کینیڈا خالصتان کے معاملے پر انڈیا کے اعتراضات کو نظر انداز کیوں کر رہا ہے؟

خالصتان کے حامیوں کی جانب سے انڈین سفارت کاروں کو دھمکی آمیز پیغامات کے بعد کینیڈا اور انڈیا کے سفارتی تعلقات میں تناؤ کے آثار ہیں۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے ہمیشہ انڈیا کے خلاف احتجاج اور سفارت کاروں کو تشدد کا نشانہ بنانے سے متعلق معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔

جمعرات کو کینیڈین وزیر اعظم انڈیا کے وزیر خارجہ کے اس بیان پر تبصرہ کر رہے تھے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ وہ ووٹ بینک کی سیاست کا حصہ ہیں۔

پچھلے چند مہینوں کے دوران، خالصتان کے حامی عناصر نے کینیڈا میں کئی انڈیا مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ حال ہی میں انڈیا نے ایسے عناصر کی جانب سے انڈین سفارت کاروں کو دی جانے والی دھمکیوں کے بعد نئی دہلی میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو طلب کیا تھا۔

کینیڈین وزیراعظم نے کیا کہا؟

8 جولائی کو خالصتان کے حامیوں کے ممکنہ مظاہرے سے قبل، انڈیا کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا کہ کینیڈا میں انتہا پسندی کو جواز فراہم کرنے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

6 جولائی کو انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے خالصتان کے حامیوں کی طرف سے کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا میں انڈیا کے سفارت کاروں کو دی جانے والی دھمکیوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کینیڈین حکومت سے کارروائی کی اپیل بھی کی۔

یاد رہے کہ خالصتان کے حامیوں نے ایک پوسٹر جاری کیا تھا جس میں کینیڈا میں انڈین سفارت کاروں سنجے کمار ورما اور اپوروا سریواستو پر خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ ہردیپ سنگھ کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا گیا۔ خالصتان کے حامی 8 جولائی کو اسی سلسلے میں کینیڈا میں ریلی نکال رہے ہیں۔

کینیڈا میں اس ریلی کے حوالے سے خالصتان کے حامیوں کی سرگرمی دیکھ کر انڈین وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’ایسے پوسٹر بیرون ملک ہمارے سفارت کاروں اور سفارت خانوں پر حملے کے لیے اکسارہے ہیں۔ ہم اسے کسی بھی حالت میں قبول نہیں کرتے۔ ہم نے کینیڈا کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انڈیا کے سفارت کاروں اور سفارتی مشن کو تحفظ فراہم کرے۔‘

تاہم کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس معاملے میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ غلط ہیں۔ ہمارا ملک بہت متنوع ہے اور ہم آزادی اظہار کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن ہم ہمیشہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہر قسم کے تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘

آزادی اظہار رائے کا معاملہ

خالصتان کے حامیوں کے مظاہروں کے حوالے سے ٹروڈو کی جانب سے آزادی اظہار کے حوالے سے دیا گیا بیان انڈیا کو پسند نہیں آیا۔

انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ اظہار رائے کی آزادی کا سوال نہیں ہے۔ اسے تشدد، علیحدگی پسندی کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں خالصتان کے حامی عناصر کی مبینہ حمایت کا معاملہ بھی اٹھایا۔

تاہم جمعرات کو ہی برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے انڈیا کے سفارتی مشن کی سکیورٹی یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

انھوں نے ہفتہ کو ملک کے بڑے شہروں میں خالصتان کے حامیوں کی ریلیوں کے دوران سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

انھوں نے کہا کہ لندن میں انڈین ہائی کمیشن پر براہ راست حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اس سے قبل لندن میں، 19 مارچ کو، خالصتان کے حامیوں نے انڈین مشن سے منسلک ایک عمارت پر لہرائے جانے والے انڈی پرچم کو اتار دیا تھا جبکہ اس دوران مشن کا شیشے کا ایک دروازہ بھی ٹوٹ گیا تھا۔

اس حملے کے بعد انڈین حکومت نے کہا تھا کہ برطانیہ انڈیا کے سفارتی مشن کی سکیورٹی سے متعلق خدشات پر توجہ نہیں دے رہا ہے۔

انڈیا نے نئی دہلی میں برطانوی ہائی کمشنر کی سکیورٹی بھی کم کردی تھی۔

کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں کے انڈیا مخالف موقف کے پیش نظر رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس نے انڈیا کے سفارت کاروں اور سفارتی مشنوں کو سکیورٹی فراہم کر دی ہے۔

کینیڈا میں سکھوں کا سیاسی اثر و رسوخ اور بھارت کی تشویش

لیکن کینیڈا میں علیحدگی پسند سکھوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ کینیڈا میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد موجودہ ٹروڈو حکومت کے حامی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اب تک خالصتان کے حامیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے گریز کیا ہے۔

کینیڈا میں 2.4 ملین انڈین نژاد لوگ بستے ہیں جن میں سے سات لاکھ سکھ ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر گریٹر ٹورنٹو، گریٹر وینکوور، ایڈمنٹن اور کیلگری میں آباد ہیں۔ انھیں ایک بڑے ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اب مقامی کونسلوں اور کینیڈین پارلیمنٹ دونوں میں کئی سکھ ممبران پارلیمنٹ ہیں۔

لیکن ایک طویل عرصے سے خالصتان کے حامی سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں کینیڈا میں ہوتی رہی ہیں۔

کینیڈا کی آبادی مذہب اور نسل کی بنیاد پر کافی متنوع ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں کینیڈا کی کل آبادی میں اقلیتوں کی تعداد بڑھ کر 22.3 فیصد ہو گئی تھی۔

1981 میں، اقلیتیں کینیڈا کی کل آبادی کا صرف 4.7 فیصد تھیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2036 تک اقلیتیں کینیڈا کی کل آبادی کا 33 فیصد ہو جائیں گی۔

کینیڈا میں خالصتان کے حامی رائے عامہ کے جائزوں کی وجہ سے یہاں رہنے والے سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان علیحدگی بھی بڑھ رہی ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے ہندو اور انتہا پسند سکھوں کے درمیان تصادم دیکھنے کو مل سکتا ہے جیسا کہ برطانیہ کے لیسٹر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پرتشدد تصادم ہوا۔

واضح رہے کہ آپریشن بلیو سٹار کی 39ویں برسی سے چند روز قبل 6 جون کو کینیڈا کے شہر برامپٹن میں پانچ کلومیٹر طویل جلوس نکالا گیا۔

یاد رہے کہ 31 اکتوبر 1984 کو اس وقت کی انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ سکیورٹی اہلکاروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

جون 1984 میں انڈین فوج نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں سکھ انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی تھی۔

انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کینیڈا میں خالصتان تحریک کے حامی سکھوں کے ایک جلوس میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کا جشن منانے اور اس کی منظر کشی کرنے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اعتراض کیا تھا۔

سکھ پہلی بار کینیڈا کب اور کیسے پہنچے؟

1897

میں، ملکہ وکٹوریہ نے برطانوی ہندوستانی فوجیوں کے ایک دستے کو لندن میں ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔

پھر فوجیوں کا ایک گروپ ملکہ ہند کے ساتھ برٹش کولمبیا گیا جن میں رسالدار میجر کیسر سنگھ بھی شامل تھے۔ وہ کینیڈا منتقل ہونے والے پہلا سکھ سمجھےجاتے ہیں۔

ان کے ساتھ کچھ اور فوجیوں نے بھی کینیڈا میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے برٹش کولمبیا کو اپنا گھر بنا لیا۔

جب باقی فوجی ہندوستان واپس آئے تو ان کے پاس سنانے کے لیے ایک کہانی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ برطانوی حکومت انھیں آباد کرنا چاہتی ہے اور یوں انڈیا سے کینیڈا تک سکھوں کی نقل و حرکت شروع ہوئی۔ چند سالوں میں 5000 ہندوستانی برٹش کولمبیا پہنچ گئے جن میں سے 90% سکھ تھے۔