مشکل یہ ہے کہ جتنی محنت اور لگن سے ایک نئی سیاسی جماعت یا کسی تازہ نجات دھندہ کا پتلا مارکیٹ میں لایا جاتا ہے وہ دو، تین، چار برس تو خالق کا احسان مند رہتا ہے۔
پھر اس پتلے میں ڈالی جانے والی روح اپنے آزادانہ اظہار کے لیے انگڑائیاں لینا شروع کر دیتی ہے۔ چنانچہ خالق و مخلوق میں ایک بار پھر کش مکش شروع ہو جاتی ہے۔
بالآخر اس پتلے میں سے کسی نہ کسی طرح روح قبض کر کے اسے ایک نئے قالب میں ڈالا جاتا ہے۔ اس نئے قالب میں بھی کچھ عرصے بعد اتھل پتھل شروع ہو جاتی ہے اور پھر خالق کو یہ روح شانت کرنے کے لیے ایک نیا جسد ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
تو یہ ہے مختصر سی کہانی مقامی صنعتِ پتلا سازی کی۔
مگر جسے میں اپنی آسانی کے لیے کارخانہ کہہ رہا ہوں، وہ دیکھنے میں ایک بڑا سا ورکنگ سٹوڈیو ہے۔ اس میں طرح طرح کے چاک دھرے رہتے ہیں۔
ڈائی، رنگ اور برش کا سٹاک کبھی کم نہیں پڑتا۔ ایک ہال میں بڑے بڑے ڈرائنگ بورڈز ہیں۔ ایک اور ہال میں جانے مانے ڈیزائنرز اور تجربہ کار کاریگر متحرک رہتے ہیں۔
اس سٹوڈیو میں چھنی ہوئی مہین خاک سے پتلے بنائے جاتے ہیں۔ ان پر حسبِ منشا یا مارکیٹ کی مانگ کے مطابق مہنگے نیچرل ماحول دوست رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان پتلوں کو حسبِ خواہش و ضرورت پرانی خامیوں سے پاک کر کے نئی خوبیاں ڈال کے ری سائیکل بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس کارخانے سے متعدد ریاستی و سرکاری ادارے بھی آرڈر پر پتلے بنواتے ہیں اور اپنی برانڈنگ کے ساتھ مارکیٹ میں لانچ کرتے ہیں۔
کچھ پتلے لمیٹڈ ایڈیشن میں تیار ہوتے ہیں اور تاریخی و نوادراتی اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسے ریپبلکن پارٹی، کنونشن مسلم لیگ، نیشنل پیپلز پارٹی، پیپلز پارٹی پیٹریاٹ، پاک سرزمین پارٹی، وغیرہ وغیرہ۔
کچھ اپنی پائیداری اور آسان دستیابی کے سبب ہر خاص و عام کے لیے ہاؤس ہولڈ نام بن جاتے ہیں۔ ان میں اوریجنل کے علاوہ ری سائیکلڈ پتلے بھی ہوتے ہیں۔ اور بعضے بعضے تو اپنے خالق کے اندازوں، توقعات اور کاپی رائٹس قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے خود اپنی برانڈنگ شروع کر دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو اصلی تلوار مارکہ پروڈکٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
جیسے متحدہ پاکستان میں مسلم لیگ کے بطن سے نکلنے والی عوامی لیگ، کنونشن لیگ سے جنم لینے والی پیپلز پارٹی، مکمل ری سائیکلڈ میٹریل سے تیار شدہ مسلم لیگ نون اور پھر اس کی ری سائیکلنگ سے بننے والی مسلم لیگ ق وغیرہ۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچانک یا ہنگامی مارکیٹ ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے سٹاک میں پڑِے کسی ڈیزائن کو موڈیفائی کر کے نیا جازبِ نظر پتلا فوراً بازار میں لانا پڑ جاتا ہے۔
مثلاً انیس سو اسی کی دہائی میں ایم کیو ایم برانڈ کی ہنگامی لانچنگ یا اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں کے مدِنظر پہلے سے گندھی مٹی سے تیار کردہ برانڈ پی ٹی آئی۔
جب ان ماڈلز میں بھی ماضی کے کچھ پتلوں کی طرح جان پڑ گئی تو انھیں بھی مارکیٹ شیلفس سے ہٹا کے ری سائیکلنگ کے شعبے کے حوالے کرنا ایک بار پھر نگار خانے کے پروپرائٹر کی کاروباری مجبوری بن گیا۔
پتلا سازی کے کارخِانے کا کرییٹو ڈپارٹمنٹ ہر علاقے کی محدود مارکیٹ کی ڈیمانڈ بھی دیکھتا ہے۔ مثلاً سندھ کی مارکیٹ میں پہلے سے موجود چالو آئٹمز کے درمیان نئے پتلوں کی برانڈ ٹیسٹنگ ہوتی رہتی ہے۔
بلوچستان تو خیر ہر طرح کے ری سائیکلڈ پتلوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں قومی سطح پر لانچنگ سے پہلے نئے ماڈلز کی سیمپل ٹیسٹنگ بھی ہوتی ہے۔
جبکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں مقامی سطح پر پتلوں کی تیاری کے عمل پر لاگت زیادہ آتی ہے۔ لہذا ان علاقوں میں حسبِ ضرورت قومی برانڈز کے حاضر سٹاک سے ہی مال سپلائی کر دیا جاتا ہے۔
اس گرینڈ سٹوڈیو میں محض سیاسی مارکیٹ کی ڈیمانڈ ہی پوری نہیں ہوتی۔ بیوروکریسی، معیشت، فنونِ لطیفہ اور میڈیا کی صنعت کے آرڈرز بھی بخوشی وصول کیے جاتے ہیں اور گاہکوں کو حسبِ ضرورت پرانے پتلوں کی مرمت و اوور ہالنگ، ری ڈیزائننگ اور ری ٹچنگ کی آفٹر سیلز سہولتیں بھی مہیا کی جاتی ہیں۔
پتلا سازی کی صنعت بھی حساس کیٹیگری میں شمار ہوتی ہے۔ لہذا اس میں نجی شعبے کی شراکت داری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ آزاد بیرونِی سرمایہ کاری کی تاحال کوئی روائیت نہیں۔ البتہ مسلسل اپ گریڈیشن کی خاطر جدید تصورات، مہارت، ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی اور خام مال کی حسبِ ضرورت ترسیل کی اجازت ہے۔ اس صنعت کے کاریگروں کو بیرونِ ملک مطالعاتی دوروں اور شارٹ کورسز پر بھی اکثر بھیجا جاتا ہے۔
ان دنوں مارکیٹ کی نبض غیرمعمولی تیز ہے۔ چنانچہ بدلتی ہوئی ڈیمانڈ کی تسکین کے لیے کارخانے کا ہر شعبہ نت نئے آئیڈیاز پر تین شفٹوں میں کام کر رہا ہے۔ امید ہے اگلے چند ماہ میں مزید جازبِ نظر پتلے لانچ ہوں گے۔
ان میں سے کتنے قبولِ عام ہوتے ہیں، کتنے خواص میں پاپولر ہوتے ہیں اور کتنے فلاپ ہو کے واپس ری سائیکلنگ کے شعبے میں پہنچ جاتے ہیں اور کتنے ڈسپوز آف ہو جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ فی الحال لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ یہ ایک ماحولیات دوست صنعت ہے۔ یہاں کسی بھی طرح کا خام مال ضائع نہیں ہوتا۔ جو مال بار بار کی ری سائیکلنگ کے بعد پتلہ سازی کے قابل بھی نہیں رہتا وہ گھگو گھوڑے اور دیگر کھلونوں کی تیاری میں کھپ جاتا ہے۔