اس ویڈیو میں نظر آنے والی تین لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں
پشاور ہائیکورٹ نے کوہستان ویڈیو سکینڈل کے تمام تین ملزمان کو قتل کے الزامات سے بری کر دیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے گذشتہ دنوں اس کیس میں اپنا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس کامران حیات میاں خیل نے تحریر کیا ہے جبکہ ان کے ساتھ اس بینچ کے دوسرے جج جسٹس محمد اعجاز خان تھے۔
واضح رہے کہ سنہ 2012 میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں مئی 2010 میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔
یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں بازغہ، سیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور ان کی کم عمر مددگار شاہین کو ذبح کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔
تاہم گذشتہ برسوں کے دوران افصل کوہستانی سمیت ان کے چار بھائیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔
سنہ 2018 میں اس قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور پانچ ستمبر 2019 میں ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج نے ٹرائل کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے آٹھ میں سے پانچ ملزمان کو بری کر دیا تھا جبکہ تین ملزمان کو قتل کے علاوہ گواہی چھپانے وغیرہ کی دفعات کے تحت قید کی سزا سنائی تھی۔
تینوں ملزمان نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی اور بالآخر تقریباً پانچ سال کے بعد اب ان ملزمان کو ہائیکورٹ سے قتل کے الزام سے بریت مل گئی ہے۔
کوہستان ویڈیو سکینڈل میں لڑکیوں کے قتل کے الزام سے بری ہونے والے ملزمان کے وکیل عاطف علی جدون ایڈووکیٹ نے بتایا کہ تحریری فیصلہ منگل کے روز سامنے آیا ہے اور ممکنہ طور پر اب ان بری ہونے والے افراد کی رہائی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔
عاطف علی کے مطابق قتل مقدمے کی دفعہ 302 میں تینوں ملزمان بری ہو چکے ہیں جبکہ اعانت جرم، گواہی کو چھپانے جیسی دفعات میں وہ اپنی سزائیں پہلے ہی پوری کر چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اب ان کی رہائی میں جیل اور عدالت کے کاغذات وغیرہ کا مکمل ہونا ہی باقی ہے۔‘
’ناکافی شہادتیں‘
پشاور ہائیکورٹ ایبٹ آباد بینچ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ جرح کے دوران تفتیشی افسر نے اقرار کیا ہے کہ واقعہ سنہ 2012 میں ہوا تھا جبکہ اس نے سنہ 2018 میں جائے وقوعہ کا دورہ کیا تھا، جہاں پر مبینہ طور پر ملزمان نے لڑکیوں کو قتل کیا تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ استغاثہ نے واقعاتی شہادتوں پر انحصار کیا ہے، تاہم یہ ضروری تھا کہ واقعاتی شہادتوں کو ثابت کرنے کے لیے واقعات کے سلسلے کو مکمل طور پر ثابت کیا جائے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پانچ میں سے تین لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہو چکی ہیں اور شہادتوں کو چھپانے کے لیے ان کی لاشوں کو دریا برد کیا گیا تھا تاہم ٹرائل کے دوران جو شہادتیں ریکارڈ ہوئیں وہ ظاہر کرتی ہیں کہ وقوعہ کا مرکزی ملزم شمس الدین تھا، جو اب زندہ نہیں ہے۔
عدالت نے لکھا کہ استغاثہ سزا پانے والے دیگر تین ملزمان کا لڑکیوں کے قتل میں واضح کردارکے حوالے سے کوئی شہادت پیش نہیں کر سکی ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق یہ استغاثہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ ٹھوس ثبوت پیش کرتی جبکہ جو ثبوت پیش کیے گئے ہیں وہ ان کی سزا کو بحال رکھنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ قانون کا اصول ہے کہ کسی کو سزا دینے کے لیے ناقابل تردید شواہد اور قابل اعتماد شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور استغاثہ کے کیس میں شکوک کا پیدا ہونے کا نتیجہ ملزم کے حق میں جائے گا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قتل کرنے کا الزام ثابت نہیں ہوا ہے اس لیے ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔ تاہم عدالت نے قرار دیا کہ ملزمان پر جرم کے ثبوت مٹانے اور غلط اطلاعات فراہم کرنے کے الزامات ثابت ہوتے ہیں، جس میں ان کی سزا کو بحال رکھا جاتا ہے۔
اس مقدمے کے اہم گواہ نے عدالت میں کیا بیان ریکارڈ کرایا؟
پشاور ہائیکورٹ نے اپنے تحریری فیصلہ میں کہا ہے کہ بلاشبہ استغاثہ نے اپنا مقدمہ ثابت کرنے کے لیے بڑی تعداد میں گواہ پیش کیے مگر اس مقدمے کے اہم گواہ تفتیشی افسر عبدالخالق ہیں، جنھوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا ہے۔
فیصلے کے مطابق تفتیشی افسر عبدالخالق نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ مقتول لڑکیوں کے انگلیوں کے نشانات حاصل کیے گئے تھے تاہم صرف دو مقتول لڑکیوں کے انگلیوں کے نشانات نادرا کے پاس دستیاب تھے اور نادرا کی رپورٹ کے مطابق انگلیوں کے نشانات ان مقتول لڑکیوں کے نشانات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
تفتیشی افسر نے بتایا ہے کہ دوران تفتیش ملزمان کو حراست میں لیا گیا جنھوں نے بتایا کہ تینوں لڑکیوں کی لاشوں کو دریا برد کیا گیا تھا جبکہ دو لڑکیوں کو گواہوں کی موجودگی میں پولیس سٹیشن میں پیش کیا گیا تھا، جن کے بیانات دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کیے گئے تھے۔
’ملزمان کے بری ہونا ایک بہت بڑا دھچکا ہے‘
عدالت کے اس فیصلے پر جب بی بی سی نے اس ویڈیو سکینڈل کے ایک مرکزی کردار بن یاسر جو کہ اس ویڈیو میں بھی نظر آ رہے ہیں، سے رابطہ کیا تو انھوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سنہ 2012 سے سنہ 2019 کے درمیان بن یاسر کے چار بھائیوں کو یہ ویڈیو سکینڈل سامنے آنے کے بعد قتل کیا جا چکا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد بن یاسر نے اپنے خاندان کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم پہلے ہی قابل رحم زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے گھر، باغات، زمین پر دوسروں کا قبضہ ہے۔ ہم اپنے گاؤں نہیں جا سکتے ہیں۔ ایک جگہ پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ہم سے روزگار کے مواقع چھینے چکے ہیں۔ اتنی قربانیاں دینے کے بعد ملزمان کے بری ہونا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔‘
کوہستان پولیس کے مطابق بن یاسر اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا گیا اور ان کے رہائش گاہ پر چار پولیس اہلکار تعنیات ہیں۔ پولیس کے مطابق ’بن یاسر اور ان کے خاندان کو ہر ممکنہ تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘
بن یاسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کوہستان ویڈیو سکینڈل کے ملزمان کا بری ہونا میرے اور میرے خاندان کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ ہم پہلے ہی افضل کوہستانی سمیت چار بھائیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ میں نے اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے پولیس کو دوبارہ درخواست دی ہے۔‘
’سپریم کورٹ از خود کارروائی کرے‘
انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ انھیں اس فیصلے سے دھچکا لگا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’لڑکیوں کے غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ سپریم کورٹ کی جوڈیشنل انکوائری پر ہوا تھا اور جوڈیشنل انکوائری میں ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے گے تھے۔‘
انھوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ اس پر از خود نوٹس لے اور کاروائی کرئے۔
فیصلے کے حوالے سے قانونی ماہر عثمان ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ عدالت میں پیش کردہ شواہد اور گواہوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
ان کے مطابق عدالتیں کسی کو بھی سزا اور بالخصوص قتل جیسے الزامات میں سزا دینے میں بہت محتاط ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ دنیا بھر میں رائج ہے کہ ’شک کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے جبکہ ناقابل تردید ثبوت پیش کرنا ہمیشہ استغاثہ نے فراہم کرنے ہوتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں لڑکیوں کو زندہ قرار دیا گیا تھا مگر انسانی حقوق کی کارکن اور کمیشن کی ممبر فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل انکوائری کرنے کی درخواست عدالت میں دائر کی تھی۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے پہلے خاتون جوڈیشل افسر منیرہ عباسی کی سربراہی اور بعد ازاں سنہ 2016 میں اس وقت کے ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج داسو، کوہستان محمد شعیب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔
محمد شعیب کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کے زندہ ہونے کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے فارنزک تحقیقات کی تجویز دی تھی جس پر سرپم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بینچ جس کی سربراہی ریٹائر ہو جانے والے جج جسٹس اعجاز افضل کر رہے تھے، نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ جوڈیشل آفیسر محمد شعیب کی پیش کردہ رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات مکمل کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔
جسٹس اعجاز افضل کے ریٹائر ہونے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تھی جس میں خیبر پختونخوا پولیس نے تسلیم کیا کہ تین لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں اور رپورٹ پیش کی تھی کہ لواحقین نے بیان حلفی دیا ہے کہ دو لڑکیاں زندہ ہیں اور ان کو جلد پیش کر دیا جائے گا۔
سال 2018 میں اس قتل کا مقدمہ کا مقدمہ درج کیا گیا اور سال 2019 میں ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج نے ٹرائل کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے آٹھ میں سے پانچ ملزماں کو بری کردیا تھا جبکہ تین کو قتل کی دفعات کے علاوہ گواہی کو چھپانے وغیرہ کی دفعات میں قید کی سزا دی تھی۔