اسلام آباد ہائیکورٹ نے نجی ٹی وی چینل جیو انٹرٹینمنٹ کو ڈرامہ سیریل ’حادثہ‘ نشر کرنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے پیمرا کا ڈرامہ نشر کرنے پر پابندی کا حکم معطل کر دیا ہے۔
عدالت نے پانچویں قسط میں ریپ کے مناظر دکھانے پر یا دوبارہ نشر کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔
فیصلے میں لکھا کہ پیمرا نے سنوائی کا موقع دیے بغیر پابندی کا جو آرڈر پاس کیا اس سے درخواست گزار کو ہونے والا ناقابل تلافی نقصان صاف نظر آ رہا ہے۔
عدالت نے سیکریٹری اطلاعات کو پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس کے ممبرز کی تعیناتی سے متعلق جامع رپورٹ آئندہ سماعت سے قبل جمع کرانے ہدایت کی ہے۔
واضح رہے کہ جیو انٹرٹینمنٹ کے ڈرامہ سیریل حادثہ کے بارے میں چند ناظرین کا خیال یہی ہے کہ یہ کہانی 2020 کے موٹروے ریپ واقعہ کے گرد بُنی گئی ہے۔
ہائیکورٹ میں حادثہ نشر کرنے سے متعلق کیس کی سماعت
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے جیو انٹرٹینمنٹ کو ڈرامہ سیریل حادثہ نشر کرنے پر پابندی سے متعلق پیمرا کا 30 اگست کا آرڈر معطل کیا۔
عدالت نے پانچ صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ پیمرا نے بیرسٹر خدیجہ صدیقی کی شکایت پر ڈرامہ سیریل حادثہ نشر کرنے پر پابندی عائد کی۔ ’پابندی سے قبل نہ سنوائی کا موقع دیا اور نہ ہی کوئی شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔‘
پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر گینگ ریپ کے واقعے سے مماثلت اور پاکستانی شہریوں کا منفی امیج دکھانے پر پابندی عائد کر کے معاملہ کونسل آف کمپلینٹس کو بھجوایا گیا۔
وکیل نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ممبرز کی تعیناتی نہ ہونے پر کونسل آف کمپلینٹس دستیاب ہی نہیں ریکارڈ کے مطابق انڈی پینڈنٹ میڈیا کارپوریشن جیو انٹرٹینمنٹ نے ڈرامہ سیریل حادثہ روزانہ کی بنیاد پر نشر کیا جس کی 10 اقساط نشر ہوئیں جبکہ 15 اقساط باقی ہیں۔
پیمرا نے ڈرامہ سیریل کی باقی اقساط نشر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔
جب پیمرا کے وکیل سے پوچھا گیا کہ کیا پیمرا حکام نے ڈرامہ سیریل حادثہ دیکھا ہے تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ پانچویں قسط میں ریپ سین دکھایا گیا جو ’قابل اعتراض‘ تھا۔
درخواست گزار کے مطابق متعلقہ سین کی ’پاکستانی معاشرے میں قابل قبول معیار کےمطابق منظر کشی کی گئی پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس کی عدم دستیابی کے باعث درخواست گزار کو ان حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جس کی آئین پاکستان میں ضمانت دی گئی ہے۔‘
عدالتی فیصلے کے مطابق ’پیمرا نے سنوائی کا موقع دیے بغیر پابندی کا جو آرڈر پاس کیا اس سے درخواست گزار کو ہونے والا ناقابل تلافی نقصان صاف نظر آ رہا ہے لہذا پیمرا کا ڈرامہ سیریل حادثہ پر پابندی کا 30 اگست کا آرڈر معطل کیا جاتا ہے۔
’ڈرامہ سیریل حادثہ کی پانچویں قسط میں جس ریپ سین کا حوالہ دیا گیا، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر اسے دوبارہ نشر نہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔‘
عدالت نے پیمرا کا آرڈر معطل کرتے ہوئے اے آر وائی کمیونی کیشنز کے سپریم کورٹ آرڈر کا بھی حوالہ دیا۔ عدالت نے کہا کہ ’پیمرا آرڈینینس وفاقی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں کونسل آف کمپلینٹس نوٹیفائی کریں۔
’کونسل کے ممبرز کی عدم تعیناتی کے باعث ریگولیٹری فریم ورک متاثر ہوتا ہے۔‘
عدالت نے حکم دیا کہ سیکریٹری اطلاعات 30 اکتوبر کو آئندہ تاریخ سماعت سے قبل کونسل آف کمپلینٹس کے ممبرز کی تعیناتی سے متعلق جامع رپورٹ پیش کریں۔
اگست کے اواخر میں پیمرا نے نجی ٹی وی چینل جیو انٹرٹینمنٹ سے نشر ہونے والے ڈرامے ’حادثہ‘ کے آن ایئر کرنے پر فی الفور پابندی عائد کرتے ہوئے معاملہ پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس کو بھیج دیا تھا۔
پیمرا کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ڈرامے کی کہانی پاکستانی معاشرتی اقدار سے بالکل مناسبت نہیں رکھتی۔ غیر معیاری مواد، نامناسب کہانی اور عوامی در عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ڈرامہ سیریل پر پیمرا ایکٹ کے تحت پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کونسل آف کمپلینٹس اس معاملے پر پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی روشنی میں ڈرامہ نشر کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ کرے گا۔‘
پیمرا نے کہا ہے کہ انھیں گذشتہ چند دنوں میں اس ڈرامے کے حوالے سے بہت سی شکایات موصول ہوئی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس ضمن میں آواز اٹھائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ جیو انٹرٹینمنٹ کے ڈرامہ سیریل حادثہ کے بارے میں چند ناظرین کا خیال یہی ہے کہ یہ کہانی 2020 کے موٹروے ریپ واقعہ کے گرد بُنی گئی ہے۔
ڈرامہ میں اب تک دِکھائی جانے والی یہ تمام باتیں موٹروے ریپ واقعہ سے مماثلت رکھتی ہیں جس کو ناظرین نے نہ صرف نوٹ کیا بلکہ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی آواز اٹھائی اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔
اس معاملے کی ابتدا پاکستانی صحافی فریحہ اردیس کی جانب سے ٹوئٹر پر لکھے گئے اس مفصل نوٹ کے بعد شروع ہوئی جس میں انھوں نے سیالکوٹ موٹروے ریپ کیس کی متاثرہ خاتون سے کی گئی بات چیت بیان کی۔
’جیسے ہی ڈرامے کی قسط آن ایئر ہوتی ہے، تمام تبصروں میں موٹروے کے واقعے پر بات ہونے لگتی ہے۔ کیا وہ مجھے اس کے بارے میں بھولنے نہیں دے سکتے؟‘
پاکستانی صحافی فریحہ ادریس کے مطابق یہ الفاظ سیالکوٹ موٹروے ریپ کیس کی متاثرہ خاتون کے ہیں جنھوں نے اُنھیں کال کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
ریپ کا یہ واقعہ 2020 میں پیش آیا تھا جب لاہور کو سیالکوٹ سے ملانے والی موٹروے پر ایک خاتون کو ان کے بچوں کے سامنے ریپ کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد متاثرہ خاتون کی شناخت خفیہ رکھی گئی تھی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر اتوار کو ایک تفصیلی نوٹ میں فریحہ ادریس نے ڈرامہ سیریل ’حادثہ‘ بنانے والوں پر تنقید کرتے ہوئے مثاثرہ خاتون کے حوالے سے لکھا کہ ’ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ ایک بار پھر اس صدمے سے گزر رہی ہوں۔‘
فریحہ کی متاثرہ خاتون سے گفتگو کا تفصیلی احوال پوسٹ کیے جانے کے بعد سے عوام کا ایک سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور ہیش ٹیگ ’بائیکاٹ حادثہ‘ پاکستان کے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے جبکہ پیمرا سے اس ڈرامے پر پابندی کی درخواست بھی کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے وکیل محمد احمد پنسوٹا کا کہنا تھا کہ ان سے موٹروے ریپ کیس میں متاثرہ خاتون نے رابطہ کیا ہے جس کے بعد انھوں نے ڈرامہ سیریئل ’حادثہ‘ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ محمد احمد پنسوٹا کا کہنا تھا کہ فی الحال انھوں نے پیمرا میں ایک درخواست جمع کروائی ہے اور اس ڈرامے کو مکمل طور پر بند کرنے کی درخواست کی ہے۔
واضح رہے کہ جیو انٹرٹینمنٹ کے اس ڈرامہ کی آٹھ اقساط نشر کی جا چکی ہیں۔
متاثرہ خاتون نے فریحہ ادریس سے کیا کہا؟
سوشل میڈیا پر یہ بحث صحافی فریحہ ادریس کے ایک طویل نوٹ پوسٹ کیے جانے کے بعد شروع ہوئی جس میں انھوں نے سیالکوٹ موٹروے ریپ کیس کی متاثرہ خاتون سے ہوئی گفتگو کا احوال لکھا۔
فریحہ نے لکھا کہ متاثرہ خاتون نے اُن سے پہلا سوال یہی کیا کہ ’کیا کوئی میری زندگی پر ڈرامہ بنا سکتا ہے؟‘
فریحہ کے مطابق متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے میری زندگی فالو کی ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ انھوں نے میری زندگی میں ہونے والی چیزوں کا سراغ کیسے لگایا جبکہ میں ہر چیز کو پرائیویٹ رکھنے کے بارے میں اتنا واضح تھی؟ میرے سسرال والے ضرور دیکھ رہے ہوں گے، میری بھابھی، میری امی، میرے پڑوسی، اوہ میرے خدا! کسی نے مجھ سے پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ میں ابھی مری نہیں!‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’جب آپ جانتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں کسی کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو آپ اتنی ظالمانہ اور خوفناک چیز پر کیسے کام کر سکتے ہیں؟‘
ڈرامہ سیریل ’حادثہ‘ کی کہانی پر اعتراض کیوں؟
جیو انٹرٹینمنٹ کے ڈرامہ سیریل حادثہ کے بارے میں بیشتر ناظرین کا خیال یہی ہے کہ یہ کہانی 2020 کے موٹروے ریپ واقعہ کے گرد بُنی گئی ہے۔
ڈرامہ کی مرکزی کردار تسکین تین بچوں کی ماں، ایک بااختیار، باشعور اور مضبوط عورت ہیں جو اپنے گھر میں کام کرنے والی عورت کی بیٹی کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد کے خلاف بھی آواز اٹھاتی ہیں۔ لیکن ایک روز وہ ایک بڑی اور سنسان سڑک پر اپنے جوان بیٹے کے سامنے ریپ کا شکار ہو جاتی ہے۔
ریپ کے بعد ہسپتال میں وہ شدید تکلیف اور کرب سے گزرتی ہے اور نیند کے لیے ڈاکٹرز اُنھیں دوائیاں تجویز کرتے ہیں لیکن وہ سو نہیں پاتیں۔ خاندان متاثرہ عورت کی شناخت اور واقعے کی تفصیلات خفیہ رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ واقعہ میڈیا میں زیرِ بحث رہتا ہے۔
ڈرامہ میں اب تک دِکھائی جانے والی یہ وہ تمام باتیں ہیں جو موٹروے ریپ واقعہ سے مماثلت رکھتی ہیں جو ناظرین بھی نوٹ کیے بنا نہیں رہ پائے۔
حادثہ کی ڈرامہ نگار کیا کہتی ہیں؟
ڈرامہ سیریل کی موٹروے کیس سے مماثلت کی بِنا پر سوال کیا جارہا ہے کہ یہ کہانی لکھنے اور نشر کرنے سے پہلے متاثرہ خاتون سے پیشگی اجازت کیوں نہ لی گئی؟
لیکن ڈرامہ نگار زنجبیل عاصم شاہ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے واضح انداز میں اس بات سے انکار کیا کہ یہ کہانی موٹروے ریپ کیس پر مبنی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ مماثلت ایک اتفاقیہ بات ہے۔ جو بھی عورت خدانخواستہ اس واقعہ سے گزری ہو گی چاہے وہ غریب گھر کی ہو یا امیر گھر، چاہے وہ پڑھی لکھی ہو یا نہ ہو، اُس کو تو متاثر کرے گا۔ ہمارا ڈرامہ ہمارے حالات اور ہماری تکلیفوں کی عکاسی کرتا ہے۔‘
زنجبیل عاصم شاہ نے اپنی کہانی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ اس جنگ کو لڑتے ہیں وہاں آپ کا بھی کتھارسس ہو رہا ہوتا ہے۔‘
انھوں نے بچوں سے جنسی زیادتی جیسے ایک اور سنجیدہ موضوع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی ہم کچھ لکھتے ہیں تو کسی نہ کسی سے کچھ نہ کچھ تو مشابہت رکھتا ہے۔‘
’میں نے تو ایک جوان بیٹا دِکھایا ہے جس کی شادی ہو رہی ہے اور گھر میں ہنگامہ خیزی جاری ہے۔ ہم لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ فلاں عورت اکیلی جا رہی ہے، اگر مرد بھی ساتھ ہے تو وہ کیا کر لیتا ہے۔ اُس کا اگر شوہر بھی ساتھ ہوتا تو وہ بھی بے بس ہوتا۔‘
اگرچہ ڈرامہ چینلز کے مالکان، پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز اور ڈرامہ نگار پر تنقید ہوتی ہے کہ ریپ جیسے سنیجیدہ موضوعات پر اس لیے ڈرامہ بنایا جاتا ہے کہ اس سے سنسنی پھیلتی ہے اور ریٹنگ آتی ہے لیکن زنجبیل کا مؤقف تھا کہ ’آپ چارٹس اٹھا کے دیکھ لیں۔اس وقت تو رومانس ریٹنگ لے رہا ہے۔ ہم نے کوئی سنسنی خیر منظر نہیں ڈالا ہے اور نہ ہی یہ لفظ (ریپ) استعمال کیا ہے۔‘
حدیقہ کیانی کا ردعمل اور تنقید
سوشل میڈیا صارفین کے شدید ردعمل کے بعد ڈرامہ سیریل میں تسکین کا مرکزی کردار نبھانے والی فنکارہ حدیقہ کیانی نے اپنا ایک بیان جاری کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے لیے یہ جاننا کہ وہ جس چیز کا حصہ رہی ہیں وہ کسی سروائیور کو تکلیف پہنچانے اور اس واقعے کی یاددہانی کے لیے استعمال ہو رہا ہے، وہ یہ برداشت نہیں کر سکتیں۔
حدیقہ کیانی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جب ڈرامے میں تسکین کے کردار کے لیے اُنھیں پیشکش ہوئی تو اُن کا پہلا سوال تھا کہ کیا یہ موٹروے والے واقعے پر مبنی ہے جس پر ٹیم نے واضح انداز میں انکار کیا تھا۔
ٹیم کے ساتھ کئی بار بات چیت اور سکرپٹ پڑھنے کے بعد اُنھیں سمجھ آیا کہ حادثہ 2020 کے موٹروے واقعے پر مبنی ہے اور نہ ہی اُس کا اِس سے کوئی تعلق ہے۔
تاہم ایک صارف ہدا محمود نے لکھا کہ ’اس ڈرامے میں سینیئر اور اچھی طرح سے باخبر اداکار (کام کر رہے) ہیں اور اس کی طرح کے اثر انگیز سکرپٹ کے لیے سائن اپ کرنے سے پہلے اجازت لینے کے بارے میں ذرا سا بھی نہیں سوچا گیا۔‘
بلیک ڈیمیسن کے ہینڈل سے ایک صارف نے لکھا کہ ’آپ کا کام کسی کو ٹرگر کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ آپ کا کام ٹرگر ہے!‘
ایک اور صارف اقصی سید نے حدیقہ کے بیان پر شرمناک وضاحت کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں نے ریپ کا شکار ہونے والوں کی بہت سی کہانیاں سنی ہیں لیکن موٹروے کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جہاں تک مجھے یاد ہے کسی ایسے شخص کے لیے بھی جو ریپ متاثرین کے لیے آواز اٹھا رہا تھا۔‘
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریپ جیسے حساس اور سنگین موضوع پر بننے والے اس ڈرامہ کو نشر کرنے سے پہلے کوئی انتباہی پیغام بھی نہیں چلایا جاتا۔
تاہم حدیقہ کیانی نے اپنے بیان میں چینل سے درخواست کی اور لکھا کہ ’ریپ اور جنسی تشدد دردناک اور تکلیف دہ موضوعات ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ان کا سامنا کیا ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ اقساط کو انتباہی پیغام کے ساتھ نشر کیا جانا چاہیے، ان تمام لوگوں کے لیے ایک انتباہ کے ساتھ جن کا اس طرح کی بُرائی سے سامنا ہوا ہے۔‘
پیمرا سے ’حادثہ‘ پر پابندی کا مطالبہ
سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے والے ہیش ٹیگ بائیکاٹ حادثہ میں ڈرامہ پر شدید تنقید کے ساتھ ساتھ لوگوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ پیمرا میں اس ڈرامہ کے خلاف شکایات بھیجی جائیں۔
میں نے زنجبیل سے اس مہم پر اُن کا کیا ردعمل جاننا چاہا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں پیمرا نے تو میرے ڈرامے ’پیار کے صدقے‘ پر بھی پابندی لگائی تھی۔‘
’حالانکہ کیا گھروں کے اندر بچیوں کے ساتھ زیادتیاں نہیں ہوتی ہیں۔ پیمرا نے تو ’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘ پر بھی کتنا تنگ کیا تھا بی گُل کو۔ پیمرا اس طرح کرے گا تو پھر کیا صرف ساس بہو کے ڈرامہ بنیں گے۔ اگر ہم اتنے حساس موضوعات پہ بات نہیں کریں گے تو کیا ہم صرف عشق لڑوائیں گے۔‘