سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کی اکتوبر میں متوقع طور پر پاکستان واپسی سے قبل نئے سوال اور تنازعے جنم لے رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر خود ن لیگ کے بیانات کی وجہ سے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔
ایک جانب جہاں نواز شریف کی واپسی کے بعد ان کی بقیہ سزا کا سوال موجود ہے وہیں ایک تنازع ان کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت موجودہ سپریم کورٹ جج اعجاز الاحسن کے خلاف کارروائی کا عندیہ دینے کی وجہ سے کھڑا ہوا۔
یہ بیان نواز شریف نے لندن میں دیا تھا جس میں انھوں نے ان افراد کو سنہ 2017 میں ان کی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، عظمت سعید، اعجاز الاحسن پاکستان اور 22 کروڑ عوام کے مجرم ہیں۔ نواز شریف کے مطابق ’جب تک اس سازش میں شامل تمام کرداروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا، پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘
اس بیان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید احمد شاہ نے پاکستانی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو مشورہ دیا کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہ کرے اور ایسی محاذ آرائی سے گریز کرے۔
ایسے میں ن لیگی رہنماوں سے بھی صحافیوں کے سوالات کا تانتا بندھا تو منگل کے دن ن لیگی رہنما جاوید لطیف نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مٹی ڈالیں۔ تو چلیں 2017 کے کرداروں کا احتساب نہ کریں، اگر کوئی نہیں کروانا چاہتا، ادارے نہیں کرنا چاہتے، سمجھتے ہیں کہ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، کوئی کہتا ہے اس سے پھر ٹکراو کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔‘
جاوید لطیف نے اسی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’میں اور پارٹی میں نوے فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنے قصوروار جنرل فیض ہیں، اتنے ہی قصوروار جنرل باجوہ ہیں۔‘
جاوید لطیف کے اس بیان کے بعد یہ تاثر مضبوط ہوا کہ نواز شریف کی جانب سے سابق فوجی افسران اور ججوں کے خلاف کارروائی کی بات پر پارٹی پیچھے ہٹ رہی ہے۔
بدھ کی رات پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے پروگرام میں میزبان کاشف عباسی نے ن لیگ کے رہنما محمد زبیر سے سوال کیا کہ کیا نواز شریف احتساب چاہتے ہیں یا نہیں تو محمد زبیر نے جواب دیا کہ ’تھوڑا سا انتظار کر لیں، وہ آئیں گے تو پتا چل جائے گا۔‘
نواز شریف نے پاکستان واپسی سے کچھ ہی عرصہ پہلے یہ بیان کیوں دیا اور اب ن لیگ اس بیان سے پسپائی کیوں اختیار کر رہی ہے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔
جب بی بی سی نے جاوید لطیف سے یہی سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ادارے قانون کے مطابق کام کریں۔ کسی کو شکایت نہ ہو کہ کسی فرد نے ماورائے آئین کام کیا۔ پاکستان میں چاہے بھٹو کا کیس ہو یا کسی اور کا، ایک طبقہ کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے، ایک طبقہ کہتا ہے سیاست دانوں کا قصور ہے اور عوام کنفیوز ہو جاتی ہے۔ جس کے پاس ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں وہ حاوی ہو جاتا ہے۔‘
جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ ’ہر ادارے میں خود احتسابی کا طریقہ موجود ہے اور اگر اس طریقے کے مطابق ادارے کام کر لیں تو قوم کو ان سے کبھی بھی شکایت نہیں ہو گی لیکن ان اداروں میں طاقتور لوگ جن سے اصل شکایت ہوتی ہے، احتساب کرنے والے ان کے سامنے کمزور ہو کر احتساب نہیں کر پاتے۔‘
جاوید لطیف نے نواز شریف کے بیانیے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کہہ رہے ہیں کہ عوام کی حمایت سے اگر ہمیں موقع ملا تو ہم کوشش کریں گے کہ اس ادارہ جاتی خود احتسابی کے طریقہ کار کو اتنا موثر کریں کہ کوئی کتنا ہی طاقتور ہو وہ اس سے بچ نہ سکے تاکہ ریاست بھی چلے اور بار بار بیانیے کا سوال بھی نہ اٹھے۔‘
نواز شریف نے پاکستان واپسی سے قبل خود ہی جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی بحث کیوں چھیڑی؟
لیکن بیانیے کا سوال ن لیگ اور نواز شریف کا پیچھا شاید نہیں چھوڑے گا۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹنشن کا معاملہ ہو یا پھر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا، ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کا معاملہ زیر بحث آتا رہے گا۔
تو ایسے میں نواز شریف نے پاکستان واپسی سے قبل خود ہی جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی بحث کیوں چھیڑی؟
صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے نزدیک بیانیہ بنانے سے زیادہ ایک ’واٹر چیک‘ تھا کیونکہ ’ابھی یہ بات تنظیمی ڈھانچے سے خطاب میں کہی گئی تھی، واضح بیانیہ ابھی سامنے نہیں آیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بیانیہ بنانے سے پہلے انھیں اپنی صفوں میں بھی چیزیں دیکھنی ہیں کیونکہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ اب شہباز شریف کا بھی جماعت پر اثرورسوخ ہے۔‘
’یہی وجہ ہے کہ جب انھوں (نواز شریف) نے ابھی یہ بات کہی ہی صحیح تو ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے انھیں سمجھایا بھی اور پیغام پہنچانے کی بھی کوشش کی۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ روز ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیرِ خواجہ آصف نے شہباز شریف کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کا پیغام لندن لے جانے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ باتیں فون پر نہیں ہوتیں، بالمشافہ کرنی پڑتی ہیں۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف اپنی بات کہہ بھی پائیں گے یا نہیں کیونکہ اس کے بعد سے ان کی جانب سے خاموشی ہے۔‘
’یہ بہت دلچسپ ہو گا کہ وہ واپسی پر اپنے کارکنوں کو کیا بیانیہ دیتے ہیں اور کیا ہائبرڈ رجیم کے کرداروں کا احتساب اس کا حصہ ہو گا یا نہیں۔‘
صحافی ماجد نظامی کی رائے میں ’مسلم لیگ ن کے پاس اس وقت کوئی اور انتخابی بیانیہ نہیں۔ پہلے ان کا بیانیہ ترقی اور خوشحالی ہوتا تھا، وہ اس بار کارگر نہیں۔ دوسرا، یہ ایک پیغام ہے جو ریاست کو یا اسٹیبلشمنٹ کو دیا گیا ہے کہ نواز شریف میاں شہباز شریف نہیں، ان کا اپنا موقف ہے۔‘
لیکن نواز شریف کے اس پیغام کے بعد خود ن لیگ ہی اس بیانیے پر پیچھے ہٹتی کیوں دکھائی دیتی ہے؟
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’ہو سکتا ہے شہباز شریف کے ذریعے لندن یہ جوابی پیغام بھیجا گیا ہو کہ احتساب اور قومی مجرموں کے حوالے سے سوچا تو جا سکتا ہے لیکن ابھی اظہار کی اجازت نہیں۔‘
واضح رہے کہ 2023 کے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اکتوبر 2019 کے اس پاکستان سے بہت مختلف ہے جب نواز شریف علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے تھے۔
سپریم کورٹ ہو یا فوج، اہم عہدوں پر اب وہ لوگ نہیں رہے جن کے ہوتے ہوئے نواز شریف ملک سے باہر گئے تھے اور نواز شریف کی سیاسی اور قانونی مشکلات اپنی جگہ ہی موجود ہیں۔
ایسے میں ن لیگ کی احتساب کے بیانیے سے پسپائی اور بھی اہم ہو جاتی ہے۔
’اس وقت نواز شریف کافی مشکل میں ہیں‘
صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کی واپسی میں پہلے دن سے اہم ترین مسئلہ اسٹیبلشمںٹ کی رضامندی ہے۔ اس کے بغیر ان کی واپسی ممکن نہیں ہو گی۔‘
ماجد نظامی کی رائے میں ’میاں نواز شریف کی واپسی میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد شامل ہوئی تو قانونی مقدمات بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے اور اسٹیبلشمنٹ ان کا حل نکال لے گی۔‘
’ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کی وجہ سے میاں نواز شریف کو عدالتی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے عدالتی مقدمات نہیں، اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی زیادہ اہم شمار ہو گی۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق ن لیگ کا الیکشن کا بیانیہ نواز شریف کی واپسی پر ہی واضح ہو گا لیکن یہ ضرور ہے کہ ’ایک بیانیے کو بننے سے پہلے ہی جماعت کے اندر سے خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کہا گیا ہے کہ اب ٹکراؤ کی سیاست نہیں کی جائے گی۔
’نواز شریف کے آس پاس کے لوگ ٹکراؤ نہیں چاہتے، اس صورتحال میں ظاہر ہے بیانیہ تو لیڈر نے ہی دینا ہوتا ہے، اس لیے میرے نزدیک اس وقت نواز شریف کافی مشکل میں ہیں۔‘
ماجد نظامی نے نواز شریف کی واپسی سے ہی جڑے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ’ن لیگ نے حال ہی میں نواز شریف کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی بات کی تو انھوں نے اپنا مستقبل کا ارادہ ظاہر کیا اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مریم نواز گروپ کے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ نہ ہو کہ اگلی باری بھی شہباز شریف کو ملے۔ اس لیے یہ بہتر ہو گا کہ نواز شریف کا ابھی سے نام سامنے لایا جائے۔‘
لیکن ایسے میں اگر نواز شریف کے قانونی معاملات اپنی جگہ جوں کے توں موجود ہیں، تو نواز شریف کیا واقعی پاکستان واپس آئیں گے؟
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن شہباز شریف کی سولہ ماہ کی حکومت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، اسی لیے وہ نواز شریف کی واپسی سے اس بوجھ سے دوری اختیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی واپسی ایک نیا نعرہ بن کر انتخابی مہم میں سامنے آئے اور شہباز شریف حکومت کا داغ نواز شریف پر منتقل نہ ہو۔‘