انڈیا کے ٹیکس محکمے نے انڈین کرکٹ ٹیم کی سپانسر کمپنی ’ڈریم 11‘ کو تقریباً 17 ہزار کروڑ روپے ٹیکس ادائیگی کا نوٹس دیا ہے۔
’ڈریم 11‘ نے اتنی بڑی رقم کے مطالبے پر مبنی اس نوٹس کو ممبئی ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
ٹیکس کا نوٹس موصول ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد ’ڈریم 11‘ کے حصص کی قیمتوں میں گراوٹ آئی تھی۔ یاد رہے کہ انڈین حکومت نے آن لائن گیمبلنگ اور کسینو وغیرہ پر 28 فیصد ٹیکس نافذ کر رکھا ہے۔
ٹیکس حکام کا کہنا ہے کہ ’ڈریم 11‘ کی ذیلی کپمنیاں گیمبلنگ (جُوا) سروسز چلا رہی تھیں اس لیے ان کمپنیوں کو اپنی مجموعی آمدن پر 28 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
’ڈریم 11‘ کمپنی نے حال ہی میں انڈین کرکٹ کمپنی کی نئی جرسی نئے لوگو کے ساتھ جاری کی تھی۔
’ڈریم 11‘ کو ٹیکس کے نوٹس کے بعد سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے تبصرے کرتے ہوئے لکھا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے والی کمپنی مشکل میں پڑی ہے۔
گذشتہ 15 برس میں کئی بڑی کمپنیاں انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے کے بعد بُرے دور سے گزری ہيں۔ ایک طویل عرصے تک کرکٹ ٹیم کو سپانسر کرنے والی ’سہارا انڈیا‘ کمپنی اب دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس کے مالک کو کمپنی کے صحیح اعداد وشمار چھپانے اور صارفین کو دھوکہ دینے کے الزام میں جیل بھی ہوئی تھی۔
اسی طرح ’سٹار سپورٹس‘ چینل نے بھی بہت لمبے عرصے تک انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کیا تھا۔ اس نے اس وقت کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ بولی لگا کر کرکٹ میچوں کی نشریات کے سب سے بڑے حقوق حاصل کیے تھے۔
تاہم بعد میں سٹار سپورثس بھی زوال پزیر ہو گیا۔
چین کی موبائل کمپنی ’اوپو‘ نے بھی کچھ عرصے تک انڈین کرکٹ ٹیم کو سپانسر کیا لیکن چین سے انڈیا کے تعلقات خراب ہونے کے بعد انڈیا میں چین کی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوا جس کے نتیجے میں یہ کمپنی بھی اب زبوں حالی کا شکار ہے۔
اس درمیان ایک اور کمپنی ’بائجوس‘ بڑے زور و شور سے کرکٹ کی سپانسرشپ کے میدان میں اُتری تھی۔ ابتدا میں یہ کمپنی بڑی تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان اس کے برانڈ ایمبیسڈر ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میں پتہ چلا کہ اس کمپنی نے اپنی اصل مالیت سے کئی گنا زیادہ مالیت دکھا رکھی تھی۔
یہ کمپنی بھی اب مشکل صورتحال کا شکار ہے اور زوال پذیر ہے۔
اور اب کرکٹ ٹیم کی نئی سپانسر کمپنی ڈریم الیون کو ہزاروں کروڑ روپے کے ٹیکس کا نوٹس آ گیا ہے جس کے بعد اس کے حصص بھی زوال پذیر ہیں۔
’کمپنیوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے لیکن وہ رسک لے لیتی ہیں‘
انڈیا میں کرکٹ انتہائی مقبول ہے اور قومی ٹیم کے کرکٹرز عوام کے لیے ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انڈیا میں بڑی کمپنیاں مصنوعات کی تشہیر کے لیے ان کرکٹرز کو اپنا برانڈ ایمبیسڈر بنانے کے لیے منھ مانگی قیمتیں ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سپورٹس تجزیہ کار جسوندر سدھو کہتے ہیں کہ ’یہ غور طلب ہے کہ جن کمپنیوں کی بات ہم کر رہے ہیں وہ مارکیٹ ویلیو سے زیادہ اپنے اشتہارات کے لیے کرکٹرز کو دیتے ہیں۔‘
’تصور یہ ہے کہ کسی بھی کرکٹر سے وابستہ ہونے کے بعد اس کمپنی کو فوراً لائم لائٹ مل جاتی ہے اور اس سے بازار سے پیسہ جمع کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے لیکن ایک مرحلے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جو پیسہ کرکٹر اور کرکٹ پر خرچ کیا گیا ہے وہ زیادہ تھا اور مارکیٹ ویلیو کے برعکس تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کووڈ کی وبا کے بعد پوری مارکیٹ بدل گئی ہے۔ بہت سی کمپنیاں اسے سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کرکٹ اور کرکٹرز پر زیادد پیسہ لگانے والی کمپنیاں ڈوب جاتی ہیں۔‘
معروف سپورٹس صحافی پردیپ میگزين کہتے ہیں کہ ’ہر برانڈ یہی چاہتا ہے کہ اس کی مصنوعات عام لوگوں کے تصورات پر پوری اتریں۔ وہ فلم سٹارز کو اپنا برانڈ ایمبسڈر بناتے ہیں، کرکٹرز کو اشتہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کرکٹ سٹارز چاہے وہ وراٹ کوہلی ہوں، دھونی ہوں، تندولکر ہوں۔۔۔ یہ بڑے نام ہیں۔ کمپنیاں یہ سوچتی ہیں کہ اگر یہ ہماری مصنوعات کی تشہیر کریں گے تو ہمارا پرڈکٹ زیادہ بکے گا، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ کئی کمپنیاں اتنی مضبوط نہیں ہوتیں۔‘
’وہ خطرہ مول لیتی ہیں۔ کرکٹرز بہت زیادہ فیس لیتے ہیں۔ ٹاپ کے کرکٹرز برینڈ ایمبیسڈر بننے کے لیے کروڑوں روپے لیتے ہیں۔ ابتدائی طور پر پیسہ بہت زیادہ لگانا پڑنا ہے اور اس سے فائدہ فوراً نہیں ہوتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کمپنی مالی طور پر مضبوط نہیں ہے تو ان کے ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ سیم سنگ، ایل جی اور پی ٹی ایم جیسی بڑی کمپنیاں اس معاملے میں کامیاب رہیں۔ آدھی کمپنیاں اس لیے نہیں ڈوبتیں کہ کرکٹ کو برانڈ ایمبسڈر بنانے میں کوئی نقصان ہے بلکہ وہ اس لیے ڈوب جاتی ہیں کہ ان کے پاس اتنے پیسے ہوتے نہیں ہیں اور وہ رسک لے لیتی ہیں۔‘
بڑی کمپنیاں مشہور انڈین کرکٹرز کے ساتھ غیر ملکی کرکٹرز کو بھی اپنی مصنوعات کو تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ اشتہار عوام میں بہت مقبول ہوتے ہیں اور کرکٹرز سے منسوب ہونے کے سبب ان کی برانڈ ویلیو بھی بڑھ جاتی ہے۔
اشتہاروں میں صرف ٹاپ کے چند فلم سٹارز ہی کرکٹرز کے برابر آ پاتے ہیں
انڈیا کے کرکٹرز کرکٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ پیسہ کمانے والے کھلاڑی ہیں۔ انڈیا کا کرکٹ بورڈ بھی دنیا کا سب سے امیر کرکٹ بورڈ ہے۔
ہفتہ وار جریدے ’دی ویک‘ کی سپورٹس ایڈیٹر نیروبھاٹیا کہتی ہیں کہ کرکٹ انڈیا کا سب سے مقبول گیم ہے اور کرکٹرز اور کرکٹ پر اشتہار کے لیے پیسہ لگانے کا یقیناً فائدہ ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کمپنیوں کو ڈوبنے کا کرکٹ اور کرکٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کمپنیاں اپنی اندونی وجوہات سے ڈوبتی ہیں۔‘
’کرکٹ کا وومن پریمئر لیگ ابھی نیا ہے۔ جب یہ شروع ہوا تو اس کی سپانسر شپ کے لیے کسی کے پاس جانا نہیں پڑا تھا۔ بڑی تعداد میں کمپنیاں پیسے لگانے کے لیے آگے آئیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’کرکٹ جتنا مبقول ہے اتنی ہی مانگ اس کی اشتہاروں کے لیے بھی ہے اور یہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔‘