بی بی سی نے یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بارے میں چند اہم شواہد حاصل کیے ہیں جو یونانی کوسٹ گارڈ (ساحل پر تعینات محافظ) کی جانب سے دیے گئے بیانات پر شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔
بی بی سی کو اس علاقے میں موجود دیگر بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی تھی۔
بی بی سی نے میری ٹائم اینالیٹکس کے پلیٹ فارم ’میرین ٹریفک‘ کی طرف سے ٹریکنگ ڈیٹا کی ایک کمپیوٹر اینیمیشن حاصل کی ہےجس کے اعداد و شمار کشتی ڈوبنے سے قبل سمندر کے اس مخصوص علاقے کی سرگرمیوں کی مکمل نشاندہی کرتے ہیں جہاں تارکین وطن کی کشتی ڈوبی تھی۔
اس ڈیٹا نے یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک کر دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ کشتی کو نیویگیشن میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور یہ کہ انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
تارکین وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کی اس کشتی میں کوئی ٹریکر موجود نہیں تھا اس لیے وہ نقشے پر نہیں دکھائی دی۔
ان شواہد کے برعکس کوسٹ گارڈ اب بھی اپنے دعوے پر قائم ہیں کہ اس دورانیے میں کشتی اٹلی کے راستے پر گامزن رہی تھی اور اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔
بی بی سی کے ان شواہد سے متعلق یونانی حکام نے ابھی تک اپنا ردعمل نہیں دیا ہے۔
یاد رہے کہ یونانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشتی میں سوار افراد نے کہا تھا کہ ان کو مدد کی ضرورت نہیں اور کشتی ڈوبنے سے پہلے تک بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا جس کی بنیاد پر ان کی مدد کی جاتی۔
واضح رہے بدھ کے روز تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے اس واقعے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ بدھ کو تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کم از کم 500 متاثرین لاپتہ ہیں۔
اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس سانحہ سے نمٹنے کے لیے یونان کے کئے جانے والے اقدامات پر تحقیقات کی جائیں اور یہ بھی جانا جائے کہ کشتی ڈوبنے سے قبل ہی بروقت بچاؤ کی کوششیں اور ضروری اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔
یاد رہے کہ اس کشتی پر سوار بچائے گئے 104 افراد میں سے 12 پاکستانی شہری ہیں اور ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں پاکستانی فی الحال لاپتہ ہیں۔ یونان میں حکام نے اب سمندر سے 70 لاشیں نکالی ہیں جن کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستانیوں کی شناخت کے لیے متاثرہ خاندانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ڈی این اے نمونے بھجوائیں تاکہ شناخت کا عمل مکمل کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت متاثرین کی حتمی تعداد کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔‘
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ نے مزید کہا ہے کہ ’حکومت پاکستان یونان کی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔‘ دفتر خارجہ کے مطابق ابھی تک زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانیوں کی شناخت کی تصدیق ہی کی جا سکی ہے۔
واضح رہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے جب کہ کشتی حادثے میں ہلاکتوں پر آج ملک بھر میں قومی سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور کے کمشنر چوہدری شوکت علی نے نمائندہ بی بی سی عمردراز ننگیانہ کو بتایا ہے کہ ڈوبنے والی پناہ گزینوں کی کشتی میں میرپور ڈویژن کے 23 افراد سوار تھے، جن میں سے دو افراد زندہ بچ جانے والوں میں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کمشنر میرپور کے مطابق ’کشتی ڈوبنے کے سانحے میں زندہ بچ جانے والے میرپور ڈویژن کے ان دو متاثرین نے مزید ایسے 21 پاکستانی پناہ گزینوں کی تصدیق کی ہے جن کا تعلق میرپور ڈویژن سے تھا اور جو تاحال لاپتہ ہیں۔‘
کمشنر کے مطابق ’حکام نے شناخت کے عمل کے لیے کوٹلی کی تحصیل کھوئی رتہ میں لواحقین سے ڈی این اے کے نمونے لینے کا عمل شروع کر دیا ہے اور یہ نمونے یونان بھیجے جائیں گے تاکہ لاشوں کی شناخت کی جا سکے۔‘
’سمگلروں نے میرے بیٹے کا برین واش کیا‘
یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے پاکستانی شہریار سلطان کے والد شاہد محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایجنٹ نے ایسا اس کا برین واش کیا ہوا تھا کہ ہم اس طرح دو دن میں (یورپ) پہنچ جاتے ہیں۔ تین دن میں پہنچ جاتے ہیں۔‘
مندرہ سے تعلق رکھنے والے شاہد محمود کہتے ہیں کہ ’بس یہ ناسمجھ تھا، اس نے یہ کام کر دیا۔ اس نے جاتے ہوئے پیغام ایسے بھیجا کہ میں جا رہا ہوں۔ پانچ، چھ دن میں پہنچ جاؤں گا۔‘
انھوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ’ایسے ایجنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن‘ ہونا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے واقعے کی تحقیقات کی ہدایات جاری کرتے ہوئے ’انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنے‘ کا وعدہ کیا ہے۔
وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈاؤن اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔‘
گذشتہ روز پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں تصدیق کی تھی کہ حادثے میں 78 بچنے والوں میں 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جن کا تعلق گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور ضلع کوٹلی سے ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ لاپتہ افراد میں سے کتنے پاکستانی ہیں۔ تاہم اخبار گارڈین کے مطابق بعض اندازوں کے مطابق ’کشتی پر سوار پاکستانیوں کی تعداد قریب 400 تک ہوسکتی ہے۔‘
’انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹ گرفتار‘
گارڈین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بچنے والے تارکین وطن نے کوسٹ گارڈز کو دیے بیان میں کہا ہے کہ پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے حصے میں سوار کروایا جا رہا ہے جبکہ دوسری شہریت کے لوگ اوپر والے حصے میں سوار تھے لہذا کسی حادثے کی صورت میں پاکستانیوں کے بچنے کے امکان کم تھے۔
صحافی ایم اے جرال کے مطابق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے میرپور ڈویژن سے تین سے چار ماہ کے دوران لیبیا اور اٹلی جانے والے افراد کی فہرستیں ضلعی انتظامیہ نے مرتب کی ہیں جو تاحال لاپتہ ہیں۔
ایم اے جرال کے مطابق ابھی تک 27 افراد کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں نوجوانوں کی اکثریت کی تعداد تحصیل کھوئیرٹہ سے ہے جبکہ مزید افراد کی چھان بین کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے میرپور ڈویژن کے کمشنر چوہدری شوکت کا کہنا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ میں ملوث مرکزی ایجنٹ کی معاونت کرنے والے نو مقامی افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم کو وفاقی ادارے (ایف آئی اے) نے کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا تھا۔‘
اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی میں چار سو سے ساڑھے سات سو افراد سوار تھے۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم وزیرِ اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے تمام انسانی اسمگلروں کی نشاندہی کرنے کی ہدایات کی ہیں جو لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرتے ہیں۔‘
کشمیر میں بھی یونان حادثے کا مقدمہ درج، 26 مقامی نامزد
صحافی محمد زبیر خان کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یونان کشتی حادثے کا پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں 26 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ دیگر نامعلوم ملزمان شامل ہیں۔
مقدمہ ضلع کوٹلی پولیس نے پولیس انسپکٹر کی مدعیت میں درج کیا ہے۔ درج مقدمہ کے مدعی کھوٹی رٹہ تھان کے ایس ایچ او سہیل یوسف ہیں۔
انھوں نے پولیس کو یہ بتایا کہ ’انھیں معتبر زرائع سے اطلاع ملی ہے کہ مقدمے میں نامزد ملزمان جس میں مقامی افراد کم از کم دس ہیں، نے انسانی سمگلنگ کا گروپ منظم کررکھا ہے جو مقامی سطح پر اپنے اپ کو ایجنٹ ظاہر کرکے عوام کو ورغلا کر اور بھلا پھسلا کر قانونی طریقے سے یورپ لے جانے کا جھانسہ دے کر بھاری رقم بٹورتے ہیں۔
بعد ازاں ان افراد کو بحیرہ روم کے سمندر کے راستے غیر محفوظ اور غیر قانونی طور پر ڈنکی لگا کر بھجتے ہیں اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کچھ عرعہ قبل ان لوگوں نے تحصیل کھوئی رٹہ کے متعدد افراد کو بھی جھانسہ دے کر یورپ لے جانے کے بہانے خطیر رقم بٹوری گئی اور 14 جون کو ان افراد کو یونان کی سمندری حدود میں ایک کشتی میں سوار کرایا۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کشتی میں 300 سے 350 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی مگر اس آٹھ سو افراد کو سوار کرایا گیا۔
مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان ’ہمارے تھانے کی حدود میں لوگوں کے ساتھ فراڈ کا سبب بننے کے علاوہ کئی اموات کا سبب بھی بنے ہیں۔‘
’کوسٹ گارڈ نے مذاکرات کے لیے کشتی سے رسی باندھنے کی کوشش کی‘
خیال رہے کہ یونان کی کوسٹ گارڈ فورس پر کشتی الٹنے سے قبل مدد فراہم نہ کرنے اور اس کے ڈوبنے میں ملوث ہونے کے حوالے سے الزام عائد کیے جا رہے ہیں اور اس واقعے کے تناظر میں یہی موضوعِ بحث ہے۔
یونان کے نگران وزیرِ اعظم ایونس سارمس کا کہنا تھا کہ ’اصل حقائق اور تکنیکی امور کی جامع تحقیقات کی جائیں گی‘ تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کشتی کیوں ڈوبی۔
’یونان کے کوسٹ گارڈ کی جانب سے حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کے ساتھ حادثے سے دو گھنٹے قبل رسی باندھنے کی کوشش کی تاکہ ان سے مذاکرات کیے جا سکیں۔‘
انھوں نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کشتی کے بالکل قریب آنے کے لیے کیا گیا تاکہ دونوں کشتیاں برابر موجود ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ایسا ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی تاہم کشتی میں موجود افراد کی جانب سے ’مزاحمت کی گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کوسٹ گارڈز نے جہاز کے کپتان یا ان افراد میں سے جو بھی بات کرنے کے لیے تیار تھا اس سے بات کی کیونکہ کسی نے یونیفارم نہیں پہنا ہوا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کشتی کے ڈوبنے میں کوسٹ گارڈ ملوث نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ یونان کے کوسٹ گارڈز پر اس سے قبل بھی غیر قانونی طور سمندر کے ذریعے نقل مکانی کرنے والے افراد کو واپس بھیجنے کے حوالے سے الزامات لگائے گئے تھے۔ تاہم مانوس لوگوٹھیٹس نے چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونان کے کوسٹ گارڈ اپنی اور یورپ کی سرحد کی حفاظت کر رہے تھے۔‘
ایک مشترکہ اعلامیے میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سمندر میں مشکلات میں گھرے افراد کو ریکسیو کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ بین الاقوامی میریٹائم قانون کا بنیادی اصول ہے۔‘
گذشتہ برس اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انھوں نے 540 ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں جن میں یونان کی جانب سے کشتیوں کو واپس بھیجا گیا تھا۔
تاحال اس حوالے سے تفصیلات سامنے آنا باقی ہیں کہ یونان کشتی حادثے کی وجوہات کیا بنیں اور کیا اس میں یونانی حکام ملوث ہیں یا نہیں۔