عموماً یورپی اور سکینڈینیوین ممالک کا شمار دنیا کے صحت مند ترین یا بچوں کی پرورش کے لیے بہترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن ان سب میں کینیڈا بھی اب خاموشی سے ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے ذریعہ کیے گئے تازہ ترین قابل رہائش شہروں کی فہرست میں کینیڈا کے تین شہروں کو ٹاپ 10 شہروں میں شامل کیا ہے۔ یہ تعداد کسی بھی دوسرے ملک کے شہروں سے زیادہ ہے۔
اس فہرست میں شامل کینیڈا کے تین شہروں میں وینکوور (پانچویں نمبر پر)، کیلگری (ساتویں نمبر پر) اور ٹورنٹو (نویں نمبر پر) شامل ہیں۔ ان شہروں کی درجہ بندی بہترین صحت اور تعلیم کی سہولیات کے اعتبار سے کی گئی ہے۔
یہ معیار زندگی کو بہتر بنانے کے عوامل کینیڈین شہریوں کو اپنے جانب متوجہ کرتے ہیں جو اپنی حکومت کی مثبت پالیسیوں کی تعریف کرتے ہیں۔
وینکوور کی رہائشی سمانتھا فالک کہتی ہیں کہ ’ہماری ترقی پسند سیاست اور عالمی صحت کی دیکھ بھال کینیڈا کو رہنے کے لیے ایک شاندار جگہ بناتی ہے۔‘
’میں ایک ایسے ملک میں رہنے کا تصور نہیں کر سکتی جہاں مجھے ڈاکٹر سے ملنے یا اپنے بچے کو ہسپتال لے جانے کے بارے میں فکر کرنا پڑے، یا کینسر کا مرض لاحق ہونے کی صورت میں میرے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہو۔‘
وینکوور کے رہائشی اور آرگنائزڈ جین کے بانی جین سٹولر کا کہنا ہے ’صحت کی دیکھ بھال کا یہ احساس سیاست دانوں سے بالاتر ہے، جس سے کمیونٹی کا احساس پیدا ہوتا ہے جو کام اور گھر دونوں جگہوں پر زندگی گزارنے کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔ کینیڈین اپنی دوستانہ اور معاون فطرت کے لیے جانے جاتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’دوستی اور بھائی چارے کا یہ احساس ایک مثبت ماحول کو فروغ دیتا ہے جہاں افراد اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں میں ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔‘
کینیڈا کی پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ سسٹمز میں سرمایہ کاری بھی اس کے بڑے شہروں میں نقل و حمل کو آسان بناتی ہے۔
سمانتھا فالک، جو مونٹریال، کیلگری اور ٹورنٹو میں بھی رہ چکی ہیں نے 24 سال کی عمر کو پہنچنے تک اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کیا تھا جبکہ ان کے ایک دوست نے ڈرائیونگ لائسنس 53 سال کی عمر میں حاصل کیا۔ اور اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ انھیں شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے کبھی ذاتی گاڑی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام اتنا بہتر ہے۔
تاہم، رہائشیوں کو جو چیز سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہاں کے شہریوں کا گھروں سے میدانوں میں جانے کا شوق ہے۔ سمانتھا فالک کہتی ہیں کہ ’کینیڈا کے تینوں (سب سے زیادہ قابل رہائش) شہر جو کہ کینیڈا میں اور بھی بہت سے ہیں، فطرت کے قریب ہیں اور انھوں نے اس فطرت کو اپنے ڈیزائن میں بھی شامل کر لیا ہے۔‘
’ٹورنٹو میں کھائیاں اور ساحل ہیں، مونٹریال میں مونٹ رائل اور درختوں سے بھری گلیاں ہیں اور وینکوور میں سٹینلے پارک ہے، جو دنیا کی شہری فطرت کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے۔‘
لیکن کینیڈا کے بڑے شہروں سے باہر بھی فطرت پر توجہ ایک نمایاں خصوصیت ہے، جو کہ رہائشیوں کے لیے بیابان کی اہمیت کا آئینہ دار ہے۔
سمانتھا فالک کہتی ہیں کہ ’ہم کھلے میدانوں اور فطرت کے قریب رہنے والے لوگ ہیں!‘
رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک کے تینوں شہروں میں سے ہر ایک کی اپنی انفرادیت ہے۔ ہم نے ہر شہر کے رہائشیوں سے بات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کو اپنے شہروں میں رہنے اور یہاں کی کس چیز سے محبت ہے۔
وینکوور
ملک کے خوبصورت مغربی ساحل پر واقع شہر وینکوور نے ثقافت اور ماحولیات کی ذیلی فہرست میں سب سے زیادہ سکور کرنے کی بدولت کینیڈا کے سب سے زیادہ قابل رہائش شہر کے طور پر جگہ بنائی ہے۔
سمانتھا فالک کہتی ہیں کہ ’وینکوور کے منفرد اور بلند و بالا پہاڑوں اور سمندر کا امتزاج اسے بہت ہی دلکش بناتا ہے۔‘ سمانتھا شہر کے باہر اپنی ایک کمیونیکشن فرم چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’20 سال یہاں رہنے کے بعد آج بھی یہ شہر میری جان نکال لیتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ شہر کا زیادہ سے زیادہ لطف اٹھانے کے لیے اور اسے گھر جیسا محسوس کرنے کے لیے آپ کو باہر ضرور نکلنا چاہیے خاص طور پر جب یہاں بارش برس رہی ہوں۔
ایسا کرنے کے لیے ایک آسان جگہ سٹینلے پارک ہے جو شہر کے وسط میں 405 ہیکٹر پر محیط ایک عوامی پارک ہے جس میں صدیوں پرانے درختوں کے ساتھ ایک ساحلی جنگل ہے، جس میں 700-800 سال پرانے سرخ دیودار کے کھوکھلے درخت ابھی تک موجود ہیں۔
وہ اس سے بھی زیادہ قدرتی نظاروں کے لیے 2.9 کلومیٹر طویل گروز گرائنڈ ٹریل پر ہائکنگ کا مشورہ دیتی ہیں۔
اس ٹریل کو ’اکثر فطرت کی سیڑھی کا شاہکار‘ بھی کہا جاتا ہے، اس ٹریل پر آپ کو متلی کا احساس ہو سکتا ہے لیکن جب آپ چوٹی پر پہنچے گے تو وہاں کا نظارہ واقعی قابل دید ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ چوٹی پر پہنچ کر وہاں بنے ریستوران سے کافی یا شراب کا گلاس لیں اور منظر میں گم ہو جائیں۔
ایک اور رہائشی سٹولر کہتی ہیں کہ ’فینسی ریستوراں سے لے کر ٹھنڈے فوڈ ٹرکوں اور کسانوں کی منڈیوں تک، آپ کے پاس کبھی بھی لذیذ کھانے ختم نہیں ہوں گے۔‘
اس شہر کے رہائشی ’وینکوور کی سشی‘ کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ جاپان سے باہر سشی ریستورانوں کا بہترین اور سستا انتخاب ہے۔
یہ شہر ایک کاروباری اور باہمی تعاون پر مبنی ذہنیت کو بھی فروغ دیتا ہے جو ایک خوش آمدید گھر کا احساس پیدا کرتا ہے۔ سٹولر کہتی ہیں کہ ’وینکوور کے لوگ کھلے ذہن، متنوع اور آرٹس، ٹیک یا گرین اقدامات کے لیے اکٹھے ہونا پسند کرتے ہیں۔‘
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’آپ کو یہاں اتنے بڑے بڑے سٹورز نہیں ملیں گے، بلکہ یہاں مقامی خریداری کو فروغ دینے اور کمیونٹی کو سپورٹ کرنے والے سٹورز ہوں گے۔ اس لیے کیونکہ اس میں سب کا فائدہ ہے۔‘
کیلگری
یہ مغربی صوبے ایلبرٹا کا شہر ہے جو راکی ماؤنٹینز کے نزدیک واقع ہے۔ یہ شہر دو کینیڈین شہروں سے انڈیکس میں اپنے استحکام کے باعث بہتر ہے (یہ حکومتی بدعنوانی اور شہر میں امن کی بنیاد پر سامنے آتا ہے)۔
یہاں کے رہائشیوں کے مطابق کیلگری ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں بڑے شہروں کی سہولیات موجود ہیں اور یہ کینیڈا کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں رہائش کے لیے قدرے سستا ہے۔
رہائشی اور ٹریول بلاگر لورا پوپ کا کہنا ہے کہ ’کینیڈا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہونے کے باوجود کیلگری میں ایک مخصوص دلکشی ہے، جو یہاں کے دوستانہ مقامی افراد، کمیونٹی کو فروغ دینے والی ذہنیت اور فارمرز مارکیٹس (جہاں تازے پھل اور سبزی کھیتوں سے براہِ راست آتے ہیں) کے باعث ہے۔
’تاہم اس کے باوجود یہاں آپ کو جدید دور کے ریستوران بھی ملیں گے، ثقافتی فیسٹیول اور یہاں کی بہترین نائٹ لائف بھی۔‘ یہ شہر آبادی کے اعتبار سے خاصا متنوع بھی ہے اور کینیڈا میں یہ تیسرا سب سے متنوع شہر ہے جہاں 240 سے زیادہ قومیتوں کے لوگ اور 165 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
شہر میں آئل اور گیس کی صنعت بھی موجود ہے، یہاں کی بزنس کمیونٹی بھی خاصی بڑی ہے جہاں وائٹ کالر نوکریاں کرنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن اس کے باوجود یہاں رہائش خاصی سستی تصور کی جاتی ہے۔
جیسی پی کایابو، جو ایڈمنٹن سے کیلگری تین برس پہلے شفٹ ہوئی تھیں، کہتی ہیں کہ ’کیلگری کے لوگوں کے پاس دولت ہے اور انھیں اسے خرچ کرنا بھی آتا ہے۔‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ موسمِ گرما کے مہینوں میں شہر کے وسطی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں رش ملے گا اور ہاکی سیزن میں یہاں آپ لوگوں کو سوٹس اور ٹائی کی بجائے لوگوں کیلگری فلیمز کی جرسی پہنے دیکھیں گے۔
ہر سال کیلگری سٹیمپیڈ نامی فیسٹیول جولائی کے پہلے جمعے کو شروع ہوتا ہے اور دس روز تک چلنے والی اس تقریب میں ہر کوئی مغربی لباس پہنتا ہے اور یہ فیسٹیول پوری دنیا سے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔
کیلگری کے رہائشی شینن ہیوجز جو وہاں موجود ایک بزنس ایڈوائزری کمپنی کیپٹو بینیفٹس کی مالک ہیں کہتے ہیں کہ ’لوگ یہاں تفریح کی غرض سے گھروں سے باہر جاتے ہیں۔ یہاں گھروں کے ساتھ صحن میں بھی رش پایا جاتا ہے اور ریستورانوں میں بھی۔ وہ مشورہ دیتی ہیں کہ اگر آپ میجر ٹام ریستوران میں غروبِ آفتاب کے وقت بکنگ کروائیں تو آپ شہر کے پہاڑی سے نظر آنے والے دلکش نظارے کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔‘
کینیڈا کے دیگر شہروں کی طرح اس شہر میں بھی زندگی گزارنے کے معیار میں اضافے کی وجہ پرفضا مقامات اور قدرت سے قربت ہے۔ کیلگری میں پیدل چلنے کے لیے طویل فٹ پاتھ اور سائیکل چلانے والوں کے لیے ٹریکس موجود ہیں۔ ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل یہ راستے پورے شمالی امریکی میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔
پوپ کا کہنا تھا کہ ’شہر میں سائیکل چلاتے ہوئے میں نے ایسے دلکش نظارے اور مقامات بھی دیکھے جو عام طور پر آپ کی آنکھ سے پوشیدہ رہتے ہیں، ان کی وجہ سے مجھے روزانہ باہر جا کر دنیا دیکھنے کی خوشی نصیب ہوتی ہے۔‘
سردیوں میں بھی شہر میں سکیئنگ، سکیٹنگ، ٹیوبنگ، سنوشوئنگ اور آئس بائیکنگ جیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ شہر نے سنہ 1988 میں ونٹر اولمپکس کی میزبانی کی تھی، یہی وجہ ہے کہ یہاں اب بھی انفراسٹرکچر موجود ہے۔
یہاں کے رہائشی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہاں سردیاں طویل اور سرد ہوتی ہیں اس لیے غیر ملکی جو گرم موسموں کے عادی ہیں انھیں اپنے ساتھ سردی برداشت کرنے کے لیے اچھی کوالٹی کا سامان ساتھ لانا چاہیے۔
ٹورونٹو
یہ کینیڈا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہاں آپ کو ایک بڑے شہر کا ماحول بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور یہاں 1500 پارکس بھی ہیں جو رہائشیوں کو باہر کی دنیا سے جوڑے رکھتے ہیں۔
ٹورونٹو کا انڈیکس میں امن اور استحکام سے متعلق سکور بہترین تھا کیونکہ یہاں تحفظ کا احساس رہتا ہے جو لوگوں کو بہتر محسوس کروانے میں مدد دیتا ہے چاہے وہ پیدل چل رہے ہوں، پبلک ٹرانسپورٹ پر ہوں یا سائیکلنگ کر رہے ہوں۔
خاص طور پر انسانی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر بنائے گئے انفراسٹرکچر کی بدولت یہاں زندگی دوسرے بڑے شہروں سے زیادہ آسان محسوس ہوتی ہے۔ رہائشی عموماً اس راستے کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں جو رہائشیوں کے لیے زیرِ زمین بنایا گیا ہے۔ یہ انھیں خاص طور پر سردیوں میں آسانی دیتا ہے۔
یہاں کی رہائشی ہوانگ این لی جو ایک بلاگر بھی ہیں کہتی ہیں کہ ’میرے دفتر سے ایئرپورٹ (ٹرین)، کھانے کے ریستوران، شاپنگ اور یہاں تک کے ڈاکٹر کے پاس جانے تک ہر چیز میری پہنچ میں ہے اور مجھے اس کے لیے اپنے سردیوں کے کوٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
رہائشی کیرا مارسکیل اس بات سے اتفاق کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ٹورونٹو ٹرانزٹ کمیشن میں مسائل ہیں لیکن تمام ٹرانزٹ آپشنز کا ایک دوسرے سے جڑا ہونا اور ہر چار منٹ بعد کوئی نئی بس یا ٹرین کا سٹاپ پر موجود ہونا بہت آسانی پیدا کرتا ہے خاص طور پر ایک ایسے علاقے سے آتے ہوئے جہاں گاڑی پر سفر کرنا ہی واحد آپشن ہے۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’پورے شہر میں کرائے پر ملنے والی بائیکس بھی ہیں جو ماحول کو نقصان نہ پہنچانے والی بہترین آپشن ہے جس سے میں محظوظ ہوئی ہوں۔‘
یہ شہر انتہائی متنوع ہے اور یہاں کی 51 فیصد آبادی غیرملکی ہے۔
سافٹ ویئر کمپنی ہوسٹ اوے کے شریک بانی اور سی ای او مارکس ریڈر کہتے ہیں کہ ’یہ واحد مغربی شہر ہے جہاں بظر غیر سفید فام اقلیت اکثریت میں ہے۔ یہاں آپ متعدد ثقافتوں اور زبانیں بولنے والوں سے مل سکتے ہیں اور کینیڈا مختلف ثقافتوں کے افراد کو یہاں آنے کی ترغیب دیتا ہے اور اسے منع نہیں کرتا۔‘
اس تنوع کے باعث کمیونٹی میں مختلف فیسٹیول، کھانے دستیاب ہوتے ہیں اور مختلف قیمتوں میں بھی۔
یہاں ٹورونٹو میں نئے کاروبار کرنے کی امنگ موجود ہے اور بڑے کاروبار جیسے اوبر، گوگل، فیس بک وغیرہ کے تو یہاں دفاتر ہیں ہی لیکن نئے سٹارٹ اپس بھی پنپ رہے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں یہ شہر شمالی امریکہ کا تیسرا سب سے بڑا ٹیکنالوجی کا گڑھ بن چکا ہے، صرف نیویارک اور سیلیکون ویلی اس سے آگے ہیں۔ جب اس شہر کی متنوع کمیونٹی کو اس کے ٹیکنالوجی مارکیٹ سے ملایا جاتا ہے تو یہ لوگوں کے لیے ایک بہترین ایکسپوژر ہوتا ہے۔