کئی برس تک ایران میں قید رہنے والے پانچ امریکی قطر کی ثالثی کے بعد ایران سے رہا ہو کر بہت جلد امریکہ پہچنے والے ہیں۔
ان پانچ قیدیوں کی ایرانی جیلوں سے رہائی اس وقت ممکن ہو پائی جب ایران کے جنوبی کوریا کے بینکوں میں منجمد 6 ارب ڈالر ایران کو ادائیگی کی غرض سے دوحہ کے بینکوں میں پہنچائے گئ
ایران منتقلی کے بعد ایک خاتون سمیت ان پانچ قیدیوں کو تہران سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے قطر کے دارالحکومت کی جانب روانہ کر دیا گیا جہاں دوحہ پہنچنے پر سینیئر امریکی حکام نے اُن سے ملاقات کی جس کے بعد وہ واشنگٹن روانہ ہو گئے۔
ایران کی قید سے رہا ہونے والے ان پانچ امریکی باشندوں میں 51 سالہ تاجر سیامک نمازی بھی شامل ہیں جنھوں نے تہران کی بدنام زمانہ ’ایون جیل‘ میں تقریباً آٹھ سال گزارے ہیں۔ اسی طرح 59 برس کے تاجر عماد شرگی اور 67 سالہ ماہر ماحولیات مراد طہباز بھی رہائی پانے والوں میں شامل ہیں۔
تاہم رہائی پانے والے دیگر دو افراد کی جانب سے اپنی شناخت کو ظاہر نہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ ’اس کے شہریوں کو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے بے بنیاد الزامات کے تحت قید کیا گیا تھا۔‘
ان قیدیوں کے دوحہ پہنچنے پر امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آج ایران میں قید پانچ بے گناہ امریکی بالآخر وطن واپس آ رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پانچوں افراد نے برسوں کی اذیت، بے یقینی اور مصائب کا سامنا کیا۔‘
اس موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن نے سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور ایرانی وزارت انٹیلیجنس پر نئی امریکی پابندیوں کا بھی اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نئی پابندیاں ایران کی جانب سے معصوم لوگوں کی بلا جواز گرفتاری اور انھیں بے بنیاد وجوہات کی بنا پر حراست میں رکھنے کی وجہ سے لگائی جا رہی ہیں۔
ایران کی قید سے رہا ہونے والے سیامک نمازی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے ’میں آج آزاد نہ ہوتا، اور یہ سب انھیں کی وجہ سے ہے کہ جنھوں نے دنیا کو مجھے بھولنے نہیں دیا۔‘
سیامک کا مزید کہنا تھا ’میں دل کی گہرائیوں سے، آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ سب میری آواز بنے تب جب میں اپنے لیے نہیں بول سکتا تھا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ جب میں نے ایون جیل کی ناقابل تسخیر دیواروں کے پیچھے سے چیخنے کی طاقت حاصل کی تو مجھے سنا گیا۔‘
ایرانی نژاد پروفیسر مہران کامراوا جو اب قطر کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں (قیدیوں کے) اس تبادلے میں دونوں فریقوں کے لیے کامیابی ہے۔‘
یاد رہے کہ ایران کو ان افراد کی رہائی کے بدلے ناصرف 6 ارب ڈالر ملے ہیں بلکہ امریکہ میں قید پانچ ایرانی قیدیوں کو بھی رہا کیا گیا ہے۔
ان پانچ ایرانی شہریوں میں رضا سرہاپور، عطار کاشانی، لطف اللہ افراسیابی، مہرداد معین انصاری اور امین حسن زادہ شامل ہیں۔
امریکہ میں ریپبلکنز نے اس معاہدے کو ’تاوان کی ادائیگی‘ اور ’پابندیوں میں چھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
یاد رہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے تناظر میں عالمی پابندیوں کی زد میں ہے اور امریکہ اور دیگر ممالک میں موجود اس کے اثاثے اور بینکوں میں پڑی رقوم منجمد ہیں، یعنی سادہ الفاظ میں ایران کو غیرممالک میں موجود اپنی رقوم اور اثاثوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کانگریس کو بتایا تھا کہ 6 ارب ڈالر کی یہ رقم ایران کو ’محدود فائدہ‘ فراہم کرے گی کیونکہ اسے صرف عوامی فلاح کی غرض سے استعمال کیا جا سکے گا۔
انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ امریکی شہریوں کی رہائی کے عوض امریکا اپنے ملک میں زیر حراست پانچ ایرانیوں کو بھی رہا کرے گا۔۔
تاہم ریپبلکنز کی جانب سے اس اقدام کی مذمت کی گئی ہے۔
ایک سینیٹر نے صدر جو بائیڈن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’دہشت گردی کی دنیا کی سب سے بدترین سرپرستی کرنے والی ریاست کو تاوان ادا کر رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ سنہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدہ معطل کرتے ہوئے معاشی پابندیاں بحال کر دی تھیں۔ اُس وقت سے دنیا بھر کے بینکوں میں موجود وہ اربوں ڈالر منجمد کر دیے گئے تھے جو تیل اور دیگر برآمدات کے بدلے میں مختلف ممالک کی جانب سے ایران کو ادا کیے جانے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ نے گذشتہ ماہ اس بات کی وضاحت کی تھی کہ قطر نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے کہ ایران کی جانب سے فنڈز کا استعمال ’صرف اور صرف فلاحی کاموں کے لیے کیا جائے گا۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران کو 6 ارب ڈالر کے فنڈز تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہو گی اور امریکہ کی طرف سے اس سارے معاملے کی ’کڑی نگرانی‘ ہو گی کہ یہ رقم کہاں خرچ ہو گی۔
ان سب یقین دہانیوں کے باوجود، خارجہ امور کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین نے بائیڈن انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس ڈیل کو ’6 ارب ڈالر کا یرغمالی معاہدہ‘ قرار دیا ہے۔
اس دوران ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے امید ظاہر کی تھی کہ قیدیوں کا تبادلہ ’جلد‘ ہو جائے گا۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس ڈیل کے تحت رہائی پانے والوں میں کون شامل ہو گا؟
سیامک نمازی
سیامک نمازی دبئی میں قائم کریسنٹ پیٹرولیم میں سٹریٹجک پلاننگ کے سربراہ کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ ایرانی نژاد امریکی شہری ہیں۔
انھیں اکتوبر 2015 میں پاسداران انقلاب نے گرفتار کیا تھا، جب کہ اُن کے والد 86 سالہ باقر نمازی کو فروری 2016 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب جب وہ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے جیل گئے۔
اکتوبر 2016 میں، ان باپ، بیٹا ایرانی عدالت نے ’ملک دشمن ریاست کے ساتھ تعاون‘ کے جرم میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ان کے وکیل نے کہا کہ انھوں نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی شکایت کی کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا اور انھیں قانونی نمائندگی تک رسائی دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
سیامک نے ایرانی حکام پر جیل میں تشدد کا الزام بھی عائد کیا تھا جبکہ قید کے دوران انھیں صحت سے متعلقہ مسائل کا سامنا بھی رہا۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے سیامک نمازی سمیت دیگر امریکی شہریوں کو ایرانی قید سے چھڑوا کر جلد ملک لانے کا اعلان کیا تھا اور اس معاملے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا تھا۔
جنوری 2023 میں سیامک نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے اس وعدے کو پورا نا کرنے پر بطور احتجاج ایرانی جیل میں بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔
تاہم امریکہ اور ایران میں قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کے بعد اب انھیں جیل سے نکال کر گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
عماد شرگی
عماد شگری ایرانی نژاد امریکی تاجر ہیں۔
ابتدائی طور پر پاسداران انقلاب نے اپریل 2018 میں حراست میں لیا تھا، جب وہ ایرانی وینچر کیپیٹل فنڈ ’ساراوا‘ میں کام کر رہے تھے۔ انھیں اسی سال دسمبر میں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا اور انھیں بتایا گیا کہ عدالت نے انھیں جاسوسی کے الزامات سے بری کر دیا ہے۔
تاہم رہائی کے باوجود حکام نے انھیں اُن کا پاسپورٹ واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ان کے اہلخانہ نے بتایا کہ نومبر 2020 میں شرگی کو دوبارہ ایک عدالت نے طلب کیا گیا اور بتایا گیا کہ انھیں ایک مرتبہ پھر جاسوسی کا مجرم قرار دیا گیا ہے جس پر انھیں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم انھیں فوری طور پر حراست میں نہیں لیا گیا اور ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
تاہم جنوری 2021 میں ایک سرکاری حمایت یافتہ نیوز ایجنسی نے یہ اطلاع دی تھی کہ شرگی کو غیر قانونی طور پر ایران کی مغربی سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
ان کی بیٹیوں نے اپریل 2021 میں واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ وہ جیل میں ’انتہائی تکلیف دہ اور خراب حالات میں ہیں‘ اور انھیں انتظامیہ کی نگرانی میں گھر والوں سے فون پر رابطے کی اجازت دی گئی تھی۔‘
مراد تہباز
مرد تہباز 67 سالہ تاجر اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ماہر ہیں جن کے پاس امریکی اور برطانوی شہریت بھی ہے۔ انھیں جنوری 2018 میں ماحولیاتی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
حکام نے تہبازپر ماحولیاتی اور سائنسی منصوبوں کو انجام دینے کی آڑ میں ایران کے سٹریٹجک علاقوں کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کا الزام لگایا۔
اکتوبر 2018 میں ان پر ’امریکہ کے ساتھ تعاون‘ اور تعلق کے جرم میں جاسوسی کا الزام لگایا گیا۔
نومبر 2019 میں انھیں قید کی سزا سنائی گئی اور مبینہ طور پر ’ناجائز آمدنی‘ واپس کرنے کا حکم دیا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس بات کی مذمت کی کہ یہ ایک غیر منصفانہ ٹرائل تھا، جس کے دوران مدعا علیہ بظاہر اپنے خلاف شواہد کی مکمل ڈوزیئر دیکھنے سے قاصر تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے جنوری 2021 میں خبردار کیا تھا کہ قید کے دوران تہباز کی صحت مسلسل بگڑ رہی تھی اور انہیں مناسب علاج تک رسائی سے محروم رکھا گیا تھا۔