چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے 10 سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں عام تعطیل کے اعلان کے ساتھ ساتھ خصوصی تقریبات کا بھی انعقاد کیا گیا۔
ایک تقریب میں چینی صدر شی جِن پِنگ کے خصوصی نمائندے اور چین کے نائب وزیرِ اعظم ہی لیفنگ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی اور ایک بار پھر دونوں ملکوں نے سی پیک منصوبوں کی ’بروقت تکمیل‘ اور ’راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے‘ پر ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی۔
لیکن پاکستان میں اب بھی یہی سوال دہرایا جارہا ہے کہ سی پیک منصوبوں کا آخر کیا بنا؟
چین پاکستان اقتصادی راہداری کی ابتدا تو بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی اور اسے پاکستان کے لیے ’گیمر چینجر‘ قرار دیا جا رہا تھا لیکن پھر یکایک ان منصوبوں کی ڈیڈ لائن مِس ہونے لگیں اور ان منصوبوں کی اہمیت پر سوالات بھی ہونے لگے۔
سی پیک کی بنیاد اور تاریخ
واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے تحت سڑکیں، زراعت، بجلی اور پانی کے منصوبوں پر کام ہو گا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے سنہ 2006 میں چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے، جن میں 50 کے قریب منصوبوں پر کام ہونا تھا۔
سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے جس کی باقاعدہ بنیاد سنہ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں رکھی گئی تھی۔
اپریل 2015 میں دونوں ممالک کے درمیان 46 ارب ڈالر کی 51 یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے۔
نومبر 2017 میں لانگ ٹرم معاہدے کی مدت کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے جس کا دورانیہ 2017 سے 2030 ہے۔
اس سمجھوتے کا پہلا مرحلہ 2020 تک مکمل ہونا تھا۔ درمیانی مرحلے کے لیے 2025 تک کا وقت طے کیا گیا تھا۔ اور تیسرا مرحلہ 2030 تک مکمل ہونا تھا۔
’ون پلس فور‘ کہے جانے والے اس منصوبے میں ’ون‘ سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار منصوبے اس کے تحت ہیں جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہیں۔
سی پیک منصوبوں کا آخر کیا بنا؟
اب ایک نظر ان منصوبوں پر دوڑاتے ہیں جو سی پیک کے تحت مکمل ہونے تھے اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سی پیک کے ذریعے کتنے منصوبے مکمل یا اب تک نامکمل ہیں؟
سی پیک کے ذریعے پاکستان میں 17045 میگاواٹ بجلی کی پیداوار، ملک بھر میں ریلوے اور سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کی جدیدکاری، نئے آپٹیکل فائبر کنیکشن، گوادر اور دیگر بندرگاہوں میں بہتری اور تجارت، اہم شہروں میں چار اربن ماس ٹرانزٹ سکیموں کو مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور یہ منصوبے 2030 تک مکمل ہونے تھے۔
ان میں سے اب تک 19 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری والے 27 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ 35 ارب ڈالرز سے زیادہ والے 63 منصوبے ابھی باقی ہیں۔
ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنی ’چائنا تھری گورجس ساؤتھ ایشیا انوسٹمنٹ لمیٹڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق مکمل ہونے والے منصوبوں میں 11 کا تعلق توانائی کے شعبے سے ہے اور سات پراجیکٹ پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری لانے کے لیے تھے۔
گوادر میں بندرگاہ کے تین منصوبوں کے علاوہ چھ فلاحی منصوبے بھی مکمل ہو چکے ہیں۔
ان منصوبوں کی تکمیل میں ہونے والی تاخیر سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس تاخیر نے ایک وقت میں سیاسی شکل بھی اختیار کی۔
مسلم لیگ نواز کے قائدین جو سی پیک کو اپنے دورِ حکومت میں شروع ہونے والا ایک اہم اقتصادی پراجیکٹ مانتے ہیں، پاکستان تحریکِ انصاف پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے جان بوجھ کر ان منصوبوں میں تاخیر کی۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے بتایا کہ 2018 کے پہلے تک ان منصوبوں پر کام ہوتا رہا لیکن 2018 میں جو حکومت آئی اس نے سی پیک کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیے، بلاوجہ شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
انھوں نے کہا کہ 2022 میں مسلم لیگ نواز کی حکومت واپس آنے پر اب دوبارہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ’ان منصوبوں پر اسی تیزی کے ساتھ کام کریں جیسا کہ ہم پہلے کررہے تھے۔‘
احسن اقبال نے کہا کہ ’اس وقت ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور چیلنجز کی وجہ سے ہمارا ترقیاتی بجٹ کا حجم کافی سکڑ چکا اور ایسے میں نئے منصوبے شروع کرنے کی جگہ نہیں، جتنی کہ ماضی میں ہمارے پاس دستیاب تھی۔‘
پی ٹی آئی کے رکن اور سابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے دعویٰ کیا کہ ’سی پیک کی سڑکیں اور ہائی ویز تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں زیادہ بنیں اور مسلم لیگ نواز کی حکومت میں کم تعمیرات کی گئی تھیں۔
’اُن کی حکومت میں صرف بجلی بنانے کے کارخانے لگائے گئے تھے۔ اس کی ترسیل کے نظام کا کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ ہمارا ترسیل کا منصوبہ بھی مکمل کیا گیا۔‘
سی پیک یا ’وِش لسٹ‘؟
جہاں کچھ لوگ سی پیک کو پاکستان کی بحالی سے جوڑتے ہیں تو وہیں کچھ لوگ اسے پاکستان کو درپیش معاشی مسائل کا ذمہ دار بھی سمجھتے ہیں۔
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں آج بھی تنقید کی ایک بڑی وجہ سی پیک کے تحت مکمل نہ ہونے والے منصوبوں کو مانا جاتا ہے۔ تبھی ہر کچھ مہینوں بعد گوادر کے شہری پانی اور بجلی کی کمی کے باعث سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل آتے ہیں۔
گوادر کے ایک شہری نے بتایا کہ ’پانی اور بجلی فراہم کرنا چین اور حبکو کی ذمہ داری نہیں۔ ہماری بنیادی ضرورتوں کی ذمہ دار پاکستان کی حکومت ہے جس سے ہم ہر وقت سوال کرتے رہیں گے۔‘
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے سی پیک کے منصوبوں پر اپنے خدشات کا اظہار کیا کیونکہ چین گوادر پورٹ کے ذریعے ان تمام منڈیوں تک رسائی حاصل کرسکے گا جو دنیا کے تیل کا تقریباً 50 فیصد اور قدرتی ذرائع کا 38 فیصد حصہ رکھتی ہیں۔
اس بارے میں ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ اگر آپ ’گوادر بندرگاہ کا معاہدہ دیکھیں تو اس میں 91 فیصد ریوینیو شیئر چین کا ہے اور باقی پاکستان کا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا اور کس کا مفاد زیادہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں میں ’مسلم لیگ نواز کا بنیادی مقصد پنجاب میں سرمایہ لانا تھا۔ اسی لیے چین نے اورنج ٹرین کے لیے بھی فنڈ دیا اور دو پاور پلانٹ بھی لگوائے۔‘
’18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سی پیک کے منصوبوں سے متعلق اپنی سفارشات وفاقی حکومت کو منظوری کے لیے بھیج سکتے ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تجاویز پنجاب اور سندھ سے پیش ہوئیں اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان اس کا حصہ دیر سے بنے اور سیاسی چپقلش کی وجہ بھی بنے۔‘
’اس بات سے تو انکار نہیں کہ ترقیاتی منصوبوں پر کام ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ منصوبے کس قیمت پر مکمل ہوں گے اور اس کا تعین کرنے کا حق کسے ہو گا؟‘
سی پیک کے بارے میں ’گیم چینجر‘، ’فیٹ چینجر‘ جیسے الفاظ کئی بار استعمال کیے گئے لیکن اس بارے میں سرگودھا یونیورسٹی میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف چائنا سٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا کہ ’سی پیک کو بہت سیاسی بنا دیا گیا۔ اس سے کئی زیادہ امیدیں کی جا رہی ہیں اور منصوبوں میں تاخیر کے باعث کہا جاتا ہے کہ سی پیک اس طرح کار آمد ثابت نہیں ہو پا رہا جتنا سوچا تھا۔‘
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے سابق مشیر ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ ’یہ منصوبوں سے زیادہ ایک وِش لسٹ (یا خواہشات کی فہرست) تھی۔ جس میں یہ واضح ہے کہ اس ایم او یو کے تحت کام نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ ایسا ناممکن تھا۔‘
سی پیک کے بارے میں معلومات کا فقدان
سی پیک کے منصوبوں کے بارے میں بہت زیادہ معلومات بھی دستیاب نہیں، جس کا تذکرہ قیصر بنگالی جیسے ماہرین اکثر کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت جاری منصوبوں اور اس کے تکمیل پر ہر کچھ دیر بعد سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر چین نے پاکستان کو کتنی شرح سود پر قرض فراہم کیے ہیں؟
ایک حکومتی ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے ’پچھلے دورِ حکومت میں ان منصوبوں پر جلدی کام کیا گیا جن پر قرضہ کم لگا۔ ایک عام تاثر یہی ہے کہ سی پیک منصوبے ترقی کے لیے بہت اچھے ہیں لیکن ان سے قرض میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ سڑکوں اور ہائی وے بنانے پر قرض کی شرح نہیں بڑھتی جس کے وجہ سے ان منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق اس کے علاوہ تھر کوئلے کے منصوبہ جس رفتار سے پہلے چل رہے تھے اب بھی ویسے ہی چل رہے ہیں لیکن دوسری جانب توانائی کے شعبے میں قرض کی شرح محدود کرنے کے لیے ان منصوبوں کو روکا جا رہا ہے یا اس رفتار کے ساتھ عمل میں نہیں لایا جا رہا جیسا کہ حکومتی دعوے کیے جا رہے تھے۔