’کسی کو یہ سمجھنے کے لیے سفر کرنا چاہیے کہ دنیا گول ہے۔‘
تقریباً 9 سال قبل انھوں نے دنیا کی سیر کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا تھا اور یہ تہیہ کیا تھا کہ سفر مکمل کیے بغیر وہ گھر واپس نہیں لوٹیں گے۔
انھوں نے ایک آسان سا اصول بنا لیا تھا کہ وہ کسی بھی ملک میں کم از کم 24 گھنٹے گزاریں گے اور ہوائی جہاز سے سفر نہیں کریں گے۔ وہ زمین یا پانی کے راستے دنیا بھر کا سفر کریں گے۔
انھوں نے ویب سائٹ پر لکھا کہ ’میں نے طے کیا تھا کہ میں کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے کے لیے نہ کوئی کار خریدوں گا، نہ کرائے پر لوں گا اور ڈرائیور تو بالکل نہیں رکھوں گا۔ اس طرح میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ مجھے مقامی لوگوں اور مسافروں کے ساتھ کافی وقت گزارنے کا موقع ملے اور یہ دنیا کو دیکھنے کا ایک انوکھا طریقہ ہوگا۔‘
203 ممالک کا سفر
بہرحال انھیں پوری دنیا کے تمام ممالک کا سفر کرنے میں 3512 دن لگے۔ اس دوران انھوں نے پیدل، کار، بس، ٹرین اور کشتی کے ذریعے سفر کیا۔
تھار کا کہنا ہے کہ انھوں نے 203 ممالک کا دورہ کیا اور ان کی اپنی فہرست میں متنازع علاقے بھی شامل ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی مہم جوئی 10 اکتوبر 2013 کو صبح دس بج کر دس منٹ پر شروع ہوئی اور ان کا اندازہ تھا کہ یہ سفر سنہ 2018 تک ختم ہو جائے گا لیکن انھیں اسے پورا کرنے میں توقع سے پانچ سال زیادہ لگے۔
مئی سنہ 2023 میں وہ بحر ہند کے جزیرہ نما ملک مالدیپ پہنچے۔ یہ ان کی فہرست میں شامل آخری ملک تھا اور ان کا ارادہ تھا کہ وہ اس نئے ملک کا خوب لطف اٹھائیں گے کیونکہ وہ آخری بار کوئی نیا ملک دیکھ رہے ہوں گے۔
وہ جون تک اسی ملک میں کوڑے کے ڈھیر سے بنے جزیرے تھیلافوشی پر موجود تھے اور وہیں سے انھوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کے بی بی سی او ایس پروگرام سے بات کی۔ ان کے انٹرویو کا اقتباس یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
دو شادیاں
آپ کے سفر کی سب سے یادگار چیز کیا تھی؟
بہت ساری چیزیں! پہلی بار شادی کرنا، پھر دوسری بار شادی کرنا۔
پہلی بار ایک راکٹ کو خلا میں چھوڑے جاتے ہوئے دیکھنا اور یہ محسوس کرنا کہ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کسی بھی چیز کو کرہ ارض سے نکلتے دیکھا تھا۔۔۔ یہ ایک بہت عظیم لمحہ تھا۔
کنٹینر کے جہاز پر طوفان میں گھر جانا، وھیل مچھلی کو چھلانگ لگاتے دیکھنا، سوڈان میں شادی میں مدعو کیا جانا، وغیر وغیرہ!
شادی کے بعد بیوی سے ملاقات کا وقت کیسے نکالتے تھے؟ یہ کتنا پیچیدہ تھا؟
وہ دنیا بھر میں 27 بار مجھ سے ملنے آئیں لیکن سب سے مشکل دور وہ تھا جب میں وبائی امراض کے دوران ہانگ کانگ میں دو سال تک پھنسا رہا تھا۔
ہانگ کانگ میں پابندیوں پر کافی سختی سے عمل کیا جا رہا تھا۔ میں کسی بھی بحری جہاز پر نہیں جا سکا اور جن ممالک میں مجھے جانا تھا ان میں سے بیشتر نے اپنی سرحدیں بند کر رکھی تھیں۔
اور میری بیوی ہانگ کانگ میں مجھ سے ملنے نہیں آ سکتی تھیں، ہم نے تب تک شادی نہیں کی تھی اور میں وہاں کا رہائشی نہیں تھا تو مجھے اسے کا حل تلاش کرنا پڑا۔
پھر کسی طرح میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور ایک عارضی رہائشی بن گیا اور ہم یوٹاہ میں ایک ایجنسی کے ذریعے آن لائن شادی کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اس طرح شادی ڈنمارک میں قابل قبول شادی نہیں تھی،لیکن یہ ہانگ کانگ کی بات تھی جہاں یہ میرے لیے کاغذی کارروائی کرنے اور ویزا بھیجنے کے لیے کافی تھی۔
اس طرح وہ وہاں آنے کے قابل ہوئی اور ہم نے تقریباً 100 دن ایک ساتھ گزارے۔
داخل ہونے کے لیے سب سے مشکل ملک
کس ملک میں داخل ہونا سب سے مشکل تھا؟
افریقہ کے ملک استوائی گنی میں۔ میں نے عملی طور پر ہار مان لی تھی۔ میں مصیبت میں پڑ گیا تھا۔
میں نے ویزا حاصل کرنے کی کوشش میں مختلف سفارتخانوں اور قونصل خانوں کا دورہ کیا جہان انھوں نے میرے ساتھ کوئی شائستہ یا اچھا سلوک نہیں کیا۔
میں نے زمین کے راستے سرحدیں عبور کیں اور بہت سی چیک پوائنٹس پر وردی میں موجود کوئی بھی شخص میری زندگی کو ڈراؤنا خواب بنانے کے لیے کافی تھا۔ یہ واقعی ایک مشکل دور تھا۔
مجھے استوائی گنی میں داخل ہونے میں تقریباً چار مہینے لگے۔
لیکن کیا وہ اس کے قابل تھا؟
ہاں، وہ 100واں ملک تھا، لہذا وہ میری پیشرفت کے لحاظ سے اس کے قابل تھا۔
یہ ایک خوبصورت ملک ہے۔ بہت ہی خوبصورت ملک ہے اور جن لوگوں سے میں وہاں ملا تھا وہ بہت، بہت دوستانہ تھے۔
تحائف اور یادگار
ہم میں سے بہت سے لوگ، اگر خوش قسمتی سے سفر کرنے کے قابل ہوتے ہیں تو ہم یادگار تحائف خریدتے ہیں۔ کیا آپ نے ایسا کچھ کیا اور اسے گھر بھیج دیا ہو؟
میں ایسی کوئی چیز نہیں خرید سکتا جو میرے سامان میں فٹ نہ ہو۔
عام طور پر میں تحائف نہیں خریدتا کیونکہ مجھے انھیں کم از کم اس وقت تک سنبھالنا پڑتا جب تک کہ کہیں میری اہلیہ مجھ سے ملنے نہیں آتی کہ وہ انھیں اپنے ساتھ گھر لے جائے۔
لیکن میں نے پوری دنیا سے کچھ یادگاریں جمع کی ہیں اور لوگوں نے مجھے بہت سے تحائف بھی دیے ہیں۔ لوگ واقعی مہربان اور فیاض ہیں۔
جیسا کہ میں ڈینش ریڈ کراس کی خیر سگالی کا سفیر ہوں، اس لیے میں نے تقریباً 190 ممالک میں ریڈ کراس والوں سے ملاقات کی۔
انھیں کافی کے کپ دینے کی عادت ہے، اس لیے دس ریڈ کراس کے دوروں کے بعد میرے پاس ریڈ کراس کے دس کافی کپ تھے جن کے ساتھ میں سفر کر رہا تھا۔
جب آپ طیاروں کو اوپر سے اڑتے ہوئے دیکھتے تھے تو کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ’ارے یہ تو چیزوں کو بہت آسان بنا دیتا۔‘
بالکل۔ آپ نہیں جانتے کہ میں نے کتنی ہی بار ایک طویل اور انتہائی غیر آرام دہ بس کا سفر کیا۔ اس وقت میں نیلے آسمان کی طرف دیکھتا تو کسی ہوائی جہاز کو دیکھ کر سوچتا کہ میں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر رہا ہوں؟
میرا سب سے طویل بس کا سفر 54 گھنٹے کا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس طرح کے سفر کے بعد آپ کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔
اکتاہٹ کا شکار اور گھر جانے کے خواہش
اتنے طویل عرصے میں کیا آپ کبھی اکتاہٹ کا شکار ہوئے؟
بالکل۔۔۔میری بھی اپنی ایک حد تھی۔ سچ کہوں تو میں 2015 سے ہی ڈنمارک واپس جانے کا خواہشمند رہنے لگا۔
لیکن میں نے اپنے لیے ایک ہدف مقرر کر رکھا تھا اور میں ایسا کچھ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا تھا۔
میں نے سوچا کہ یہ بہت اہم ہے اور مجھے امید تھی کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں اس سے لوگ حوصلہ اور ترغیب حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے میں اپنے ہدف کے حصول کے لیے لڑتا رہا۔
سنہ 2019 میں میں واقعی تھک گیا تھا اور میرے پاس جانے کے لیے بہت سے ممالک بھی نہیں رہ گئے تھے۔
اور پھر وبائی بیماری پھیل گئی، جس نے مجھے مزید تین سال پیچھے کر دیا۔
تو اب میں گھر جانے کے لیے تیار اور بے تاب ہوں۔
جب تھار نے تقریباً ایک دہائی قبل اپنا گھر چھوڑا تھا تو وہ اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ ان کی اس طرح کی مہم جوئی کا مقصد کیا ہے۔
مقصد مل گیا
لیکن دوران سفر انھیں ان کا مقصد مل گیا۔ وہ اپنی ویب سائٹ پر کہتے ہیں
اس سے پہلے کسی نے ایسا نہیں کیا تھا
’کچھ نیا کرنا، دلچسپ اور پرکشش ہوتا ہے اور یہ پتا چلتا ہے کہ یہ بہت سے لوگوں کے لیے تحریک اور ترغیب کا ذریعہ ہوگا۔
‘۔ مجھے ڈینش ریڈ کراس کے خیر سگالی کے سفیر کے طور پر سفر کرنے کا اعزاز حاصل ہوا
’‘زیادہ تر لوگوں کی طرح، میں بھی اس کے بارے میں بہت کم جانتا تھا لیکن دنیا بھر کے رضاکاروں کی بات سن کر میں حیران تھا۔ میں ان لاکھوں رضاکاروں کی عزت کرتا ہوں جو ہر روز لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لاتے ہیں۔‘
۔ دنیا وہ نہیں، جس پر ہم میں سے اکثر یقین رکھتے ہیں
’مین سٹریم میڈیا ہمیں سنسنی خیز والا حصہ دکھاتا ہے۔ ہم اکثر دہشت گردی، بدعنوانی، تنازعات، قدرتی آفات، اموات، انتہا پسندی کے بارے میں بہت کچھ سنتے ہیں۔
اگرچہ یہ دنیا پوری طرح ٹھیک نہیں لیکن خوش قسمتی سے میں نے دریافت کیا کہ یہ اچھی ہے اور ہم جن لوگوں کے ساتھ اس سیارے کو شیئر کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر اچھے لوگ ہیں۔
کچھ لوگوں کے لیے سیاست اور مذہب اہم ہیں لیکن میں نے اکثر پایا کہ پانچ چیزیں خاندان، کھانا، موسیقی، کھیل اور موسم کے بارے میں بات کرنا بہت زیادہ اہم ہیں۔
دنیا کے ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے دنیا کے بہترین ممکنہ ملک کے طور پر دیکھا جائے۔‘
۔ آپ کم بجٹ میں بھی سفر کر سکتے ہیں
’کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کم بجٹ میں رہنا اذیت ناک ہے۔ کبھی کبھی مجھے اچھے بستر، زیادہ عیش و عشرت اور ایک بھرپور رسیلے سٹیک کی خواہش ہوتی ہے۔
لیکن میں اپنے بجٹ پر قائم ہوں کیونکہ بہت سے لوگوں کے مطابق ان کے خواب وقت یا پیسے کی کمی یا دونوں کی وجہ سے شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتے۔
آپ کو اپنا وقت خود بنانا ہوگا لیکن یہ پروجیکٹ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو سفر کرنے، ثقافتوں کو دریافت کرنے اور نئے دوست بنانے کے لیے کروڑ پتی ہونے کی ضرورت نہیں۔‘
آخر میں تھار تجسس اور حیرت کے سمندر میں غرق تھے کیونکہ انھوں نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ دنیا کتنی حیرت انگیز ہے اور اس میں کتنا کچھ سیکھنے کے لیے ہے۔
اس کے علاوہ ایک کہاوت ان کے لیے ہمیشہ ہی باعث کشش رہی کہ ’ایک اجنبی ایسا دوست ہے جسے آپ ابھی تک نہیں ملے۔۔۔ کون جانے میں کل کس سے ملوں؟‘