جس دن انڈین حکومت نے کینیڈین شہریوں کے لیے ویزا سروس بند کی، اسی دن کینیڈا میں رہنے والے تاجندر سنگھ کے والد دہلی میں وفات پا گئے تھے۔
تاجندر گذشتہ کئی دنوں سے تمام تر کوششوں کے باوجود انڈیا میں اپنے گھر نہیں آ سکے ہیں۔
ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کیس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا عام لوگوں پر کیا اثر پڑا ہے اس کی واضح مثال تاجندر سنگھ کا معاملہ ہے۔
یاد رہے کہ 21 ستمبر کو انڈیا نے کینیڈین شہریوں کو ویزا دینے کا عمل غیر معیّنہ مدت کے لیے معطل کر دیا تھا۔ انڈیا نے یہ فیصلہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے پارلیمنٹ میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد کیا تھا۔
ہردیپ سنگھ نجر خالصتان تحریک کے حامی اور کینیڈا کے شہری تھے اور انھیں 18 جون کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں قتل کر دیا گیا تھا۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے انڈیا پر الزامات کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سینیئر سفارتکاروں کو بھی اپنے اپنے ممالک سے بے دخل کر دیا تھا۔
انڈین حکومت نے کہا تھا کہ وہ اپنے عملے کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ جس کی وجہ سے کینیڈین شہریوں کے لیے انڈین ویزے اگلے احکامات تک معطل ہیں۔
عام لوگوں کی مشکلات میں اضافہ
بی بی سی پنجابی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے نہ صرف وہ لوگ متاثر ہوئے ہیں جو انڈین نژاد ہیں اور کینیڈین شہریت کے حامل ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو دراصل کینیڈین شہری ہیں اور کام یا سیاحت کے لیے انڈیا آنا چاہتے ہیں۔
کینیڈا کے شہر برامپٹن میں رہنے والے 36 سالہ تاجندر سنگھ نے بی بی سی پنجابی کو بتایا کہ انھیں اپنے والد کی موت کی خبر گذشتہ جمعرات یعنی 21 ستمبر کو ملی۔ اسی دن انڈین حکومت نے ویزے جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
تاجندر کا کہنا ہے کہ ’میں اب بھی ویزا سروس آفس گیا تھا وہاں آپ کو وہ وجہ لکھنی ہے جس کی وجہ سے آپ انڈیا جانا چاہتے ہیں، میں نے اس میں اپنی وجہ بیان کی لیکن میری درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ میں انڈیا نہیں جا سکتا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے ویزا دفتر سے دوبارہ فون پر رابطہ کیا، انھوں نے مجھے ای میل آئی ڈی دی۔ میں نے ایک میل بھی بھیجی ہے لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔‘
’ماں انتظار کر رہی ہے‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اب وہ اس بارے میں کیا کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ میں ای میل کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں۔
’میں نے ہائی کمیشن کو بھی ای میل بھیجی ہے لیکن وہاں سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ اعلیٰ سطح پر کیے گئے فیصلے ہیں، جن پر نہ کوئی ادارہ کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور، صرف حکومتیں اس کے بارے میں کچھ کر سکتی ہیں۔‘
اپنے خاندان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کے والد پولیس میں اعلیٰ افسر تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’میرے والد اور خاندان دہلی میں رہتے تھے۔ میری والدہ کے دادا دادی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں ہیں، لیکن وہ یہیں رہے کیونکہ میرے والد دہلی پولیس میں ملازم تھے۔ وہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس یعنی ڈی سی پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میری ماں اور دو بھائی دہلی میں ہیں۔ میں ماں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں. دو تین دن سے ان کی طبیعت خراب تھی۔ اگرچہ وہ اب ٹھیک ہیں، وہ بھی ویزا کے عمل کے بارے میں یہی سوال پوچھتی رہتی ہیں اور میں گھر کب آؤں گا۔‘
اپنے والد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی موت سے ایک روز قبل ان سے فون پر بات ہوئی تھی اور وہ اس وقت بالکل ٹھیک تھے لیکن اس دن اچانک 76 سال کی عمر میں انھیں دل کا دورہ پڑا جس سے ان کی موت ہو گئی۔
آپ کینیڈا کیسے گئے؟
اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے تاجندر سنگھ نے کہا کہ میں 2018 میں کینیڈا آیا تھا۔ مجھے پرمانینٹ ریزڈینس یعنی مستقل رہائش ملی تھی اور میں یہاں ایک بینک میں کام کر رہا ہوں۔ اگر میرے پاس پی آر ہوتی تو میرے پاس انڈین پاسپورٹ بھی ہوتا اور مجھے کوئی مسئلہ نہ ہوتا کیونکہ انڈیا نے صرف کینیڈین شہریوں کے لیے ویزے بند کیے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ بعد میں ان نے کینیڈا کی شہریت لی اور وہاں سے پاسپورٹ لیا۔
’میری پی آر سنہ 2020 میں ختم ہونے والی تھی اور میں نے اس سے چند ماہ قبل اسے منسوخ کرنے کے بعد یہاں کی شہریت کے لیے درخواست دی تھی۔
مجھے گذشتہ سال ستمبر میں کینیڈا کا پاسپورٹ ملا۔ اب میں اوورسیز سٹیزن شپ آف انڈیا بھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ جب مجھے انڈیا جانا پڑے گا تو میں یہ لے لوں گا۔
تاجندر نے جذباتی لہجے میں کہا کہ ’یہ ایک ایسا موقع ہے جب خاندان کے ساتھ رہنا بہت ضروری ہے۔ ویسے تو ہم چاہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں انڈیا جائیں لیکن میرے لیے جانا بہت ضروری ہے۔‘
آخری بار وہ گذشتہ سال اپریل میں انڈیا گئے تھے اور اس کے بعد سے وہ صرف فون پر خاندان سے رابطے میں ہیں۔
’کینیڈین شہریت صرف کاغذ پر‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سیاسی فیصلے ہیں، اور اس میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔‘
’لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ فیصلے کیے جاتے ہیں، تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عام لوگوں کو اس سے کوئی پریشانی نہ ہو۔ چاہے آپ ممالک کے درمیان تجارت بند کرنے یا کوئی دوسری پالیسی تبدیل کرنے جیسا کوئی فیصلہ لیں جس سے ممالک متاثر ہوں لیکن عام لوگوں کی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ’ہم اصل میں انڈین ہیں، حالانکہ کاغذ پر آج ہم کینیڈا کے شہری بن چکے ہیں۔ ہماری اقدار، ہماری ثقافت، ہماری زبان سبھی انڈین ہے اور ہمیشہ رہے گی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کینیڈا کا شہری بننے کی وجہ کیا ہے تو انھوں نے کہا کہ آپ کو دوبارہ پی آر کی تجدید کرنی ہو گی۔ ہم نے سوچا کہ اب یہیں رہ کر اس جگہ کی شہریت لے لینی ہے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمیں اس کی وجہ سے ایسا وقت دیکھنا پڑے گا۔
کینیڈا میں مقیم انڈین کمیونٹی
کینیڈا میں انڈین نژاد 18.6 لاکھ کینیڈین شہری مقیم ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ انڈین حکومت کے اس فیصلے کا ان لوگوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو شروع سے ہی اس فیصلے سے پریشان تھے۔
سیاحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں 80 ہزار سے زیادہ کینیڈین سیاحت کے لیے انڈیا آئے تھے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا ہے کہ ’مسئلہ انڈیا کے سفر کا نہیں ہے۔ جن کے پاس قانونی ویزا اور دیگر قسم کے دستاویزات ہیں جیسے او سی آئی وہ اس پابندی کے بعد بھی انڈیا آنے کے اہل ہیں۔‘
’لیکن اصل مسئلہ ایک ایسے ماحول کی تخلیق ہے جو تشدد کو بھڑکاتا ہے اور ہمارے کمیشن اور قونصل خانے کے کام کو روکتا ہے۔‘
ارندم باغچی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا میں انڈین سفارت کاروں کو ملنے والی دھمکیوں کی وجہ سے وہاں ویزا درخواستوں پر عارضی پابندی لگانی پڑی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم اس کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ ہم نے عارضی طور پر ویزا درخواستوں پر پابندی لگائی ہے۔