مقابلے کا امتحان دے کر افسر بننے والی بہنیں: ’لوگ کہتے تھے اِن کی شادیاں کر دو، پڑھائی پر ہی پیسے لگاتی رہو گی‘

’جب میں 12ویں جماعت میں تھی تو میری تقریباً سبھی دوستیں شادی شدہ تھیں، لیکن میں نے ٹھان لی کہ میں صرف برتن دھونے کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ میں زندگی میں بہت کچھ بہتر کر سکتی ہوں اور یہی سوچ مجھے مقابلے کے امتحان کی جانب لے آئی۔‘

’اب مقابلے کے سخت امتحان کے بعد میں پولیس سب انسپکٹر جبکہ میری بہن کویتا ٹیکس انسپکٹر منتخب ہوئی ہیں۔‘

پوجا تیجراؤ اپنی اور اپنی بہن کی کامیابی کے بارے میں بی بی سی کو بتاتے ہوئے بہت پُرجوش تھیں۔

پوجا اور ان کی بہن کویتا انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے ضلع چھترپتی سمبھاج نگر کے ایک گاؤں تاج پور سے تعلق رکھتی ہیں اور ان دونوں بہنوں نے حال ہی میں مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔

پوجا کو پی ایس آئی (پولیس سب انسپکٹر) جب کہ کویتا کو ایس ٹی آئی (سٹیٹ ٹیکس انسپکٹر) کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور ان کی اس کامیابی پر صرف ان کا خاندان ہی نہیں بلکہ ان کے پورے گاؤں کو فخر ہے۔

پوجا اور کویتا کو یہ کامیابی پلیٹ میں رکھی نہیں ملی بلکہ اس کے لیے انھوں نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے جس میں ان کی والدہ کا کردار سب سے اہم ہے۔

تو آخر یہ بہنیں کس طرح کامیابی کی اس منزل پر پہنچیں جو غریب طبقے کی بچیوں اور ان کے والدین کے لیے محض خواب ہی ہوتا ہے، یہ بتاتے ہیں آگے چل کر لیکن یہاں اپ کو ان کے گاؤں کے ایک منظر کی تصویر کشی کرتے چلیں جس سے ان کے گاؤں والوں کی خوشی کا اندازہ لگانا آسان ہو گا۔

پورا گاوں اس وقت ان کی کامیابی کا جشن منا رہا ہے۔

گاؤں میں داخل ہوتے ہی آپ کو جگہ جگہ پوجا اور کویتا کو مبارکباد دینے والے بینرز لگے نظر آتے ہیں۔

رنگ بہ رنگ بینروں پر جلی الفاظ میں لکھا ہے ’پوجا اور کویتا نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ تاجنا پور کے گاؤں والوں کے لیے باعث فخر ہے۔‘

گاؤں میں گھومنے پھرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پوجا کویتا کی کامیابی کا وہاں کے باسیوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہے۔

ایم پی ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد، پوجا اور کویتا کے اعزاز میں گاؤں میں ایک شاندار پروگرام منعقد کیا گیا ہے جس میں گاؤں بھر سے لوگ اکھٹا ہوئے۔

گاؤں کے جس سکول میں یہ دونوں بہنیں پڑھتی تھیں وہاں بھی ان کے لیے تقریب کا اہتمام کیا گیا۔

’میں صرف برتن دھونے کے لیے پیدا نہیں ہوئی‘

پوجا کے والد کی جب وفات ہوئی تو اس وقت وہ صرف چھ سال کی ننھی بچی تھیں۔ والد کی وفات کے بعد اُن کی والدہ نے ان سمیت چاروں بچوں کی پرورش کا بیڑہ اٹھایا۔

پوجا کی والدہ بہت معمولی پڑھی لکھی تھیں تاہم انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ایک چائلڈ ویلفیئر سینٹر میں ملازمت کی تاکہ اپنے بچوں کو لکھا پڑھا کر معاشرے کا معزز شہری بنا سکیں۔

پنے بچین کے وہ دن یاد کرتے ہوئے پوجا نے بتایا کہ ’میرے والد کھیتی باڑی کرتے تھے۔ ہمارے پاس ایک ایکڑ کا فارم تھا۔ میں محض تین سال کی تھی جب انھیں فالج کا دورہ پڑااور اس کے بعد وہ تین سال تک بیمار رہے اور پھر اسی بیماری سے لڑتے لڑتے وہ دنیا سے چلے گئے۔‘

پوجا کے مطابق ’میرے والد کی وفات کے بعد ہم چاروں کی ذمہ داری میری ماں پر آ گئی۔ ماں نے آنگن واڑی(چائلڈ ویلفیئر سینٹر) میں کام کیا اور ہم چاروں کو پڑھایا۔‘

پوجا کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی سکول میں ہوئی۔ ثانوی اور کالج کی تعلیم کے لیے ان کو پڑوس کے گاؤں کا رخ کرنا پڑا جبکہ 2019 میں انھوں نے اوپن یونیورسٹی سے ہسٹری (تاریخ) میں گریجویشن مکمل کی۔

پوجا نے مقابلے کے امتحان دینے کا فیصلہ کیوں کیا اس کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔

پوجا کے مطابق’جب میں 12ویں جماعت میں تھی تو میرے تقریباً سبھی دوست شادی شدہ تھے۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ میں صرف برتن دھونے کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ میں زندگی میں بہت کچھ بہتر کر سکتی ہوں۔ اور یہی سوچ مجھے مقابلے کے امتحان کی جانب لے آئی۔‘

پوجا مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کے لیے سمبھاجی نگر پہنچیں یہاں ان کے ساتھ ان کی بہن کویتا بھی تھیں۔ پوجا کو مقابلے کے امتحان میں دو بار ناکامی ہوئی مگر تیسری کوشش میں انھوں نے بھرپور تیاری کی۔

پوجا کے مطابق ’2018 اور 2019 میں لگاتار امتحان دیے تاہم اس میں کم نمبروں کی وجہ سے پاس نہیں ہو سکی۔‘

پھر میں نے پہلے کے مقابلے میں سوالیہ پرچے حل کرنے کی زیادہ مشق کی اور موبائل فون کا استعمال بہت کم کر دیا۔ امتحان کے علاوہ میں نے ہر چیز سے توجہ ہٹائی اور پھر کامیابی حاصل کی۔‘

’ماں نے کہا تمہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ میری طرح خدمت کرتی رہ جاؤ گی‘

پوجا اپنی کامیابی کا سہرا اپنی ماں بیجو بائی کو دیتی ہیں۔ پوجا کی والدہ 50 سالہ بیجو بائی چوتھی جماعت پاس ہیں اور ایک فلاحی ادارے میں ہیلپر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

پوجا اپنی ماں کی محنت اور حوصلہ افزائی کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ’میری کامیابی میں میری والدہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ والدین کو اپنی بیٹی کی شادی کی ذیادہ فکر ہوتی ہے لیکن میری ماں نے ہمیں سکھایا کہ ہم اپنی شادی کی فکر نہ کریں۔‘

’ماں نے ہمیشہ کہا کہ تمہیں سیکھنا ہو گا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا، ورنہ میری طرح خدمت کرتی رہ جاؤ گی۔‘

اس بارے میں کہ وہ لڑکیوں کو کیوں پڑھانا چاہتی تھیں، کویتا اور پوجا کی ماں بیجو بائی کہتی ہیں کہ ’مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں دوسروں کی ماتحتی میں کام کر رہی ہوں میری بیٹیوں کو ایسا نہ کرنا پڑے۔ میری بیٹیاں اچھی پڑھائی کر کے اونچا مقام حاصل کریں اور میرے خدا نے میری سن لی۔‘

ماضی کو یاد کرتے ہوئے آج بھی بیجو بائی کی آنکھیں بھر جاتی ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے میں کام کرنے کے بعد دوپہر کو وہ اپنے کھیت میں کام کرتی تھیں اور وقت ملنے پر دوسرے لوگوں کے کھیتوں میں بھی مزدوری کرتی تھیں۔

ان کے گاؤں کے لوگوں نے بیٹیوں کی شادی کے لیے ان پر بہت زور ڈالا لیکن وہ لڑکیوں کو پڑھانے کے اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔

بیجو بائی کہتی ہیں کہ ’آس پاس کے لوگ بس یہی کہتے تھے کہ آپ بہت جی دار ہیں کہ ان حالات میں بچوں کو پڑھایا بس اب ان کی شادیاں کریں۔ پڑھائی پر پیسے لگاتی رہیں گی تو ان کی شادی کے پیسے کہاں سے لائیں گی؟ میں کہتی جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن میں ان کو پہلے اپنے پیروں پر کھڑا کروں گی۔‘

گاؤں کی دوسری بچیوں میں افسر بننے کا شوق

پوجا اور کویتا کے مشکل حالات کے باوجود افسر بننے پر گاؤں کی دوسری غریب لڑکیوں میں بھی پڑھ لکھ کر اپنا مقام بنانے کا شوق پیدا ہو رہا ہے۔

ایسی ہی ایک بچی جے شری سوناونے ہیں جو ان کے گاؤں کے سکول میں ساتویں جماعت کی طالبہ ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پوجا اور کویتا کی کامیابی دیکھ کر وہ کیا محسوس کرتی ہیں، تو بچی نے جوش سے بتایا کہ وہ بھی ان جیسا بننا چاہتی ہے۔

’ان کی کامیابی دیکھ کر، میں بھی سوچتی ہوں کہ مجھے محنت سے پڑھنا چاہیے اور انھی جیسا افسر بننا چاہیے۔ میں ان سے بڑی افسر بننے کی کوشش کروں گی اور اس کے لیے بہت محنت کروں گی۔‘

پوجا کا بھائی سوپنل پونے میں آئی ٹی انجینئر ہے اور ان کی سب سے چھوٹی بہن اس وقت گریجویشن کر رہی ہے۔

پوجا کے بھائی نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا: ’جب ایک دیہاتی لڑکی افسر بنتی ہے تو دوسرے والدین اپنی بیٹیوں کو پڑھانے کا سوچتے ہیں۔ ہر کوئی شاید مقابلے کے امتحان تک کی نہ ہمت کرے مگر وہ گریجویشن تک پڑھانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ضرور ہیں۔‘

گاؤں کے سکول میں ایک ٹیچر نے بتایا کہ اب ہمارے سکول کی لڑکیاں بھی کہہ رہی ہیں کہ وہ آفیسر بننا چاہتی ہیں۔ اور وہ بہت کچھ سیکھنے میں پرجوش ہیں۔‘

پوجا کہتی ہیں کہ وہ تقریباً پانچ چھ سال سےمقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہی تھیں۔

’میرے خیال میں کامیاب ہونے کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ کا خاندان آپ کے ساتھ ہو۔

بیجو بائی کا ماننا ہے کہ اگر لڑکیاں سیکھ جائیں گی تو وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں گی اور خود ہی کسی بھی صورتحال کا سامنا کریں گی۔ اس لیے دیہی علاقوں میں والدین کو لڑکیوں کو لازمی پڑھانا چاہیے۔