انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک حالیہ ریڈیو خطاب میں کہا ہے کہ دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ایک نئے ٹرانسپورٹ کوریڈور منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جو آنے والے سینکڑوں برسوں تک عالمی تجارت کی بنیاد بنے گا۔ مگر کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے جیسا کہ وزیراعظم مودی نے کہا ہے؟
فارن پالیسی جریدے کے ایڈیٹر ان چیف روی اگروال کھنہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ریل اور شپنگ نیٹ ورکس کے ذریعے یورپ اور ایشیا کے درمیان نقل و حمل اور مواصلاتی روابط کو تقویت دینے کے لیے شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ جہاں خطے کے لیے فائدہ مند ہے، وہاں یہ امریکی خارجہ پالیسی کے خدوخال کا بھی واضح اظہار کر رہا ہے۔‘
’سادہ الفاظ میں کہا جائے تو یہ وہ منصوبہ ہے جو چین کے خلاف امریکی مفادات کو فروغ دیتا ہے۔‘
’کنیکٹیوگرافی‘ کے مصنف پاراگ کھنہ کا کہنا ہے کہ ’اس منصوبے کا حصہ بننے سے امریکہ کو مادی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہے، لیکن اسے کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والے جاپان، جنوبی کوریا سربراہی اجلاس کے زمرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔‘
امریکہ نے چین کے بڑھتے ہوئی اثر و رسوخ کے پیش نظر بحرالکاہل کے دو اہم ممالک کے تعلقات میں نرمی لا کر اپنی سفارتی موجودگی کا اشارہ دیا ہے۔
آئی ایم ای سی راہداری منصوبے کو بہت سے لوگ امریکہ کی جانب سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے مقابلے کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں، جو کہ ایک عالمی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا منصوبہ ہے جو چین کو جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، روس اور یورپ سے جوڑتا ہے۔
کیا آئی ایم ای سی کا چین کے راہداری منصوبے سے موازنہ کرنا درست ہے؟
رواں برس چینی صدر شی چنگ پنگ کی جانب سے اعلان کردہ چین راہداری منصوبے کے آغاز کو دس سال مکمل ہو گئے ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ منصوبے کے بڑے عزائم میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے، کیونکہ چین کی اقتصادی سست روی کے درمیان منصوبوں کو قرض دینے کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ اٹلی جیسے ممالک اس منصوبے سے نکلنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں اور سری لنکا اور زیمبیا جیسی قوموں نے خود کو قرضوں کے جال میں پھنسا لیا ہے جو اب اپنے قرض واپس کرنے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے فیلو گریش لتھرا نے ایک حالیہ مقالے میں لکھا ہے کہ چین کے بی آر آئی منصوبے کو متعدد دیگر وجوہات کی بنا پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں ’ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے سٹریٹجک اثر و رسوخ حاصل کرنے کے بنیادی مقاصد۔۔۔ مختلف خطوں کو جارحانہ طور پر چین سے جوڑنا، ان ممالک کی مقامی ضروریات پر ناکافی توجہ، شفافیت کی کمی، ممالک کی خودمختاری کو نظر انداز کرنا، منفی ماحولیاتی اثرات، بدعنوانی اور درست مالی نگرانی کا فقدان‘ شامل ہیں۔
اگروال کھنہ کہتے ہیں کہ تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود چین نے ’حیران کن کامیابی‘ حاصل کی ہے اور آئی ایم ای سی اس کے ’حریف‘ ہونے کے قریب بھی نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ زیادہ سے زیادہ ایک معتدل راہداری منصوبہ ہو سکتا ہے۔‘
اگروال کھنہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بی آر آئی کے مقابلے میں گیم چینجر نہیں ہے۔ یہ ایک خوش آئند اعلان ہے لیکن آپ اس تجویز کو دیکھ کر یہ نہیں کہتے کہ اوہ میرے خدا دنیا اس کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔‘
اور یہ واضح ہے کہ ایسا کیوں ہے۔
چین نے بی آر آئی منصوبے کو ایک دہائی قبل شروع کیا تھا اور رواں برس جولائی میں اس منصوبے کے تحت کل سرمایہ کاری ایک کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ 150 سے زیادہ ممالک اس منصوبے میں بطور شراکت دار شامل ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ گریش لتھرا لکھتے ہیں کہ چین نے واضح طور پر اپنے جغرافیائی دائرہ کار کو ’علاقائی سے عالمی‘ سطح پر بڑھا دیا ہے۔
ترقی یافتہ مغربی ممالک کی جانب سے چین کے بڑھتے اثر رسوخ کو روکنے کے لیے انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کا راہداری منصوبہ (آئی ایم ای سی) پہلی کوشش نہیں ہے۔
جی سیون ممالک اور امریکہ نے سنہ 2022 میں عالمی انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کے لیے شراکت داری کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد 2027 تک عالمی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں 600 ارب ڈالر کو اکٹھا کرنا ہے۔ اس منصوبے کو گلوبل گیٹ وے کا نام دیا گیا تھا اور اسے یورپی یونین کی جانب سے بی آر آئی کا جواب قرار دیا گیا ہے۔
اگرچہ ان منصوبوں کا چین کے بی آر آئی منصوبے جیسے عزائم یا وسعت سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
اگروال کھنہ کہتے ہیں کہ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں چین کے اقدام کے جواب میں ان منصوبوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی آر آئی ایک ’عالمی اقتصادی قوت‘ ثابت ہوا ہے۔
کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آئی ایم ای سی کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کی مخالفت کی عینک سے نہ دیکھا جائے اور وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایسا کرنا نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔
آئی ایم ای سی کے قیام سے تجارتی شراکت کے رجحان کو مزید فروغ ملے گا جہاں ممالک بیک وقت متعدد شراکت داروں کے ساتھ تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ کوپن ہیگن یونیورسٹی کی پروفیسر رویندر کور کہتی ہیں کہ ’ان دنوں زیادہ تر ممالک متعدد فورمز اور اتحادوں میں شامل ہوتے ہیں۔‘
منصوبے کی تفصیلات اہم ہیں
آئی ایم ای سی کے مفاہمتی دستاویزات میں تو اس منصوبے کی تفصیلات بہت کم ظاہر کی گئی ہیں لیکن اگلے 60 دنوں میں اس حوالے سے ایک ایکشن پلان متوقع ہے۔ اب تک کی معلومات سے تو یہ ایک ممکنہ جغرافیائی راہداری کا منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔
اسے مکمل کرنا بہت پیچیدہ ہو گا۔ اگروال کھنہ کا کہنا ہے کہ ’میں اس منصوبے میں اہم سرکاری اداروں کو دیکھنا چاہتا ہوں جو سرمایہ کاری کے لیے دستخط کریں گے، ہر ملک کی حکومت اس کے لیے کتنے وقت میں کتنی سرمایہ کاری کی حامی بھرتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس منصوبے کے تحت باہمی تجارت کے لیے کاغذی کارروائی کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک نئے رواج اور تجارتی قوائد کو بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘
انھوں نے قزاقستان سمیت 30 ممالک سے گزرنے والی ٹرانس یوریشین ریلوے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ ٹرانزٹ بغیر کسی رکاوٹ کے ہے۔ آپ کو صرف سفر کے آغاز اور اختتام پر کلیئرنس کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس آئی ایم ای سی میں ایسا نہیں ہے۔‘
اس کے علاوہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب جیسے شراکت دار ممالک کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے کی واضح جغرافیائی سیاسی پیچیدگیاں بھی ہیں جو اکثر بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ٹیکٹیکل تعاون کو خراب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
آئی ایم ای سی منصوبہ نہر سوئز کے بھی مقابل ہو گا، یہ وہ بحری تجارتی راستہ ہے جو مصر میں آبی گزرگاہ ممبئی اور یورپ کے درمیان تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہر اقتصادیات سوامی ناتھن آئیر نے ٹائمز آف انڈیا کے لیے اپنے کالم میں لکھا کہ ’ایک حد تک آئی ایم ای سی راہداری منصوبہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بہتر بنائے گا لیکن اس سے مصر کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔‘
ناتھن آئیر کا مزید کہنا ہے کہ نہر سویز کے ذریعے سمندری سفر بھی سستا، تیز اور نسبتاً کم مشکل ہے۔ ’یہ منصوبہ چاہے سیاسی اعتبار سے بہترین ہو، لیکن یہ ٹرانسپورٹ کی معیشت کے تمام اصولوں کے خلاف ہے۔‘
متحدہ عرب امارات کے لیے سابق انڈین سفارتکار نودیپ پوری نے دی نیشنل نیوز میں اپنے ایک کالم میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ لیکن اس منصوبے کے عزائم کواڈ جیسے سکیورٹی فورمز میں ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر تجارت اور معاشیات کے تنگ دائرہ کار سے بالاتر ہیں تاکہ بجلی کے گرڈ سے لے کر سائبر سکیورٹی تک ہر چیز کو شامل کیا جاسکے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’اگر نئی دہلی میں اعلان کردہ بلند عزائم ایک حقیقت بن سکتے ہیں، تو وہ ایک محفوظ، زیادہ رہنے کے قابل دنیا کے لیے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ لیکن فی الحال ہم اس امید کے ساتھ جیتے ہیں۔‘