تو بالآخر وہی ہوا جس کا سب کو ڈر تھا۔ ایک ناممکن جیت کا خواب دیکھنے والی ٹیم انڈیا کی بیٹنگ آخری روز ریت کی دیوار کی طرح گِر گئی۔ یوں اس شکست نے ایک بار پھر 1990 کی دہائی کی کمزور انڈین ٹیم کی یادیں تازہ کر دیں۔
انڈیا کی ٹیم میچ کو دوسرے سیشن تک لے جانے میں بھی ناکام رہی اور وراٹ کوہلی جیسے تجربہ کار بلے باز دنیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم پر ایک بار پھر ناکام نظر آئے۔
اگر انڈیا کی ٹیم نے گذشتہ دہائی میں کوئی آئی سی سی ٹرافی نہیں جیتی تو اس کی ایک بڑی وجہ اہم ناک آؤٹ میچوں میں کوہلی جیسے بلے باز کی ناکامی ہے لیکن جب ہم ٹیم انڈیا کے سابق وکٹ کیپر اور بی بی سی کے کمنٹیٹر دیپ داس گپتا سے اوول کے باہر ملے اور ان سے کوہلی اور روہت کی ناکامی کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ان تجربہ کار بلے بازوں کا دفاع کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’آپ کی طرح میں بھی شکست کے بعد بہت جذباتی ہو گیا ہوں، میں مایوس بھی ہوں اور شائقین کا درد بھی سمجھتا ہوں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کھلاڑیوں نے طویل عرصے میں تقریباً ہر سیریز میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔۔۔ اس لیے ہمیں اپنی تنقید میں تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘
پہلے دن خراب کھیل کے بعد کھیل تمام
داس گپتا سے بات کرنے کے بعد میں بحیثیت صحافی ٹیم انڈیا کے کپتان کی پریس کانفرنس میں پہنچ جاتا ہوں اور سیدھا ایک تیکھا سوال کرتا ہوں۔ کیا ٹیم انڈیا بڑے میچوں میں کھل کر کھیلنے سے قاصر ہے؟ کیا توقعات کا دباؤ ان پر ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے؟
روہت شرما اپنے جانے پہچانے انداز میں ہلکا سا مسکرائے اور کہا کہ وہ بھی شکست سے مایوس ہیں لیکن انھوں نے 444 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جارحانہ انداز کا دفاع کیا۔
ٹیم انڈیا نے پہلے دن انتہائی خراب کھیل کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے شاید اسے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ میچ کے پانچویں دن بھی ایک بار پھر ٹیم انڈیا کی طرف کسی مضبوط واپسی کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔
آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز سے پریس کانفرنس میں جب میں نے پوچھا کہ کیا انھیں کبھی لگا کہ ٹیم انڈیا اس ہدف کا تعاقب کر سکتی ہے؟ جب وراٹ کوہلی اپنے خاص انداز میں بیٹنگ کر رہے تھے تو وہ پریشان تھے؟
روہت شرما کی طرح کمنز بھی سوال پر ہلکا سا مسکرائے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ ’بالکل نہیں۔‘
کمنز کا خیال تھا کہ ان کی ٹیم کو اندازہ ہو گیا ہے کہ جیسے ہی نئی گیند لی جائے گی، ٹیم انڈیا کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔
کیا کوہلی، کیا پجارا۔۔۔ کوئی نہیں چلا؟
تاہم اس شکست نے ایک بار پھر ٹیم انڈیا کی ٹیسٹ کرکٹ میں ٹاپ آرڈر کی ناکامی کو بُری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ چاہے کوہلی ہوں، پجارا یا کوئی اور بلے باز، ہر کوئی لگاتار ناکام ہوتا نظر آیا۔
اس ٹیم کے آٹھ کھلاڑی 33 سال کے ہیں اور ایسی صورتحال میں ان تمام کو دو سال بعد دوبارہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں کھیلتے دیکھنا بہت مشکل لگتا ہے۔
ان آٹھ سینیئرز میں سے کتنے اگلے دو سال تک ٹیم کا حصہ رہ سکیں گے، کپتان روہت شرما نے اتوار کو ہی اس طرف توجہ مبذول کرائی۔
روہت نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں بہت سے کھلاڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کیا جائے کہ ٹیم انڈیا کس قسم کی کرکٹ کھیلنا چاہتی ہے اور اگلے ورلڈ کپ فائنل میں کہاں کھیلنا چاہتی ہے۔
یعنی فائنل کہاں منعقد ہو گا اور اس کے مطابق ٹیم کو اگلے دو سال کی تیاری کرنی ہوگی۔
روہت نے شکست کے بعد بہانے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن انھوں نے کہا کہ مثالی طور پر اتنے بڑے میچ کا فیصلہ تین میچوں کی سیریز سے ہونا چاہیے، نہ کہ صرف ایک فائنل میچ جو آئی پی ایل کے فوراً بعد ہوا۔
روہت نے یہ بات مجھ سے میچ سے پہلے بھی کہی تھی۔ روہت کو اندازہ تھا کہ شاید بڑے عالمی مقابلے کے لیے تیاریاں کافی نہیں۔
آئی پی ایل کی بجائے ورلڈ کپ جیتنے پر توجہ دینے کی ضرورت
اب وقت آگیا ہے کہ بی سی سی آئی کو بھی اپنی ترجیحی فہرست میں آئی پی ایل کی بجائے ورلڈ کپ جیتنے کو اہمیت دینی چاہیے۔
اتنے اہم میچز آئی پی ایل فائنل کے صرف ایک ہفتے بعد آ رہے ہیں اور وہ بھی بالکل مختلف فارمیٹ میں جبکہ اس کا انعقاد انگلینڈ میں ہوا جہاں پچ اور موسم کے عادی ہونے میں کم از کم ڈیڑھ دو ہفتے لگ جاتے ہیں۔
روہت نے بارڈر۔ گواسکر سیریز کے وقت سے کئی مشورے دیے تھے لیکن ان کی باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔
انھوں نے اتنا ہی کہا جتنا روہت ایک کپتان کے طور پر عوام میں کہہ سکتے ہیں لیکن کوچ راہل دراوڈ نے خاموشی برقرار رکھی ہوئی ہے۔
آنے والے مہینوں میں دراوڈ کو سخت سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ بھی اٹھے گا کہ اگر ٹیم کو تیاری کے لیے وقت درکار تھا تو کوچ نے یہ معاملہ بورڈ تک کیوں نہیں پہنچایا؟
سابق کوچ روی شاستری نے کہا ہے کہ بورڈ کو ترجیحات کا فیصلہ کرنا ہوگا، انڈیا یا لیگ کرکٹ۔ ’اگر آپ فرنچائز کرکٹ کا انتخاب کرتے ہیں تو اسے (ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل) کو بھول جائیں۔‘
کوہلی کی کارکردگی پر سوالات
ٹیم انڈیا کی اس ناکامی میں مستقبل کے سپر سٹار شبمن گل کا بیٹ خاموش رہا، پھر روہت پر بطور کپتان اور اوپنر بھی سوال اٹھنے لگے۔
پجارا بھی اپریل سے انگلینڈ میں موجود تھے لیکن نتیجہ ڈھاکہ سے مختلف نہیں نکلا۔ کوہلی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ کی چوتھی اننگز میں ان کی جانب سے قیمتی رنز نہ بنا پانا ان کی عظمت پر ایک بڑا سوال کھڑا کر دیتا ہے۔
لیکن جب ہم نے اوول کے باہر کوہلی کے کوچ راجکمار شرما سے ملاقات کی تو انھوں نے کہا کہ ’آپ سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوہلی خود مجھ سے، آپ یا مداحوں سے زیادہ مایوس ہیں۔‘
’یہ ٹھیک ہے کہ کوہلی نے اس میچ میں دوسری اننگز میں غلطی کی لیکن یہ کرکٹ کا حصہ ہے۔‘
شکست نے ٹیم انڈیا پر دباؤ بڑھا دیا
تاہم شائقین ہوں، سابق کھلاڑی یا نقاد، وہ ٹیم انڈیا کی اس ناکامی کو آسانی سے بھولنے والے نہیں۔
اس ناکامی نے چھ ماہ بعد انڈیا میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ سے عین قبل ٹیم انڈیا کے کھلاڑیوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
جیسے جیسے دن گزرتے جائیں گے، یہ دباؤ بڑھتا جائے گا اور ہر کوئی یہ دوبارہ یاد دلائے گا کہ مہندر سنگھ دھونی کے دور میں آئی سی سی ٹرافی جیتنا کتنا آسان تھا لیکن اس کے بعد سے ہر کوئی صرف تڑپتا نظر آتا ہے۔
انڈیا نے آخری بار کوئی آئی سی سی ٹرافی سنہ 2013 میں جیتی تھی۔ یہ دھونی کی کپتانی میں انگلینڈ میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی تھی۔
یہ بات آئی سی سی ٹرافی کے معاملے میں دنیا کے امیر ترین کرکٹ بورڈ کو بہت تکلیف دے گی۔