’پچھلے جمعے کے دن مجھے دوستوں سے معلوم ہوا کہ آس پاس کے سٹورز میں چاول کی کمی ہے، میں نے سوچا کہ یہ افواہ ہے کیونکہ میں جانتا تھا کہ انڈیا میں چاول کی پیداوار اچھی ہوئی ہے، اس لیے ایسا نہیں ہو سکتا۔‘
’لیکن پھر دوستوں اور رشتہ داروں کی جانب سے بھی واٹس ایپ پر پیغامات آنے لگے کہ چاول اور آٹا دستیاب نہیں۔ بعد میں جب میں دکان پر گیا تو دیکھا کہ وہ ریک جہاں چاول اور آٹا رکھا گیا تھا وہ خالی تھا۔‘
کرشنا بی کمار، جو گزشتہ 12 سال سے امریکہ کی ریاست ڈیلاس میں مقیم ہیں، کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نہ تو چاول دستیاب ہے اور نہ ہی آٹا اور جہاں دستیاب ہے وہاں دو سے تین گنا زیادہ قیمت وصول کی جا رہی ہے۔‘
20 جولائی کو انڈین حکومت نے نان باسمتی سفید چاول، جو کہ ملک کی چاول کی برآمدات میں سب سے بڑی کیٹیگری ہے، کی برآمد پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ چاول کی بڑھتی ہوئی مانگ اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا دنیا میں چاول برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس فیصلے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں چاول کی قیمت بڑھنے کا امکان ہے۔
انڈیا کو یہ قدم کیوں اٹھانا پڑا؟
انڈین حکومت کے مطابق مقامی مارکیٹ میں چاول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک سال میں چاول کی قیمتوں میں 11.5 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ صرف گزشتہ ماہ کے دوران 3 فیصد اضافہ ہوا۔
مقامی مارکیٹ میں چاول کی قیمتوں میں کمی اور چاول کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے گزشتہ سال 8 اگست کو نان باسمتی سفید چاول کی برآمد پر 20 فیصد ایکسپورٹ ڈیوٹی عائد کی تھی۔ اس کے باوجود سفید چاول کی برآمد میں اضافہ دیکھا گیا۔
سفید چاول کی برآمد مارچ 2021-2022 میں 33.66 لاکھ ٹن سے بڑھ کر 2022-2023 (ستمبر-مارچ) میں 42.12 لاکھ ٹن ہوگئی۔
موجودہ مالی سال 2023-24 (اپریل-جون) میں سفید چاول کی برآمدات تقریباً 15.54 لاکھ ٹن تھیں، جو کہ گزشتہ سال 2022-23 (اپریل-جون) کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ ہیں۔
حکومت کا خیال ہے کہ چاول کی اس قسم کی برآمد میں اس تیزی سے اضافے کی وجہ دنیا بھر میں بدلتا ہوا جغرافیائی سیاسی منظر نامہ، ایل نینو اور چاول پیدا کرنے والے ممالک میں بدلتی ہوئے موسمی حالات ہیں۔
تاہم انڈیا نے باسمتی چاول کی برآمد پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رائس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر راجیو کمار کا کہنا ہے کہ ’ملکی سطح پر چاول کی قیمت میں 4 روپے فی کلو کمی آئی ہے، اس لیے حکومت کی جانب سے چاول کی قیمت کم کرنے کی کوششیں کام آئی ہیں۔‘
’لیکن ساتھ ہی تھائی لینڈ اور ویتنام نے چاول کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے خوراک کی عالمی قیمتوں پر اثر پڑے گا۔ ہمارا اصل مقابلہ تھائی لینڈ اور ویتنام سے ہے۔‘
تو کیا عالمی منڈی میں چاول کی قیمتیں واقعی بڑھ رہی ہیں؟
آئی ایم ایف نے کیا کہا؟
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے چاول کی برآمدات پر پابندی سے عالمی غذائی افراط زر پر اثر پڑ سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے چیف اکانومسٹ پیئر اولیویا نے کہا ہے کہ ’ہم انڈیا کی حکومت سے چاول کی برآمدات پر عائد پابندیاں ہٹانے کے لیے کہیں گے کیونکہ اس کا اثر دنیا پر پڑ سکتا ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’انڈیا کے اس فیصلے کا اثر یوکرین کی برآمدات پر پابندی لگانے جیسا ہی ہوگا، جس سے دوسرے ممالک میں گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے اس سال عالمی سطح پر قیمتوں پر اثر پڑے گا۔‘
پابندی سے فائدہ
اس ہفتے ویتنام سے برآمد ہونے والے چاول کی قیمت گزشتہ دہائی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ انڈیا اور تھائی لینڈ کے بعد ویتنام دنیا میں چاول برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔
راجیو کمار کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں کسانوں کے لیے بہتر ہے کہ ان کی مصنوعات کی مانگ زیادہ ہو۔ جب آپ ایکسپورٹ پر پابندی لگاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کی مصنوعات کی مانگ کم ہوتی ہے۔ کسانوں کو زیادہ قیمت نہیں ملے گی، دوسری بات یہ کہ اس فیصلے سے برآمد کنندگان براہ راست متاثر ہوں گے، یہ ان کی روزی روٹی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا دنیا کے 165 ممالک کو چاول فراہم کرتا ہے جو کہ چاول کے تاجروں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ان کی وجہ سے دنیا بھر میں انڈین چاول کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم عالمی تجارت پر نظر ڈالیں تو انڈیا کا عالمی مارکیٹ میں 42 فیصد حصہ ہے۔ اگر یہ پابندی لمبے عرصے تک جاری رہی تو ہم اس مارکیٹ کو کھو سکتے ہیں۔ انڈیا اس مارکیٹ کا بڑا کھلاڑی ہے اور اگر وہ پیچھے ہٹ گیا تو ظاہر ہے کہ پوری دنیا میں قیمتیں بڑھ جائیں گی۔‘
راجیو کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین اور فلپائن، جو عام طور پر تھائی لینڈ اور ویتنام سے چاول خریدتے ہیں، کو بڑھی ہوئی قیمت پر چاول خریدنا پڑیں گے۔
آل انڈیا رائس ایسوسی ایشن کے سابق صدر وجے سیٹیا نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس پابندی پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اس پابندی سے انڈیا کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پابندی سے ’انڈیا کے امیج کو نقصان پہنچے گا۔ جن ممالک میں انڈین چاول جاتا ہے، وہاں قیمتیں بڑھ سکتی ہیں اور اس سے ویتنام، پاکستان، تھائی لینڈ جیسے ممالک کو فائدہ ہوگا کیونکہ ان کے چاول زیادہ قیمت پر فروخت ہوں گے۔‘
’عالمی تجارت تقریبا 45 ملین ٹن چاول برآمدات پر مشتمل ہے جس میں سے انڈیا کا حصہ 22 ملین ٹن ہے۔ اس میں باسمتی اور نان باسمتی دونوں چاول شامل ہیں۔ اگر آپ اس میں سے 18 ملین ٹن کم کر دیں تو اندازہ لگائیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ پر اس کا کیا اثر ہو گا۔‘
کیا پاکستان کو انڈیا کی پابندی کا فائدہ ہو سکتا ہے؟
پاکستان بھی چاول برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے تاہم انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات کم ہیں۔
پاکستان کی رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے سینیئر وائس چیئرمین حسیب علی خان نے بی بی سی اردو کے زبیر اعظم کو بتایا کہ مالی سال 2021-2022 میں پاکستان نے 4.5 ملین ٹن چاول برآمد کیا جس میں سے 3.7 ملین ٹن نان باسمتی چاول تھا۔
اس سال پاکستان کو چاول کی برآمد سے 2.64 ارب ڈالر کا غیر ملکی زرمبادلہ حاصل ہوا تاہم مالی سال 2022-2023 میں پاکستان کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی اور مجموعی طور پر 3.1 ملین ٹن نان باسمتی چاول ایکسپورٹ کیا گیا اور2.1 ارب ڈالر زرمبادلہ کمایا گیا۔
اس کمی کی وجہ، حسیب علی خان کے مطابق، بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ تھا۔ ان کے مطابق ایک اور وجہ تقریبا ایران اور افغانستان کو تین لاکھ ٹن چاول کی برآمد تھی ’جو ڈاکومنٹڈ نہیں۔‘
ایک اور وجہ چاول کی کاشت ہونے والے زرعی رقبے کی کمی بھی تھی تاہم ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے سفید چاول کی برآمد پر پابندی سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
’اس سال موسمی حالات بھی بہتر رہے ہیں اور اگر سیلاب کی کیفیت کا سامنا نہ کرنا پڑا تو ہم امید کر رہے ہیں کہ اس بار پاکستان چاول کی برآمد کا نیا ریکارڈ قائم کرے گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ محتاط اندازوں کے مطابق اس سال چھ ملین ایکڑ رقبے پر چاول کی کاشت ہوئی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا دارومدار اس بات پر بھی ہو گا کہ آیا انڈیا کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کب تک رہتی ہے۔ فی الحال تو ہماری اطلاع کے مطابق 30 اگست تک پابندی لگائی گئی ہے۔‘
’ہماری فصل اگست کے آخر میں آنا شروع ہوتی ہے۔‘
حسیب علی خان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں ابھی سے چاول کی قیمت میں اضافے کا رجحان موجود ہے۔ ’گزشتہ سال اس وقت چاول کا ریٹ 370 ڈالر فی ٹن تھا جبکہ اس سال ابھی سے 500 ڈالر کے قریب ریٹ جا رہا ہے۔‘
’عالمی منڈی میں انڈیا کی جانب سے عائد پابندی کی وجہ سے پریشانی میں خریداری ہو رہی ہے اور اب تک انڈونیشیا سے ایک ڈیلر 30 ہزار ٹن چاول کا ایڈوانس آرڈر بک کر چکے ہیں۔‘
ذخیرہ اندوزی کا خوف
دوسری جانب گزشتہ ہفتے انڈیا کے اس فیصلے کے بعد امریکہ میں انڈین گروسری سٹورز پر انڈین نژاد لوگوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔
کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی سامنے آئی ہیں جن میں امریکہ کے ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر لوگ چاول لوٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مقیم انڈین نژاد افراد بازار میں چاول کی قلت کے خدشے کے پیش نظر ضرورت سے زیادہ چاول خرید رہے ہیں۔
اخبار دی ہندو کے مطابق ٹیکساس، مشی گن اور نیو جرسی جیسے بڑے امریکی شہروں میں باقی دکانداروں نے بھی انڈین گروسری سٹورز کے باہر قطاریں دیکھ کر چاول کی فروخت کو محدود کر دیا ہے اور کئی دکانوں پر یہ اصول بنا دیا گیا ہے کہ ایک گاہک صرف ایک تھیلا چاول خرید سکتا ہے۔
روس یوکرین معاہدے کا اثر
یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد بحیرہ اسود سے اناج کی برآمد کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے لیکن جنگ کے باوجود روس اور یوکرین نے گزشتہ سال بحیرہ اسود سے اناج کی محفوظ برآمد کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
گزشتہ سال جولائی میں نافذ ہونے کے بعد سے اس معاہدے کی تین بار تجدید ہو چکی ہے۔
معاہدے کے تحت مال بردار بحری جہازوں کو یوکرین کی بندرگاہوں سے بحیرہ اسود جانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔
حال ہی میں روس نے اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا جس کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پہلے ہی قحط کا سامنا کرنے والے کئی افریقی ممالک کے لیے خوراک کا سنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
جب پوری دنیا میں غذائی تحفظ کے حوالے سے بحران کی صورتحال ہے، تب انڈیا کی طرف سے عائد کی گئی یہ پابندی دنیا کے بحران کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔
کرشنا بی کمار، جو ڈیلاس، امریکہ میں کام کرنے والے سافٹ ویئر انجینئر ہیں، کہتے ہیں کہ ’چاول کا تقریباً دس کلو کا ایک تھیلا، جو پہلے 14 سے 15 ڈالر میں دستیاب ہوتا تھا، اب 40 ڈالر میں دستیاب ہے۔ آٹے کا تھیلا پہلے 12 ڈالر میں ملتا تھا، وہ بھی اب 20 ڈالر میں دستیاب ہے۔ ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ لوگ اس خوف سے اناج جمع کر رہے ہیں کہ ان کا ذخیرہ ختم ہو جائے گا۔‘
انڈیا کتنا چاول برآمد کرتا ہے؟
چاول کی برآمدات پر پابندی عالمی تجارت کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے آئیے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق چاول کی عالمی برآمدات میں انڈیا کا حصہ 40 فیصد سے زیادہ ہے۔
انڈیا 140 سے زیادہ ممالک کو چاول برآمد کرتا ہے۔ انڈیا کے نان باسمتی چاول کے بڑے خریداروں میں افریقی ممالک انگولا، کیمرون، جبوتی، آئیوری کوسٹ، کینیا اور نیپال شامل ہیں۔
انڈیا نے 2022 میں 17.86 ملین ٹن نان باسمتی چاول برآمد کیا جس میں 10.3 ملین ٹن سفید چاول شامل تھے۔
ستمبر 2022 میں انڈیا نے ٹوٹے ہوئے چاول کی برآمد پر پابندی لگا دی اور چاول کی مختلف اقسام کی برآمد پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی۔
انڈیا میں کسان سال میں دو بار فصل لگاتے ہیں۔ جون میں بوئی گئی فصل کی کل پیداوار 80 فیصد سے زیادہ ہے جو کہ 2022-23 میں 135.5 ملین ٹن تھی۔
’پابندی جلد ختم ہو جائے گی‘
رائس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر راجیو کمار کا کہنا ہے کہ ’ہم حکومت کی تشویش کو سمجھتے ہیں لیکن ہمیں لگتا ہے کہ ملک میں چاول کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘
’ہمیں اس سال 130 ملین ٹن چاول کی پیداوار کی توقع ہے اور ہماری کھپت تقریباً 108 ملین ٹن ہے لیکن پچھلے چھ ماہ میں چاول کی قیمت میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘
’ہم اس کی وجہ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے چاول ذخیرہ کر رکھے ہیں۔‘
’اگر آپ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) کے سٹاک کو دیکھیں تو یہ کافی اطمینان بخش ہے۔ ایسی صورتحال میں، ہم امید کرتے ہیں کہ یہ پابندی جلد ختم ہو جائے گی۔‘
موسمیاتی تبدیلی
میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیا کے شمالی علاقوں میں گزشتہ کئی ہفتوں سے شدید بارش ہو رہی ہے۔
اس کی وجہ سے پنجاب اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ کئی ریاستوں میں فصلوں کو نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے کئی کسانوں کو دوبارہ کاشت کرنا پڑی۔
شمالی انڈیا میں کئی مقامات پر، چاول کے کھیت ایک ہفتے سے زائد عرصے تک پانی میں ڈوبے رہے، جس سے کاشت کی گئی فصل تباہ ہو گئی۔
کسانوں کو کھیتوں سے پانی کے ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑا تاکہ وہ دوبارہ فصل لگا سکیں۔
ایسے میں حکومت کی جانب سے چاول کی قیمت خرید میں اضافے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ چاول کی کاشت میں اضافہ ہوگا لیکن 2022 کے مقابلے میں اب تک کسانوں نے 6 فیصد کم رقبہ پر کاشت کی ہے۔