’میرے شوہر کی ایڈیٹ شدہ تصاویر ہمارے جاننے والوں کو بھیجی گئیں، جن میں میرے شوہر کو برہنہ حالت میں کسی دوسری خاتون کے ساتھ دکھایا گیا، سلسلہ یہاں بھی نہ رکا تو اُنھوں نے میری تصویریں غلط ویب سائٹ پر نمبر کے ساتھ ڈال دی، جہاں سے مجھے فون آتے اور روز کوئی غلط مطالبہ کیا جاتا۔‘
یہ کہنا ہے فوزیہ (فرضی نام) کا جن کے شوہر نے چند ماہ قبل آن لائن ایپ سے دس ہزار روپے قرضہ لیا تھا اور کچھ عرصے میں ہی یہ قرض دس ہزار سے بڑھ کر دس لاکھ تک پہنچ گیا۔ جس کے بعد فوزیہ اور ان کے شوہر کو قرضہ اتارنے کے لیے گھر کی چیزیں تک فروخت کرنی پڑیں۔
سوشل میڈیا کے اس تیز تیرین دور میں کہیں نہ کہیں انسان اس بات سے ڈرتا ضرور ہے کہ اُس کی تصویریں کسی غلط شخص کے ہاتھ نہ لگ جائیں کیونکہ اُس کے بعد ان کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فوزیہ اور ان کے شوہر کو پیسے دینے کے لیے بلیک میل کیا جانے لگا جس کے لیے ان کی تصویروں کا غلط استعمال کیا گیا۔
فوزیہ کے شوہر کا سبزی کا کاروبار تھا جس میں وہ دوسرے لوگوں کو ملازمت پر رکھتے تھے مگر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس وقت اُن کے پاس اپنی بچی کو دینے کے لیے دودھ بھی نہیں۔
فوزیہ اور ان کے شوہر کو قرضہ ادا کرنے کے لیے گھر کی چیزیں فروخت کرنے کی نوبت کیوں آئی؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہانی چھپی ہوئی ہے جس کو سنتے ہی انسان خوف کا شکار ہو جاتا ہے۔
سنہ 2020 میں پاکستان میں کووڈ وبا کے دوران آن لائن ایپس کے ذریعہ آسان اقساط پر قرض لینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس قرض کو حاصل کرنے والے افراد جب ایپ ڈاون لوڈ کر کے قرض لینے کی شرائط دیکھتے تو اُن کو یہ علم نہیں ہوتا کہ جو کچھ لکھا ہوا ہے اُن کے ساتھ اُس سے متضاد ہونے والا ہے۔
مثال کے طور قرضہ واپس کرنے کے لیے 91 دن کا وقت بتایا جاتا ہے اور لی گئی رقم پر صرف تین فیصد سود ادا کرنے کا کہا جاتا ہے۔
لیکن جب کوئی بھی شخص ان آن لائن ایپس کے ذریعے قرض لے لیتا ہے تو ایک ہفتے کے اندر ہی اُس کو قرض واپس ادا کرنے کے لیے مختلف نمبروں سے کال آنا شروع ہو جاتی ہیں اور دن بہ دن قرضے کی رقم دگنی ہوتی جاتی ہے۔
جب کوئی بھی ایپ پلے سٹور یا ایپل سٹور سے ڈاون لوڈ کی جاتی ہے تو وہ صارف سے فون کی رسائی کے لیے اجازت مانگتے ہیں اور رسائی دیتے ہی صارف کے فون کا ڈیٹا متعلقہ کمپنی کو مل جاتا ہے۔
’شوہر نے دو بار خودکشی کی کوشش کی‘
ایسا ہی فوزیہ اور ان کے شوہر کے ساتھ ہوا۔ اُن کو ایک ہفتے بعد فون آیا اور اُن کو کہا گیا کہ جو قرضہ اُنھوں نے لیا ہے اُس کو ادا کریں ورنہ اس پر پانچ ہزار سود ادا کرنا پڑے گا۔
وہ اپنے اس تلخ تجربے کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’میرے شوہر کو فون پر بولتے ہیں کہ پیسے دو ورنہ ہم تمھارے جاننے والوں کو بتائیں گے کہ تم نے قرضہ لیا ہے اور اب واپس نہیں دے رہے۔ میرے شوہر نے کہا کہ 91 دن کا وقت ہے اور آپ ہمیں ابھی قرض واپس کرنے پر کیوں مجبور کر رہے ہیں، خیر ہم نے کسی طرح پانچ ہزار اُن کو دے دیے مگر یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اب حالات یہ ہیں کہ ایک وقت کا کھاتے ہیں تو دو وقت کا انتظار کرتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمیں کھانے کو دے۔ میں اور شوہر تو گزارا کر لیتے ہیں پر ہماری ایک بیٹی ہے جو کھانا کم ملنے کی وجہ سے اتنی کمزور ہے کہ اپنی عمر سے چھوٹی لگتی ہے۔‘
فوزیہ نے بتایا کہ ان کے شوہر ان حالات سے اتنا تنگ آ گئے کہ اُنھوں نے چند روز قبل دو بار خود کشی کی کوشش بھی کی۔
’اُنھوں نے مجھے اور بیٹی کو کمرے سے باہر نکال کر پنکھے سے لٹک کر خود کشی کی کوشش کی، اس کے بعد ایک روز بار بار کی فون کالز سے تنگ آ کر اُنھوں نے بجلی کی تاروں سے کرنٹ لگا کر خود کشی کرنے کی کوشش بھی کی۔‘
فوزیہ اور اُن کے شوہر جیسے ہزاروں افراد ہیں جو اس آن لائن فراڈ کا شکار ہوئے اور بلیک میلنگ کا سامنا کرتے رہے۔
ان آن لائن ایپس سے کسی نے 13 ہزار روپے کا قرض لیا تو گھر بیچ کر 17 لاکھ ادا کیے، کسی نے 20 ہزار لیے تو 13 لاکھ ادا کرنے کے لیے اپنی دکان اور بیوی کے زیور تک فروخت کر دیے۔
اس کی ایک اور مثال صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں 42 سالہ محمد مسعود کی ہے۔ جنھوں نے ایسی ہی آن لائن ایپس سے قرضہ لیا اور بلیک میلنگ سے تنگ آ کر مبینہ طور پر خود کشی کر لی۔
محمد مسعود کی خودکشی کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان ایپس اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد حکومتی ادارے حرکت میں آئے اور ان فراڈ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف ایکشن تیز کیا گیا۔
ان آن لائن کمپنیوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
فراڈ کا شکار ہونے والے چند افراد سے بات کی تو معلوم ہوا کہ کئی لوگوں نے ایف آئی اے کو کئی بار ان ایپس کے متعلق آگاہ کیا مگر کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ اسلام آباد ایاز خان سے بی بی سی نے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اب تک جو بھی ایسی کمپنیاں آن لائن فراڈ میں ملوث رہی ہیں، ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟
ایاز خان کا کہنا تھا کہ اُن کو کئی عرصے سے آن لائن ایپس کے حوالے سے شکایات موصول ہو رہی تھیں، جس پر اُنھوں نے پہلے ہی انکوائری شروع کر رکھی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب بھی یہ ایپس گوگل یا ایپل سٹور سے ڈاون لوڈ کی جاتی ہیں تو ان کو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ریگولیٹ کرتا ہے۔ جس کا مطلب ہے یہ ایپس کون سی کمپنی کی ہے، اس کا بانی کون ہے اور باقی تمام معلومات اُن کے پاس موجود ہوتی ہے۔ اس وجہ سے جب ہمیں شکایات موصول ہوئی تو ہم نے سب سے پہلے ایس ای سی پی سے پوچھا کہ کیا یہ ایپس جن کے خلاف شکایت موصول ہوئی، لائسنس شدہ ہیں۔ جس پر اُنھوں نے ہمیں بتایا کہ یہ ایپس لائسنس شدہ نہیں اور اگر کسی ایپ کو لائسنس حاصل ہے بھی تو یہ اُن کے قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔‘
ایاز خان کہتے ہیں کہ کیونکہ ان قرض دینے والی ایپس کے کوئی دفاتر نہیں ہوتے اور قرض دہندگان کو ہر مرتبہ ایک نئے نمبر سے قرض واپسی کی کال آتی ہے اس لیے اس بات کا پتا لگانا مشکل ہوتا ہے کہ ان کا ٹھکانہ کہاں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کمپنیوں سے آنے والی کالز کو ٹریک کر کے کارروائی کی گئی ہے اور حال ہی میں محمد مسعود کی مبینہ خودکشی کے بعد ان کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے سات ایف آئی آر درج کی ہیں، 25 افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ سات کمپنیوں کے کال سینٹر کی صورت میں موجود دفاتر کو بند کیا ہے اور 35 بینک اکاونٹس منجمد کیے ہیں۔‘
ایاز خان نے بتایا کہ سائبر کرائم کا سب سے سخت قانون تصویروں کو ایڈٹ کرنے والوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ جس کے تحت ایسا کرنے والے شخص کو پانچ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ ناقابل ضمانت جرم ہے اور اس میں جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔
ایاز خان کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان ایپس کے فراڈ سے آگاہ نہیں تھے اور ضرورت پیش آنے پر اس کو ڈاون لوڈ کر لیتے تھے مگر سوشل میڈیا پر راولپنڈی کے شہری کی مبینہ خودکشی اور اس کیس میں ان کی وائرل ہونے والی فون ریکارڈنگز کی وجہ سے لوگوں کو ان ایپس کے بارے میں علم ہو۔
سائبر کرائم اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز خان نے بتایا کہ اگر کسی شحض کو تنگ یا ہراساں کیا جا رہا ہے تو وہ بھی سائبر کرائم کی ویب سائٹ پر یا اپنے علاقے میں ایف آئی اے یا سائبر کرائم کے دفاتر میں جا کر شکایت درج کروائے۔
انھوں نے یقین دلوایا کہ ان لوگوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔
’کئی بار حکومتی دفاتر میں جا کر اس فراڈ کے خلاف احتجاج کیا‘
عقیل نومی اور عمران چوہدری جیسے افراد ان ایپس کے متعلق لوگوں کو آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی ان ایپس کے فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں۔
عقیل نومی نے یوٹیوب پر ایک چینل بنایا ہے جہاں وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ کیسے خود کو اس بلیک میلنگ سے بچا سکتے ہیں۔
اسی طرح عمران چوہدری نے بھی کئی بار حکومتی اداروں کے دفاتر کے سامنے جا کر ان ایپس کی جعلسازی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے جب پتا چلا کہ یہ ایک بہت بڑا فراڈ ہے جس کا ہر روز لاکھوں لوگ شکار بن رہے ہیں اور کئی افراد خودکشی کرنے کی نوبت تک بھی پہنچ گئے ہیں تو میں کئی نیوز چینلز، ایف آئی اے، ایس ای سی پی کے دفتر جا کر احتجاج کرتا رہا۔‘
عمران چوہدری گذشتہ چار سال سے ان ایپس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے پورے پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی مہم چلائی اور اب ان کے پاس ایسے ہزاروں لوگ واٹس ایپ پر موجود ہیں جو بلیک میلنگ سے تنگ آکر ان سے مدد مانگتے ہیں۔
عمران چوہدری بتاتے ہیں کہ متعدد بار ایف آئی اے کو اس فراڈ سے متعلق بتایا مگر انھوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
ان کا کہنا ہے کہ اب ایف آئی اے کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ وہ پورے ملک میں ان کمپنیوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر بھی لوگوں کو کافی آگاہی مل گئی ہے۔
’ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں ان ایپس کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔‘
ان ایپس کو لائسنس کیسے جاری کیا جاتا ہے؟
ایزی لون یا آسان قرض کی ایپ کو کس طرح لائسنس جاری کیا جاتا ہے اور غیر قانونی ایپس کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے؟
اس بارے میں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی سیکرٹری ڈائریکٹر خالدہ حبیب نے بتایا کہ ایس ای سی پی اقتصادی شعبے کو ریگولیٹ کرتا ہے۔
’جس کا مطلب ہے کہ نان بینکنگ کمپنیوں کو یہ ادارہ لائسنس جاری کرتا ہے۔ جس سے یہ کمپنیاں ملک میں قرض دینے کا کام کر سکتی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم جب بھی کسی کمپنی کو لائسنس دیتے ہیں تو اُس سے پہلے اُس کمپنی میں کون سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس کا سربراہ کون ہے اور دیگر چیزوں کی تسلی کرتے ہیں۔ پھر ہم سائبر کرائم کا فارم دیتے ہیں جس میں تمام چیزیں موجود ہیں کہ قرضہ دیتے ہوئے کیا کیا چیزیں مدِ نظر رکھی جائیں گی، ہم یہ بھی دیکھتے ہیں جس ایپ کو ہم منظوری دے رہے ہیں ان کا نظام اور طریقہ کار سائبر سیکورٹی کے مطابق ہو۔‘
خالدہ حبیب کا مزید کہنا تھا ان ایپس کے لانچ ہونے کے بعد ان ایپس کے متعلق شکایت موصول ہونا شروع ہوئیں جس میں ان ایپس پر کئی سوال کھڑے ہو رہے تھے۔
’ایس ای سی پی نے 2022 میں ایک مراسلہ جاری کیا جس میں ان باتوں کو یقینی بنایا گیا کہ صارف کے موبائل تک رسائی کو محدود کیا جائے گیا، قرضے کی رقم اور دیگر چیزوں سے متعلق صارف کو مکمل آگاہی دی جائے گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے پی ٹی اے، گوگل، سٹیٹ بینک اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے بات کی اور اُن تمام ایپس کے متعلق ایکشن لیا جو غیر قانونی طور پر کام کر رہی تھیں۔ ہم نے گوگل کو بتایا کہ ہم جن ایپس کی نشاندہی کر رہے ہیں ان کو بند کیا جائے، جس پر اب تک گوگل نے 65 ایپس کو بند کر دیا ہے۔‘
خالدہ حبیب کا کہنا ہے کہ گوگل نے ایک نئی پالیسی بھی متعارف کروائی ہے جس کے مطابق کسی بھی ایپ کو کام کرنے کے لیے ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک کا لائسنس دکھانا ہو گا۔
’اس کے علاوہ ایس ای سی پی نے پی ٹی اے سے بھی کہا کہ وہ پہلے سے صارفین کے موبائل فون پر ڈوان لوڈ ان غیر قانونی ایپس کے ای پی آئی ایڈریس کو بلاک کر دے اور ساتھ ہی سٹیٹ بینک کو بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی ایپ کو بینک یا دوسرے کسی ذریعے سے پیسوں کے لین دین کے لیے استعمال نہ ہونے دیں جس کے پاس ایس ای سی پی کا لائسنس نہ ہو۔‘
کیا غیر قانونی ایپس کو مستقل طور پر بند کر دیا جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں خالدہ حبیب نے کہا کہ ’ایس ای سی پی ایک نگران ادارہ ہے۔ اس کا کام غیر قانونی ایپس کی نشاندہی کر کے بند کرنا ہے، ہم مسقتبل میں بھی ان ایپس کو بند کرتے رہیں گے اور ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘
ایس ای سی پی سے منظور شدہ ایپ کا کیسے پتا چلایا جائے؟
اگر آپ قرضہ لینا چاہتے ہیں تو اس بات کو یقینی کیسے بنایا جائے کہ کون سی ایپ ایس ای پی سے منطور شدہ ہیں؟
پاکستان میں ہر کوئی اب بھی آسان اقساط پر قرض حاصل کرنا چاہتا ہے۔اسی وجہ سے خالدہ حبیب نے چند باتیں بتائیں جس کو جان کر کوئی بھی قرض لے کر آن لائن فراڈ سے بچ سکتا ہے۔
صارف کو کوئی بھی ایپ لون ایپ ڈاون کرنے سے پہلے ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر جا کر وائٹ لسٹ چیک کر لینی چاہیے۔ جو ایپ وائٹ لسٹ میں شامل ہے اس کا مطلب ہے کہ اُس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے لائسنس جاری کیا گیا ہے۔ اس وقت صرف دو ایپس ایسی ہیں جن کو ایس ای سی پی کا لائسنس حاصل ہے۔
جب بھی کوئی ایپ ڈاون لوڈ کر لیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ فون تک رسائی صرف ایک مرتبہ دیں کیونکہ ایپ شناختی کارڈ کی تصدیق کے لیے سیلفی لیتی ہیں۔
قرض لینے سے پہلے تمام شرائط کو اچھی طرح چیک کر لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں ایسی کوئی شرط تو نہیں، جو غیر واضع ہو یا قابلِ قبول نہ ہو۔
صارف کو واضع طور پر معلوم ہو کہ اُس نے کتنا سود ادا کرنا ہے۔ صارف کی آسانی کے لیے آڈیو میں بھی تمام شرائط بتائی گئیں ہیں اُن کو بھی لازمی سنیں۔
صارف کو یقین ہو کہ وہ بتائے گئے وقت پر قرض واپس دے دے گا تو ہی قرض حاصل کرے۔