ٹین ڈبہ بیچ، ردی اخبار بیچ، روٹی چھان بورا بیچ۔۔۔
گلی محلوں میں پھیری والوں کی جانب سے بلند ہونے والی یہ صدا یقیناً تمام پاکستانیوں سے سُن رکھی ہو گی۔ کباڑ اکٹھا کرنے والے ریڑھی بان عموماً اسی آواز اور انداز میں اپنا بزنس چلاتے ہیں لیکن کیا کبھی یہ خیال آپ کے ذہن میں آیا کہ آپ یہ کام کرتے ہوئے بھی اچھے پیسے کما سکتے ہیں؟
اگرچہ کباڑ خریدنے والوں کی یہ مخصوص آوازیں لگ بھگ روزانہ میرے کانوں میں پڑتی ہیں مگر کبھی بھی میرے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بزنس آخر ہے کیا، لیکن لاہور میں رہنے والے 17 سالہ عثمان رفیق یہی نہیں بلکہ ایسے ہی کئی دیگر کاموں کو بغیر کسی عذر کے انجام بھی دے رہے ہیں اور اُن کے مطابق اس سے پیسے بھی کماتے ہیں۔
ناصرف یہ بلکہ وہ اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو نئے کاروبار کرنے کے طریقے انتہائی پریکٹیکل انداز میں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب اخراجات زندگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں شدید مہنگائی کے باعث اکثر افراد کا جینا دو بھر ہے وہیں عثمان محنت مزدوری کے ذریعے پیسے کمانے کو عام کرنے اور اس کام میں شرم محسوس نہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
مشکل مالی صورتحال سے نکلنے کی ترکیب شاید ہر کسی کے پاس ’کاروبار‘ ہوتی ہے لیکن پیسا کہاں لگایا جائے، اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے اکثر افراد ہمت ہی ہار دیتے ہیں۔ عثمان اس بارے میں صارفین کے سامنے کسی بھی کاروبار کی اصلی تصویر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عثمان رفیق اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینل پر ایسے ہی لوگوں کو ’ہر روز نیا کاروبار‘ کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کس کس کاروبار میں پیسے لگا کر اپنا روزگار چلا سکتے ہیں۔
مگر عثمان یہ سب کیسے کر رہیں ہیں اور اُن کو یہ خیال کیسے آیا اُس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ اُنھوں نے وی لاگنگ کب شروع کی تھی؟
ہر روز نیا بزنس کرنے کا خیال کیسے آیا؟
عثمان اس وقت سترہ سال کے ہیں لیکن آج سے چار سال قبل اُنھوں نے یوٹیوب کے ذریعے وی لاگنگ یعنی ویڈیوز بنانے کا کام شروع کیا تھا۔ ان کے کام کو عوام کی جانب سے خوب پسند کیا گیا اور اس کی بنیادی وجہ ان کے مطابق اُن کے چینل کا نام اور زندگی گزارنے کا انداز تھا۔
عثمان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور اس لیے اُنھوں نے یوٹیوب پر اپنے چینل کا نام بھی ’مڈل کلاس عثمان‘ رکھا ہے جو دیکھنے والوں کے لیے اپنائیت کا احساس پیدا کرنے کے لیے اہم تھا۔ چار سال پہلے شروع ہونے والا یہ سفر اب عثمان کو انسٹاگرام پر ایک انفلوئینسر بنا چکا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے جب وی لاگنگ شروع کی تھی تو میرے پاس ایک مائیک خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔‘
’مگر اب تو میرے پاس تمام ضروری آلات، لائٹس اور اچھے کیمروں والے فون موجود ہیں۔ میں نے اپنے پیسوں سے چھوٹی گاڑی خریدی ہے اور اپنے سارے خرچے بھی خود ہی پورے کرتا ہوں۔‘
عثمان کے والد گذشتہ 12 سال سے چپس اور سموسے پیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ عثمان بھی اپنے دن کا آغاز اپنے والد کی دکان پر چیزیں فراہم کرنے سے کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں منڈی جا کر اُلو، پیاز اور دیگر چیزیں خرید کر لاتا ہوں، اور پھر چیزیں تیار کروا کے پڑھنے چلا جاتا ہوں اس کے بعد میں کچھ گھنٹے پڑھ کر ویڈیوز بنانا شروع کر دیتا ہوں۔‘
پاکستان میں ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جو ایک کامیاب وی لاگر بننا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ ایک عرصے سے محنت کر رہے ہیں مگر عثمان نے صرف چار سال میں ہی ایسی کامیابی حاصل کر لی ہے کہ پاکستان کے کئی مشہور وی لاگرز اُن کے ساتھ مل کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ ان کی کامیانی کی وجہ ان کا مواد ہے، جسے دیکھ کر لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ خود بھی کر سکتے ہیں۔
اگر عثمان کی جانب سے بنائے گئے مواد کی بات کریں تو انھوں نے کچھ عرصے پہلے انسٹاگرام ریلز کے ذریعے ویڈیوز بنانی شروع کیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں روزانہ دیکھتا تھا کہ لوگ نوکری تلاش کر رہے ہیں، کبھی کوئی نیا بزنس شروع کرنے کا سوچ رہا ہے، مگر کسی بڑے بزنس میں پیسے لگانے سے ہر کوئی ڈر رہا تھا، پھر میں نے سوچا کیوں نہ ایسے لوگوں کو میں خود روزانہ ایک نیا بزنس کر کے آئیڈیا دوں۔‘
عثمان نے جب یہ کام شروع کیا تو انھیں احساس ہوا کہ ’اکثر افراد ٹھیلوں پر چیزیں بیچنے میں ہچکچاٹ محسوس کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے پاکستان جیسے معاشرے میں احساس شرمندگی جڑا ہو۔‘
عثمان کہتے ہیں کہ ’میں روز مرہ کی جو بھی اشیا بیچ رہا ہوتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ لوگ اس طرح محنت کرنے میں کتراتے ہیں، مگر میں لوگوں کو یہی بتانا چاپتا ہوں کہ محنت کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے، اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کام بڑا ہے یا چھوٹا۔‘
عثمان کے مطابق وہ ایک مہینے میں اپنے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا سے مجموعی طور پر ایک سے دو لاکھ روپے کما لیتے ہیں۔
اچھا بزنس مین بننے کا خواب
کیلے لے لو، ٹماٹر لے لو، جوتے پالش کروا لو۔۔۔ اس طرح کے بے شمار آوازیں آپ کو عثمان کے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز پر سننے کو ملیں گی۔
گھر میں استعمال ہونے والی کوئی عام سی چیز بیچنے سے لے کر کباڑ اکٹھا کرنے کے کام تک عثمان نے ہر قسم کا کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ہر روز نئے نئے کاروبار کرتا ہوں، اُس کے لیے میں ایک دو دن پہلے سے ہی پلان بنا لیتا ہوں کہ میں نہ کیا کاروبار کرنا ہے اور اس میں ایک دن میں کتنا پیسا لگانا ہے۔‘
’پھر میں صبح کام شروع کرتا ہوں اور شام تک کام کرنے کے بعد اپنے انسٹاگرام پر لوگوں کو بتاتا ہوں کہ مجھے اس سے کتنا فائدہ حاصل ہوا اور اگر کوئی اسی کاروبار کو کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سے کتنے پیسے کما سکتا ہے۔‘
انسٹاگرام پر عثمان کی ویڈیوز کو دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں ویوز مل چکے ہیں۔ عثمان نے بتایا کہ وہ یہی مواد ٹک ٹاک پر بھی ڈالتے ہیں۔ جس کے بعد صرف ٹک ٹاک پر ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے، جبکہ ٹک ٹاک پر ان کی ویڈیوز کو چار کروڑ چالیس لاکھ افراد دیکھ چکے ہیں۔ دوسری جانب انسٹاگرام پر اُن کے فالوئرز ساٹھ ہزار سے زیادہ ہیں۔
عثمان کے تایا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں عثمان پر فخر ہے، اتنی عمر میں عثمان جو کر رہا ہے وہ دوسروں کے لیے مثال ہے۔ اس کام سے یہ کئی لوگوں کی مدد کر رہا ہے جو اس مہنگائی میں پریشان ہیں کہ وہ کیا کریں۔‘
ان کے تایا نے بتایا کہ عثمان مستقبل میں بزنس سے متعلق ڈگری حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ ابھی سے تجربہ حاصل کر رہا ہے۔ ’گھر میں عثمان سے بڑے 4 بھائی اور ایک بہن ہیں، وہ سب عثمان کی معاونت کرتے ہیں۔‘
عثمان کی عمر بیشک ہی کم ہو مگر اُنھوں نے اس عمر میں لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ انسان جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس کے لیے محنت کرنی ضروری ہے۔
عثمان کا مطابق ان کا خواب ہے کہ تعلیم مکمل کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ کاروبار کا بنیادی تجربہ حاصل کر کے وہ مستقبل میں ایک اچھے بزنس مین بن پائیں گے۔