گذشتہ سال جب ہندی سینما کی معروف اداکارہ آشا پاریکھ کو فلمی دنیا کے سب سے گراں قدر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا تو سوشل میڈیا پر صرف ایک شور تھا کہ یہ ایوارڈ انھیں وحیدہ رحمان سے پہلے کیوں دیا گیا۔
لیکن گذشتہ روز جب یہی ایوارڈ ماضی کی مقبول بالی وڈ اداکارہ وحیدہ رحمان کو دیا گیا تو سوشل میڈیا پر صرف ان کی پذیرائی کی جا رہی ہے۔
ان کے مداح انھیں مبارکباد دے رہے ہیں، خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور انھیں ان کی فلموں، ان کے کردار، ان کے حسن، ان کی سادگی اور کام کی لگن کے حوالے سے یاد کیا جا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وحیدہ رحمان کا جادو ساٹھ ستر سال بعد بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
کئی سوشل میڈیا صارفین نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ وحیدہ رحمان کو یہ ایوارڈ دیے جانے پر ایک بھی تنقیدی بیان انھیں نظر نہیں آیا۔
وحیدہ رحمان کو بہت سارے حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ دیوآنند کے ساتھ ان کی جوڑی ہو یا پھر گرو دت کے ساتھ ان کی فلمیں یا پھر دلیپ کمار کے ساتھ ان کی ’رام اور شیام‘، ’آدمی‘ اور ’دل دیا درد لیا‘ والی کیمسٹری۔
انھیں کوئی فلم ’گائیڈ‘ کی روزی کے طور پر یاد کر رہا ہے تو کوئی ’چودھویں کا چاند‘ کہہ رہا ہے، کوئی ’راجکماری نیل کمل‘ تو کوئی تیسری قسم کی ’ہیرا بائی‘ کے طور پر یاد کر رہا ہے۔
یہاں تک کے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی انھیں ایوارڈ سے نوازے جانے پر مبارکباد دی۔
انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’خوشی ہے کہ وحیدہ رحمان جی کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انڈین سینما میں ان کے سفر نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ ٹیلنٹ، لگن اور پرکشش شخصیت کی مالک ہیں۔ وہ ہمارے سینما کا بہترین ورثہ ہیں۔ انھیں بہت مبارک ہو۔‘
سوشل میڈیا پر وحیدہ رحمان کے بارے میں دیگر کیا تبصرے کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ آگے چل کر لیتے ہیں اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ وہ یہ ایوارڈ ملنے پر کیا کہتی ہیں۔
معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ملنے کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں جب یہ پوچھا کہ کیا انھیں اس ایوارڈ سے نوازنے میں دیر تو نہیں ہو گئی اور کیا یہ انھیں بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا تو اداکارہ وحیدہ رحمان نے اپنے مخصوص انداز میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ’یہ فیصلہ دیر آید درست آید‘ ہے۔
اداکارہ وحیدہ رحمان نے کہا کہ ’جب آپ کوغیر متوقع طور پر کوئی چیز ملتی ہے تو زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ ‘
ایک دوسرے ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انھوں نے جہاں اس ایوارڈ سے نوازے جانے پر انڈین حکومت کا شکریہ ادا کیا وہیں اس ایوارڈ کو تمام فلم انڈسٹری کے نام کیا۔
جب انھیں یہ یاد دلایا گیا کہ جس دن اس ایوارڈ کے لیے ان کے نام کا اعلان کیا گیا وہ ان کے ساتھی اداکار دیو آنند کی 100ویں سالگرہ کا دن ہے تو انھوں نے کہا اس بات پر ان کی خوشی دوبالا ہو گئی۔
اگرچہ وحیدہ رحمان تیلگو اور تمل فلموں میں کام کر چکی تھیں لیکن انھیں ہندی فلموں میں متعارف کرانے کا سہرا معروف اداکار اور ہدایت کار گرو دت کو جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل لندن میں بی بی سی ہندی کی روپا جھا کو ایک انٹرویو کے دوران وحیدہ رحمان نے کہا تھا کہ ’اس میں جتنا گرو دت کا عمل دخل ہے اتنا ہی ان کی قسمت کا بھی کیونکہ ان کی ملاقات اتفاقیہ ہوئی تھی اور یہ کہ انھیں اس وقت ایک نئے چہرے کی تلاش تھی اور وہ اس پر فٹ بیٹھیں۔‘
بہرحال گرو دت نے اپنی فلم ’سی آئی ڈی‘ میں انھیں موقع دیا۔ اس فلم میں دیوآنند ہیرو تھے۔
دیوآنند اور گرو دت کے ساتھ شوٹنگ کی یادیں
وحیدہ رحمان نے روپا جھا کو انٹرویو میں اس فلم کو یاد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ رات کی شوٹنگ کے دوران انھیں بہت نیند آتی تھی اور وہ بار بار سو جایا کرتی تھیں اور دیو آنند جب انھیں شوٹنگ کے لیے جگاتے تو وہ کہتی کہ لوگ دن میں شوٹنگ کیوں نہیں کرتے؟ پھر دیوآنند نے انھیں سمجھایا کہ یہ رات کا سین ہے اور دن کے وقت اس کی عکس بندی نہیں کیا جا سکتی۔‘
اس کے بعد انھوں نے دیو آنند کے ساتھ فلم ’سولہواں سال‘ میں اہم کردار ادا کیا جو کامیاب رہی۔ اس وقت وہ بہ مشکل 20 سال کی ہوں گی لیکن فلمی نقادوں نے لکھا کہ وحیدہ رحمان نے اپنی کلاس کا مظاہرہ کیا۔
وحیدہ رحمان کو سنہ 1962 میں گرودت کی فلم ’صاحب بی بی اور غلام‘ میں بہترین معاون اداکارہ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اس فلم میں میناکماری نے لیڈ رول ادا کیا تھا۔
جب وحیدہ رحمان ہندی فلموں میں آئیں اس وقت وہاں مدھوبالا، نرگس اور مینا کماری جیسی اداکاراؤں کا راج تھا لیکن انھوں نے جلد ہی اپنی مخصوص شناخت بنائی۔
گائیڈ فلم کے لیے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ
بہرحال فلم گائیڈ کے لیے انھیں بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا اور شکاگو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی انھیں اسی فلم کے لیے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔
راج کپور کی فلم ’تیسری قسم‘ کے لیے انھیں بہترین ادکارہ کا کریٹکس ایوارڈ ملا۔
اس کے بعد انھیں رام اور شیام، نیل کمل اور خاموشی جیسی فلموں کے لیے فلم فیئر ایوارڈز میں بہترین اداکارہ کی درجہ بندی میں نامزد کیا گیا لیکن انھیں صرف نیل کمل کے لیے یہ ایوارڈ ملا۔
لیکن پھر انھیں ریشما اور شیرا فلم کے لیے سنہ 1971 میں بہترین اداکارہ کا نیشنل ایوارڈ ملا جو کہ ان کا آخری ایوارڈ تھا اور پھر تقریباً 50 سال بعد انھیں ان کی خدمات کے لیے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے
اقوام میں متحدہ میں سابق اسسٹنٹ سیکریٹری رہنے والی لکشمی ایم پوری لکھتی ہیں کہ ’آج پھر جینے کی تمنا ہے‘ میں آزاد ہونے والی خاتون کی روح کو سمو دیا گیا۔ ان کی آنکھوں کی خوبصورتی اور کشش، ان کا باوقار انداز، سب کچھ بیان کرنے والا چہرہ، ان کے رقص کا ہنر یہ سب مل کر وحیدہ رحمان بناتا ہے۔ رواں سال انڈیا کے چودھویں کے چاند کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا جانا حق بجانب ہے۔‘
ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’میں ان کی فلمیں دیکھ کر بڑی ہوئی۔۔۔ صاحب بی بی اور غلام، چودھویں کا چاند، سی آئی ڈی، پیاسا، کوہرہ، خاموشی، بیس سال بعد، وغیرہ میں ان کے کرداروں کو پسند کیا۔ وہ بہترین اور بے مثال ہیں!‘
ابھینو سکسینہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’آج کا دن انڈین سینما کے چاہنے والوں کے لیے کیا ہی خوب دن ہے۔ سدا بہار ہیرو دیوآنند کی 100ویں سالگرہ ہے اور پھر اسی دن لیجنڈری اداکارہ وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔ ان دونوں کی فلم ’گائیڈ‘ کو بڑے پردے پر دیکھنا بھی اتنا ہی مسرور کن ہے۔‘
وشو جیوتی گھوش نامی ایک صارف نے فلم ’صاحب بی بی اور غلام‘ کی ایک تصویر ڈال کر لکھا کہ ’وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا جانا اتنا ہی ذاتی محسوس ہوتا ہے جتنا کہ سکول ٹیچر پر آپ کا پہلا کرش۔ سینیئر سکول میں آپ کو لگتا تھا کہ وہ ایک دوست، ایک مینٹور ہوں گی لیکن جب آپ جاتے ہیں تو پرنسپل نکلتی ہیں۔ پھر کچھ ہمت کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔۔۔ آج شام ویسا ہی کچھ کرش والا احساس ہے۔‘
وحیدہ رحمان آج 85 سال کی ہیں اور اب تک انھوں نے اپنے وقار کو برقرار رکھا ہے۔
اسیم چھابڑا نامی صارف نے لکھا کہ ’میں نے وحیدہ رحمان کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازے جانے پر ایک بھی تنقیدی پوسٹ نہیں دیکھی۔ وہ سبھی کی پسندیدہ تجربہ کار فلمی اداکارہ ہیں۔ ہر کوئی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ وہ ایوارڈ کی مستحق ہیں۔ یہ انڈین حکومت کی طرف سے فلم سے متعلق بہترین فیصلہ ہے۔‘