ایشیا کپ کے سپر فور مرحلے کے دوسرے میچ تک پاکستان کو ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا۔
یہ اندازہ حقیقت سے زیادہ دور اس لیے نہیں تھا کیونکہ پاکستان کے ٹاپ تھری بلے باز آئی سی سی رینکنگ میں ٹاپ فائیو میں موجود تھے۔ پاکستانی فاسٹ بولرز شاہین، نسیم اور حارث کسی بھی بیٹنگ لائن اپ کو مشکل میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ون ڈے رینکنگز میں پاکستان ٹیم سرِفہرست تھی۔
پھر دو روز پر محیط انڈیا پاکستان میچ کا آغاز ہوا اور ٹیم تاش کے پتوں سے بنے کسی گھر کی طرح بکھر گئی۔
اس کا آغاز پاکستان کے فاسٹ بولر حارث رؤف کی انجری سے ہوا جو ریزرو ڈے پر بولنگ کے لیے نہیں آئے۔ اننگز کے اختتام پر نسیم شاہ اپنا اوور پورا کیے بغیر کندھے میں تکلیف کے باعث گراؤنڈ سے چلے گئے۔
تب تک مڈل اوورز میں ناقص بولنگ کے باعث انڈیا پاکستان پر برتری حاصل کر چکا تھا اور نائب کپتان اور سپنر شاداب خان کی بولنگ اور پاکستان کے پاس وکٹ لینے والے سپنر کی کمی کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔
بیٹنگ کا آغاز ہوا تو فخر زمان کی فارم کے بارے میں بات کی جانے لگی تاہم امام الحق بھی اس ایشیا کپ میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔
یوں صرف دو روز میں پاکستانی ٹیم کے بطور ون ڈے ٹیم مسائل ایسے نمایاں ہوئے کہ اس ٹیم کے لیے ’فیورٹ‘ کا ٹیگ استعمال کرنے والے بھی اب ہچکچا رہے ہیں۔
نسیم شاہ سے متعلق بابر اعظم نے سری لنکا کے خلاف شکست کے بعد یہ اشارہ دیا تھا کہ ان کی انجری حارث سے زیادہ سنگین ہے اور وہ ممکنہ طور پر ورلڈکپ کے پہلے چند میچ نہیں کھیل پائیں گے۔
پاکستان کی جانب سے یوں تو ایک مجوزہ سکواڈ کی فہرست آئی سی سی کو جمع کروا دیا گئی ہے لیکن اس میں تبدیلی 28 ستمبر تک کی جا سکتی ہے تاہم پی سی بی کی جانب سے آئندہ ہفتے تبدیلیوں کے ساتھ سکواڈ کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
تو ایک بار پھر ہم اس موڑ پر آ گئے ہیں کہ ورلڈ کپ سر پر ہے اور پاکستان ٹیم غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے، جو گذشتہ ورلڈ کپس کی طرح کچھ سنا سنا لگتا ہے۔
تو آئیے نظر ڈالتے ہیں ان آپشنز پر جو اس وقت پاکستان کے پاس ہیں۔
پاکستان کو سیلیکشن میں درپیش مشکلات
پاکستانی سیلیکٹرز کو دو اہم سوالات کے جواب تلاش کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ نسیم شاہ کا متبادل کون ہو سکتا ہے، جس کے لیے یوں تو فاسٹ بولرز کی ایک طویل فہرست موجود ہے لیکن ان میں سے اکثر اس فارمیٹ میں ناتجربہ کار ہیں۔
سیلیکشن کرتے وقت انھیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہے کہ یہ ایک طویل ٹورنامنٹ ہے جس میں پاکستان کو فاسٹ بولرز کے بیک اپ کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔
حارث رؤف پہلے سے ہی ایک انجری کے بعد آرام کر رہے ہیں اور شاہین شاہ آفریدی طویل انجری سے واپسی کے بعد سے پاکستان کے لیے تمام فارمیٹس میں کرکٹ کھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی لیگ کرکٹ بھی کھیل رہے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کو مڈل اوورز میں بولنگ کے لیے کسی ایسے سپنر کی ضرورت ہے جو انھیں رنز روکنے کے ساتھ ساتھ وکٹیں بھی دلوا سکے کیونکہ شاداب اور نواز دونوں ہی ایشیا کپ کے دوران آؤٹ آف فارم دکھائی دیے ہیں۔
ضمنی سوالات میں فخر زمان کی فارم بھی شامل ہو گی لیکن کیا انھیں اس موقع پر ڈراپ کیا جائے گا؟ یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ بہرحال وہ گذشتہ چند سال میں بطور اوپنر ان کی ون ڈے میں اوسط چالیس سے زیادہ کی رہی ہے۔
اسی طرح کیا سکواڈ میں سعود شکیل کو شامل کیا جائے گا یا نہیں، یہ سوال بھی اپنی جگہ برقرار ہے کیونکہ ان کی چھ ون ڈے میچوں میں ایک نصف سنچری کے ساتھ 19 کی اوسط ہے۔
پاکستان کے پاس فاسٹ بولرز میں کیا آپشنز ہیں؟
نسیم شاہ کا اس موقع پر زخمی ہونا پاکستان کے لیے انتہائی بڑا دھچکہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نسیم شاہ اب تک اپنے ون ڈے کیریئر میں انتہائی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔
انھوں نے صرف 14 ون ڈے میچوں میں 16 اعشاریہ 96 کی اوسط سے 32 وکٹیں حاصل کی ہیں اور اس دوران سب سے اہم بات یہ کہ ان کی اکانومی صرف چار اعشاریہ 68 رہی ہے۔
وہ نہ صرف پہلے دس اوورز میں نئی گیند کے ساتھ ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو مشکل میں ڈالتے ہیں بلکہ ڈیتھ اوورز میں بھی وکٹیں حاصل کرتے ہیں۔
ایسے میں ان کا متبادل بولر چننا ایک مشکل عمل ہو گا۔ پاکستان نے جن دو بولرز کو ان کی انجری کے بعد متبادل کے طور پر بلایا تھا ان میں زمان خان اور شاہنواز دھانی شامل تھے۔
شاہنواز دھانی فلائٹ اور ویزا مسائل کے باعث وقت سے پہلے سری لنکا نہیں پہنچ پائے تھے جبکہ دیگر متبادل کھلاڑی جن میں حسن علی، محمد حسنین اور احسان اللہ شامل تھے سب ہی کسی نہ کسی انجری کا شکار تھے۔
یعنی سکواڈ کی سلیکشن میں فٹنس ٹیسٹ کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔
حسن علی
نسیم شاہ کی انجری کی سنگینی کی خبر کے بعد سے اکثر پاکستانی فاسٹ بولرز کی جانب سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ویڈیوز شائع کی جانے لگی ہیں جن میں انھیں پریکٹس کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
حسن علی نے بھی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر ایک ایسی ہی ویڈیو شائع کی جس میں وہ پریکٹس کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا وہ مکمل طور پر فٹ ہیں، اس بات کا تعین آنے والے دنوں میں ہو گا لیکن حسن علی بہرحال نسیم شاہ کے متبادل کے طور پر ایک مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔
حسن علی پاکستان کی وائٹ بال ٹیم کا ایک عرصے سے حصہ نہیں ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے لیے آخری ون ڈے گذشتہ برس جون میں کھیلا تھا۔ جب آخری مرتبہ جب انھوں نے کسی ون ڈے میچ میں دو سے زیادہ وکٹیں حاصل کی تھیں، وہ جولائی 2018 میں تھا۔
حال ہی میں حسن علی نے وارکشائر کے لیے کاؤنٹی چیمپیئن شپ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور اگر کوئی چیز انھیں ٹیم میں واپس لا سکتی ہے تو وہ ان کا تجربہ ہے۔ سنہ 2016 میں ڈیبیو کرنے والے 29 سالہ حسن علی نے 60 ون ڈے میچوں 30 کی اوسط سے 91 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
کیا وہ اپنی واپسی پر اتنے ہی مؤثر ہوں گے جتنے 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں تھے، اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔
شاہنواز دھانی
شاہنواز دھانی پاکستان کرکٹ میں منظر عام پر اس وقت آئے تھے جب انھوں نے سنہ 2021 میں پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
تاہم ان کا لسٹ اے یعنی ڈومیسٹک ون ڈے کرکٹ میں بھی ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے، انھوں نے 31 لسٹ اے میچوں میں 24 کی اوسط سے 56 وکٹیں حاصل کی ہیں۔
انھیں اس کارکردگی کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم میں بھی موقع دیا گیا تاہم وہ آغاز میں کچھ خاص متاثر کرنے میں ناکام رہے اور تھوڑے مہنگے رہے۔
انھوں نے پاکستان کے لیے دو ون ڈے کھیلے ہیں جن میں سے آخری ون ڈے گذشتہ برس جولائی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف تھا۔ اس کے بعد سے وہ باقاعدگی پاکستان اے کے ساتھ دورے کر رہے ہیں۔
ان کا قد، پیس اور فٹنس انھیں اس رول میں ایک موزوں متبادل بنا سکتی ہے تاہم یہ نئی گیند سے بولنگ کی بجائے عموماً فرسٹ چینج بولنگ رول میں نظر آتے ہیں۔
زمان خان
زمان خان نے ایشیا کپ میں سری لنکا کے خلاف آخری اوور میں متاثر تو کیا تاہم آغاز کے اوورز میں وہ نئی گیند کے ساتھ پاکستان کو بریک تھرو دلوانے میں ناکام رہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے باعث نمایاں ہونے والے زمان خان 50 اوورز کی کرکٹ، اور کرکٹ کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں موزوں سیلیکشن ہوں گے، شاید اس کا جواب فی الحال نفی میں ہو۔
اس کے علاوہ ڈومیسٹک ون ڈے کرکٹ میں بھی تاحال انھوں نے نمایاں کارکردگی نہیں دکھائی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ زمان کے کندھوں پر اتنی جلدی یہ بوجھ لادنا ان کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی۔
احسان اللہ
احسان اللہ نے گذشتہ پی ایس ایل میں عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا تھا، اور اپنی پیس اور باؤنس سے سب کو حیران کیا تھا۔ ملتان سلطانز کی جانب سے کھیلنے والے احسان اللہ پاکستان کے لیے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے ڈیبیو کر چکے ہیں۔
تاہم گذشتہ چند ماہ کے دوران انجری کا شکار تھے۔ افغانستان کے خلاف رواں برس شارجہ میں ٹی ٹوئنٹی سیریز میں انھوں نے اچھی کارکردگی دکھائی تھی لیکن احسان بھی قدرے ناتجربہ کار ہیں۔
احسان اکثر فرسٹ چینج بولنگ کرتے ہیں، ایسے میں پاکستان کو نئی گیند سے بولنگ کا خلا کسی اور طریقے سے پُر کرنا پڑے گا۔
محمد حسنین
محمد حسنین جو پی ایس ایل کی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے لیے کھیلتے ہوئے نسیم شاہ کے ساتھ اٹیک کرتے ہیں، اس وقت انجری کا شکار ہیں۔
تاحال یہ معلوم نہیں کہ ان کی انجری کس نوعیت کی ہے اور وہ کب تک اس سے صحتیاب ہو سکتے ہیں لیکن اپنی پیس کے باعث وہ بھی نسیم کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔
ان کی لائن اور لینتھ کے حوالے سے کچھ خدشات اب بھی باقی ہیں اور وہ اس وجہ سے خاصے مہنگے بھی رہتے ہیں۔
حسن باقی آپشنز کے مقابلے میں قدرے تجربہ کار ہیں اور سنہ 2018 سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے نو ون ڈے اور 27 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل رکھے ہیں تاہم وہ تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔
ان کے علاوہ سمین گل بھی ایک آپشن ہو سکتے ہیں جن کا فرسٹ کلاس ریکارڈ تو اچھا ہے تاہم تاحال انھوں نے پاکستان کے لیے کوئی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا۔
محمد عامر بھی ایک آپشن ضرور ہیں اور حالیہ کریبیئن پریمیر لیگ میں ان کی اچھی کارکردگی کے باعث ان کی واپسی کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر مطالبے کیے جا رہے ہیں لیکن انھوں نے پاکستان کے لیے اپنا آخری ون ڈے سنہ 2019 کے ورلڈکپ میں کھیلا تھا اور ان کی سرِ عام بابر اعظم کی بیٹنگ پر تنقید کے باعث اس وقت ان کی ٹیم میں واپسی بہت مشکل دکھائی دیتی ہے۔
سپنرز میں پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
پاکستان کے ڈومیسٹک سیٹ اپ میں سپنرز کا فقدان کئی وجوہات کی بنا پر ہے اور اب جب پاکستان کو ون ڈے کرکٹ میں مڈل اوورز کے لیے ایک اچھے سپنر کی ضرورت ہے تو پاکستانی سیلیکٹرز کے آپشن بہت کم ہوں گے۔
پاکستان ٹیم کے لیے شاداب اور محمد نواز یہ کردار بہتر انداز میں ادا کرنے میں ایشیا کپ میں تو ناکام دکھائی دیے۔ مڈل اوورز میں وکٹیں لینا ون ڈے کرکٹ میں انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے اور اس دوران عموماً سپنرز ہی کردار ادا کرتے ہیں۔
ایسے میں پاکستان کے پاس ابرار احمد ایک آپشن ضرور ہیں جنھوں نے انگلینڈ کے خلاف ملتان میں اپنے ڈیبیو ٹیسٹ میں سات وکٹیں حاصل کی تھیں۔
ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مسٹری سپنر ہیں جو گیند دونوں جانب سپن کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ٹیسٹ میچوں میں ان کا ریکارڈ اچھا ہے اور لسٹ اے میچوں میں بھی انھوں نے 25 کی اوسط سے 12 میچوں میں 17 وکٹیں حاصل کی ہیں۔
ان کے علاوہ موجود آپشنز میں عماد وسیم بھی ہیں تاہم وہ عموماً نئی گیند سے بولنگ کرتے ہیں جو پاکستان کے لیے ایک اچھا آپشن ضرور ثابت ہو سکتا ہے لیکن مڈل اوورز کا مسئلہ تب بھی برقرار رہے گا۔
اس وقت پاکستان کے سکواڈ میں اسامہ میر موجود ہیں اور انھوں نے پاکستان کے لیے رواں برس نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔