چین کے وزیر خارجہ چِن گانگ کی برطرفی اس وقت ایک پر اسراریت میں گِھری ہوئی ہے، اور یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ ان کے زوال کا چین کی سفارت کاری کے لیے کیا مطلب ہے۔
ان کی کئی ہفتوں سے بے سبب غیر حاضری کے بعد، چِن گانگ کو اس ہفتے فیصلہ کُن انداز میں ان کے عہدے سے برخاست کردیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کا تذکرہ تک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس واقعے کا غیر ملکی تعلقات پر بہت زیادہ اثر ہونے کا امکان نہیں ہے تاہم ان کی برخاستگی کے اس طرح کا انداز عالمی سطح پر چین کی سبکی کا باعث بنا ہے۔
اپنی ’جارحانہ چالاکی‘ کی شہرت کے باوجود چِن گانگ نے ظاہر کیا کہ وہ نرم اور دھیمے انداز کی سفارت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اور خاص کر جب وہ امریکہ میں بطور سفیر تعینات تھے تو انہوں نے تخلیقی انداز کی سفارت کاری کا مظاہرہ کیا تھا۔
انھوں نے نہ صرف دو سپر پاورز کے درمیان زیادہ نازک تعلقات کی برقرار رکھنے کی کوشش کی بلکہ نیشنل باسکٹ بال اسیسی ایشن (NBA) گیمز میں مشہور طریقے سے شاٹ ہوپ اور بیس بال گیمز میں پچز بھی پھینکیں، جس سے انھوں نے عام امریکیوں سے ایک ایسی زبان میں ابلاغ کیا جو وہ بہت اچھی طرح سمجھ سکتے تھے، یعنی کھیل۔
گذشتہ دسمبر میں وزیر خارجہ کے طور پر ان کی تقرری کو کچھ لوگوں نے اس بات کی علامت کے طور پر دیکھا کہ بیجنگ اپنی سفارتی دستے کی فرنٹ لائنز میں مزید ہمہ گیر شخصیات بھیج کر اپنی جارحانہ تصویر کو نرم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن جب کہ چِن گانگ نے دنیا کے سامنے چین کی زیادہ معتدل تصویر پیش کرنے میں مدد کی، اُس دوران انھوں نے چین کی اصل خارجہ پالیسی کے بارے میں کم ہی بات کی۔
جب وہ وزیر خارجہ تھے تب بھی انھیں وانگ یی کے سامنے جواب دہ ہونا تھا، جو کمیونسٹ پارٹی کے خارجہ امور کے کمیشن کے سربراہ کے طور پر چین کی پارٹی کے مرکز اقتدار کی درجہ بندی میں اعلیٰ سفارتی عہدے پر فائز تھے۔ برطرفی کے بعد وانگ یی نے اب مسٹر چِن کا کام سنبھال لیا ہے۔
اور بالآخر دونوں عہدوں کو اپنے صدر کی سیاسی نظریاتی قاعدے کے مطابق چلانا ہے۔
ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں چینی سیاست کے امور پر ایک فیلو، نیل تھامس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ژی جن پنگ نے چِن گانگ کو خارجہ پالیسی بنانے کے لیے نہیں بلکہ ژی جن پنگ کے خیالات کو ڈپلومیسی کا عملی جامہ پہنانے کے لیے چُنا ہے۔‘
’یہ ژی اور ان کا اندرونی حلقہ ہے جو خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے کرتے ہیں۔‘
وانگ یی اپنی موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھنے کے علاوہ اب تیزی سے اپنے پرانے کردار میں مستحکم ہو رہے ہیں۔
تجربہ کار سفارت کار کے طور پر خارجہ پالیسی کی مکمل باگ ڈور سنبھالنے کے بعد، بیجنگ تسلسل کا اشارہ دینے کا خواہاں دکھائی دیتا ہے اور عالمی برادری کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ وہ اب بھی معمول کے مطابق دنیا سے معمول کا کاروبار جاری رکھے گا۔
وانگ یی بین الاقوامی سطح پر ایک معروف چہرہ ہیں، جو یوکرین کی جنگ جیسے بڑے مسائل پر چین کے حالیہ بین الاقوامی جارحانہ پالیسی کے ذمہ دار ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر وہ اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کریں گے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کئی مہینوں کی دشمنی کے بعد دوبارہ بحال ہو جائیں، جس میں یی کا نومبر میں امریکہ کا ممکنہ دورہ اُن کی اولین ترجیح ہوگا۔
کچھ لوگوں نے وانگ یی کے تائیوان افیئرز آفس کے سابق ڈائریکٹر کی حیثیت سے آبنائے تائیوان کے بحران کے دوران تعلقات کو سنبھالنے کے اُن کے تجربے کو بھی نوٹ کیا ہے، جو تائیوان کے جنوری 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے طور پر اہم ہوں گے، یہ انتخابات عام طور پر تائی پے اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی کا ایک سبب بنتا ہے۔
اب جب کہ وانگ یی کو سفارت کاری کے لیے ایک محفوظ اور مناسب شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن خیال یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک وزیر خارجہ نہیں رہیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اُس وقت تک ایک عارضی تقرری ہیں جب تک کہ مسٹر ژی ان کے کام کا بوجھ کم کرنے کے لیے کسی اور کو تلاش نہیں کر لیتے ہیں۔
وانگ یی کو اب چینی سفارت کاری میں سرفہرست دو کرداروں کو اسی طرح نبھانا ہے جس طرح بیجنگ نے کووڈ تنہائی کے تین سالوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی سفارتی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کام کے بڑھنے کی وجہ سے بیجنگ میں چھوٹے ممالک کے غیر ملکی حکام سے ملنے کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے، یہ مثالی نہیں ہے کیونکہ چھوٹے ممالک سے سفارت کاری ’عالمی جنوب‘ کہلانے والے خطے کو اپنی طرف راغب کرنے کی چینی خارجہ پالیسی کی ایک اہم کوشش ہے۔
وانگ یی کا فرض شناس متبادل اس حقیقت کی تردید نہیں کر سکے گا کہ مسٹر چِن کی بغیر کسی وضاحت کے اچانک عہدے سے برخاستگی دنیا کو ایک پریشان کن پیغام بھیجتی ہے۔
یہ وانگ یی کے فیصلے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ انھوں نے واضح طور پر چِن گانگ کو ایک بہترین سفارت کار کے طور پر چنا تھا جنہیں تیزی سے ترقی کرنا چاہیے تھا۔
ایشیا سینٹر تھنک ٹینک کے ایک سینئر ریسرچ فیلو، جین پیئر کیبستان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چِن گانگ کا معاملہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے بیرون ملک اور اندرونی طور پر بھی امیج کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘
اُن کے مطابق، ’یہ قیادت میں عدم استحکام کی ایک خاص سطح، ممکنہ پالیسی اختلاف، غیر پیشہ ورانہ اعلیٰ سطحی سرکاری پروموشن کے طریقوں اور سیاسی دھندلاپن کی ایک حد کو نمایاں کرتا ہے جو عالمی طاقت بننے کے چین کے عزائم کے مطابق نہیں ہے۔‘
فارن پالیسی میگیزین کے ڈپٹی ایڈیٹر جیمز پامر نے کہا کہ وانگ یی کو تسلسل کا اشارہ دینے کے لیے دوبارہ تعینات کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ ’بیجنگ نے اب ان شراکت داروں کو یاد دلایا ہے کہ نہ صرف چینی اہلکار کسی بھی لمحے غائب ہو سکتے ہیں، بلکہ حکومت یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرے گی کہ وہ کبھی وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ چِن گانگ کے ساتھ کوئی بھی کامیابی یا بات چیت۔۔۔ اب کوئی معنی نہیں رکھے گا۔‘
تھامس نے کہا کہ چِن گانگ کا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ’چینی سفارت کار غیر ملکی حکومتیں اور کمپنیاں جن کے ساتھ اکثر بات چیت کرتی ہیں وہ عام طور پر (چین کے) اقتدار کے مرکز سے بہت دور ہوتے ہیں‘۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’ایک اور یاد دہانی ہے کہ بیجنگ میں فیصلہ کن کردار صرف ژی جن پنگ کا ہے‘۔