پاکستان کی کرکٹ ٹیم سات سال بعد 27 ستمبر کی شام انڈیا کی سرزمین پر اتری تو اس کا شاندار استقبال ہوا لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے پریکٹس میچ میں ٹیم نے مایوس کن پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔
پاکستانی ٹیم نے مقررہ 50 اوور میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 345 رنز بنائے جس میں رضوان احمد کی سنچری اور بابر اعظم اور سعود شکیل کی نصف سنچریاں شامل تھیں۔
نیوزی لینڈ نے یہ ہدف با آسانی 44 ویں اوور میں ہی مکمل کر لیا جس میں روچن رویندر، کین ولیم سن، ڈریل مچل اور مارک چیپ مین کی نصف سنچریاں شامل تھیں۔
بہرحال سوشل میڈیا پر جہاں نیوزی لینڈ اور پاکستان کے پریکٹس میچ پر تبصرہ ہو رہا ہے تو وہیں دو دن سے پاکستانی ٹیم کے استقبال اور کھانے کے بارے میں بھی باتیں ہو رہی ہیں۔
یہاں تک کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی اس بابت ایک ٹویٹ کی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستانی ٹیم کو انڈیا میں کھانے میں کیا ملے گا۔
مینیو میں کون سے کھانے شامل ہیں؟
ورلڈ کپ کے لیے انڈیا آنے والی کسی بھی ٹیم کو بیف یعنی بڑے جانور یا گائے کا گوشت پیش نہیں کیا جا رہا۔
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق تمام ٹیموں کے لیے بیف کی عدم موجودگی میں مختلف النوع مینیو تیار کیا گیا ہے۔
’پاکستان نے چکن، مٹن اور مچھلی پر انحصار کرتے ہوئے اپنی روزمرہ کی پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متنوع مینیو وضع کیا ہے۔‘
مختلف النوع کھانوں میں دیگر لذیذ آپشن وھی موجود ہیں۔ ان میں رسیلی گرلڈ لیمب چانپ، روغن دار اور ذائقہ دار مٹن کری، ساری دنیا کا پسندیدہ بٹر چکن اور ضروری پروٹین کے حصول کے لیے گرلڈ مچھلی بھی شامل ہیں۔‘
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے لیے ابلے باسمتی چاولوں کو بھی مینیو میں شامل کیا گیا ہے۔ اگر کھلاڑی ہلکا پھلکا کھانا چاہتے ہیں ان کے لیے سپیگیٹی اور سبزی پلاؤ بھی دستیاب ہوں گے۔
اس کے علاوہ حیدرآباد کی مشہور بریانی بھی وقتا فوقتاً کھلاڑیوں کے لیے دستیاب ہو گی۔
واضح رہے کہ انڈیا میں گائے کو مقدس مانا جاتا ہے اس لیے ملک کے بہت سے حصوں میں اس کو ذبح کرنے پر پابندی ہے جبکہ چند حصوں میں بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
حیدرآباد میں پاکستانی ٹیم کے مینیو پر تنقید کرتے ہوئے ماسٹر وی جے این نامی صارف نے لکھا کہ ’اس ملک کی ثقافت میں شامل ایک بڑا حصہ بیف کھاتا ہے۔ یہ آج بھی انڈیا سے سب سے زیادہ برآمد کیا جاتا ہے اور انڈیا میں اسے کھایا بھی جاتا ہے۔ اسے دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کے مینیو سے ہٹانا عدم تحفظ کی انتہا ہے۔‘
اس کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہ ’اس منطق کے حساب سے جب آپ کیرالہ جائیں تو وہاں کی تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے پراٹھا بیف کھائیں۔‘
اس کے جواب میں ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ یہ بات صرف کیرالہ پر نہیں بلکہ سارے جنوبی ہند پر صادق نظر آتی ہے۔
لیکن صحافی فرید خان نے لکھا کہ ’اگر انڈیا میں ورلڈ کپ کے دوران بیف پیش نہیں کیا جا رہا تو اس میں کوئی مذائقہ نہیں۔ یہ تمام ٹیموں کے لیے ہے، صرف پاکستانی ٹیم کے لیے نہیں۔
انشمن سنگھ نامی ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ پاکستانی ٹیم کے پاس اپنا ماہر غذائیت ہو گا جو کھانے کا مینیو تیار کرنے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مہمانوں کی درخواست کو ہوٹل والے پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
یا د رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سنہ 2016 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کے بعد پہلی بار انڈیا آئی ہے اور سوائے دو کھلاڑیوں کے باقی تمام کھلاڑی پہلی بار ہی انڈیا آئے ہیں۔
پاکستان کی ٹیم اب اپنا اگلا وارم اپ میچ آسٹریلیا کے خلاف تین اکتوبر کو کھیلے گی جبکہ چھ اکتوبر کو وہ نیدرلینڈز کے خلاف ورلڈ کپ کا اپنا پہلا میچ کھیل رہی ہے۔ اس کا دوسرا میچ بھی حیدرآباد میں ہے جو 10 اکتوبر کو سری لنکا کے خلاف ہے۔
پاکستان کی ٹیم انڈیا کے خلاف 14 اکتوبر کے میچ کے لیے حیدرآباد سے احمد آباد روانہ ہوگی۔ اس طرح وہ دو ہفتوں تک حیدرآباد میں ہی ہو گی جو کہ اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ اپنے کھانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔