’نئی سرکاری گاڑی ملی گئی۔ شکر گزار ہوں۔‘ اس پیغام کے ساتھ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک ضلعی اہلکار نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر حال ہی میں ایک ویڈیو لگائی جس کے بعد انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اس ویڈیو میں کالے رنگ کی ایک نئی ڈبل کیبن گاڑی دیکھی جا سکتی ہے جس کی چھت پر نیلی لائٹ لگی ہے۔
مختصر دورانیے کی یہ ویڈیو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل پیر محل کے اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے ذاتی اکاونٹ سے شائع کی۔
اس پر ایک صارف نے ان کو مبارکباد دیتے ہوئے لکھا کہ ’سر آپ کے پاس تو اسی طرح کی ایک گاڑی سفید رنگ میں بھی تھی تو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔‘ اسسٹنٹ کمشنر نے ان کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’وہ تحصیل دار کے حوالے کر دی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر ان کی ان پوسٹس کو لے کر صارفین نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ’اپنے اختیارات کی نمائش کر رہے ہیں۔‘ تنقید کا سامنا کرنے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر نے ان پوسٹس کو ہٹا دیا تاہم اس کے بعد بھی ان کے سکرین شاٹس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی طرف سے کی جانے والی تنقید کا موضوع مذکورہ اسسٹنٹ کمشنر کی ذات سے ہٹ کر پاکستان میں مجموعی طور پر ’سرکاری افسران کی طرف سے عہدے اور اختیارات کی نمائش‘ بن چکا ہے۔
بعض صارفین یہ سوال پوچھتے بھی نظر آ رہے ہیں کہ کیا سرکاری افسران کو سوشل میڈیا کے استعمال کی اجازت بھی ہے یا نہیں اور کیا 17 گریڈ کے اسسٹنٹ کمشنر درجے کے سرکاری اہلکار کو اتنی مہنگی پر تعیش گاڑی دی جا سکتی ہے؟
ساتھ ہی کئی صارفین پاکستان کی سول سروس اور اس کے ذریعے افسران بھرتی کرنے کے نظام پر سوال اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اسسٹنٹ کمشنر پیر محل کی جانب سے دکھائی جانے والی ٹویوٹا ہائی لیکس ریوو گاڑی کی اس وقت پاکستان میں قیمت ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
کیا اسسٹنٹ کمشنر ایسی مہنگی گاڑی لینے کا مجاز ہے؟
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر عثمان صدیق نامی ایک صارف نے صحافی اور اینکرپرسن شفا یوسفزئی کی جانب سے کی جانے والی ایک پوسٹ کے جواب لکھا کہ ’۔۔۔یہ تاثر غلط ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر اس گاڑی کے شاید مستحق ہیں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’یہاں مسئلہ یہ ہے کہ انھیں ملنے والی جیپ ایک مہنگی ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی ہونا چاہیے تھی یا اس سے آدھی قیمت کی ایک سادہ جیپ سے بھی کام چل سکتا تھا۔‘
یاد رہے کہ رواں برس مئی میں پنجاب کی نگراں حکومت نے دو ارب روپے سے زیادہ کی رقم سرکاری افسران کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے جاری کی تھی۔ ان میں تمام اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے اسی طرح کی ٹویوٹا ہائی لکس ریوو خریدنا شامل تھا۔
حکومت کی طرف سے اس ضمن میں جاری کیے جانے والے نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس وقت اسسٹنٹ کمشنرز کے استعمال میں جو پرانی گاڑیاں تھیں وہ تحصیلدار درجے کے اہلکاروں کو دے دی جائیں گی۔
سرکاری افسران کو سرکاری گاڑیاں کس ضابطے کے تحت ملتی ہیں؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزارتِ خزانہ کے سابق سیکرٹری واجد رانا نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے سنہ 2012 میں سرکاری افسران کو دی جانے والی گاڑیوں کے حوالے سے ایک ضابطہ بنایا تھا جسے ’مونیٹائزیشن‘ کا نام دیا گیا تھا۔
’اس کے مطابق گریڈ 20 یا اس سے اوپر کے افسران کو گاڑی خرید کر نہیں دی جائے گی بلکہ انھیں گاڑی ذاتی طور پر خریدنی ہو گی جبکہ حکومت انھیں گاڑی کی ماہانہ قسط ادا کرنے، مہینے بھر کے پیٹرول کے پیسے اور ڈرائیور کی تنخواہ وغیرہ دیا کرے گی۔‘
’لیکن اس وقت کے مقابلے آج کی پیٹرول کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے اس لیے اس پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔‘
سابق سیکرٹری خزانہ واجد رانا نے بتایا کہ گریڈ 19 سے 17 کے افسران کے لیے حکومت نے گاڑیوں کا ایک پول رکھا ہوتا ہے جس میں سے ان کو سرکاری کاموں کے لیے گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات سرکاری افسران اس نظام کو غلط استعمال کرتے ہیں یعنی ’وہ موناٹائزیشن سے بھی گاڑی لے لیتے ہیں اور حکومت کے پول میں سے بھی استعمال کرتے رہتے ہیں۔‘
واجد رانا کا کہنا تھا کہ وفاق سے ہٹ کر صوبوں کے پاس اس حوالے سے اپنے خطیر فنڈز موجود ہوتے ہیں اور یہ صوبائی حکومتوں کی اپنی صوابدید ہے کہ وہ انھیں کیسے استعمال کرتے ہیں۔
’گاڑی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے لگژری نہیں‘
وفاقی وزارتِ خزانہ ہی کے ایک سابق سیکرٹری نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے افسران جن کا کام فیلڈ میں جانے کا ہوتا ہے ان کو حکومت کی طرف سے گاڑیاں دی جاتی ہیں۔
ان میں ضلعی حکومت کے افسران جن میں اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور پولیس سروس کے افسران شامل ہیں۔ ان سرکاری اہلکاروں کو زیادہ تر جیپیں ہی دی جاتی ہیں۔
’لیکن یہ جیپیں یا گاڑیاں دیے جانے کے پیچھے نقطہ یہ ہے کہ گاڑی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے لگژری نہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ کوئی کروڑوں روپے کی لگژری جیپ ہو، اس علاقے اور کام کی مناسبت سے وہ ایک سادہ گاڑی بھی ہو سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ گاڑیاں ان پیسوں سے خریدی جاتی ہیں جو عوام کے ٹیکس سے جمع ہوتا ہے اس لیے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس انتہائی ضرورت کے لیے اور موزوں طریقے سے استعمال کرے۔‘
’سرکاری افسران کو عہدے اور اختیارات کی نمائش کی اجازت نہیں‘
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل راجہ جہانگیر انور پنجاب حکومت میں انتظامی عہدوں پر بھی کام کر چکے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں حکومت کی طرف سے اسسٹنٹ کمشنر درجے کے افسروں کو ڈبل کیبن گاڑیاں دی گئی ہیں۔
’میرے خیال میں مسئلہ گاڑی نہیں۔ ان افسران کا فیلڈ کا کام ہوتا ہے اور ان کو بہت سے ایسے علاقے میں جانا ہوتا ہے جہاں انفراسٹرکچر اچھا نہیں بھی ہوتا تو ایسی گاڑیاں ان کی ضرورت ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے۔‘
ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی راجہ جہانگیر انور کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے تمام سرکاری افسران کو یہ ہدایات دی جاتی ہیں کہ ’وہ خاص طور پر کسی بھی قسم کی نمائش سے گریز کریں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ہر قسم کے تربیتی کورس کے اندر بھی سرکاری افسران کو سرکاری عہدے یا اختیارات کی بے جا نمائش نہ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
ساتھ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری افسران کی طرف سے سوشل میڈیا کا استعمال بہت سے مسائل کو جنم دیتے ہے اور پیر محل کا واقعہ اس کی ایک مثال ہو سکتا ہے۔
ان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل پنجاب میں چیف سیکرٹری نے سرکاری افسران کے سوشل میڈیا استعمال کرنے یا میڈیا پر آ کر کوئی بیان جاری کرنے پر پابندی بھی عائد کر رکھی تھی۔
تاہم راجہ جہانگیر سمجھتے ہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ موجودہ حالات میں اگر سرکاری افسران سوشل میڈیا پر متحرک نہ ہوں تو یہ تاثر بھی لیا جاتا ہے کہ وہ شاید کام ہی نہیں کر رہے۔