’میں باچا خان کے ایک ادنیٰ پیروکار کی حیثیت سے عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ تھا، حصہ ہوں اور انشا اللہ حصہ رہوں گا۔۔۔‘
گذشتہ دنوں پشتون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کا خیبرپختونخوا میں چہرہ سمجھے جانے سینیئر رہنما زاہد خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ پیغام میڈیا میں ہونے والی اِن چہ میگوئیوں کے درمیان جاری کیا کہ زاہد خان اے این پی کی قیادت سے اختلافات کے بعد پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرنے جا رہے ہیں۔
زاہد خان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ دیگر سیاسی جماعتیں ان سے رابطے کر رہی ہیں اور انھیں اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے رہی ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زاہد خان نے کہا کہ سیاسی لوگوں میں رابطے ہوتے رہتے ہیں۔ ’اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ مجھ سے لوگوں نے ضرور رابطے کیے ہیں۔‘
پارٹی قائدین سے اختلافات کے بارے میں زاہد خان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی اے این پی کا حصہ ہیں مگر اختلافات کے حوالے سے وہ مزید کوئی اور بات نہیں کرنا چاہتے۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل سوات سے تعلق رکھنے والے اے این پی رہنما اور سابق وزیر واجد علی خان نے ساتھیوں سمیت اپنی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جماعت کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کے رویے کی وجہ سے پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔
واجد خان کو اے این پی کی قیادت میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
پاکستان میں آئندہ عام انتخابات سے قبل عوامی نیشنل پارٹی کو اس وقت خیبرپختونخوا میں کئی چینلنجز کا سامنا ہے اور مختلف رہنماؤں کی قیادت سے اختلافات کی خبریں آئے روز میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔
بی بی سی کے رابطہ کرنے پر اے این پی کے بہت سے رہنماؤں نے قائدین کے فیصلوں پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اب پارٹی کے اندر صوبائی سطح پر مشاورتی کونسل کے فیصلوں پر کم اور فرد واحد کے فیصلوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہے تاہم دوسری جانب پارٹی کے چند مرکزی قائدین کے مطابق موجودہ صورتحال میں بہترین فیصلے کیے جا رہے ہیں اور اختلافات موجود نہیں۔
خیبرپختونخوا کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اے این پی کے مرکزی قائدین کے دعوؤں سے قطع نظر یہ واضح ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران اہم رہنما یا تو پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا ان کی ناراضگی اور دیگر جماعتوں سے رابطوں کی خبریں آ رہی ہیں۔
’اے این پی اس وقت اندرونی بے چینی کا شکار نظر آتی ہے‘
مالاکنڈ ڈویژن سے واجد علی خان کے پارٹی چھوڑ جانے کو اے این پی کا اس ڈویژن میں بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
سوات سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی غلام فاروق نے بی بی سی کو بتایا کہ واجد علی خان ایک بڑے اور اہم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ایک طویل عرصے سے اے این پی کے ساتھ وابستہ تھے اور وہ ایک عوامی شخصیت ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’واجد علی نے اے این پی کے پلیٹ فام سے اپنے علاقے میں بڑے ترقیاتی کام کیے جس کے باعث ان کی عوام میں پذیرائی تھی۔ ان کے جانے سے جماعت کو بڑا نقصان ہو گا۔‘
اے این پی کے ایک سینیئر رہنما کے مطابق حال ہی میں جب سوات سے پاکستان تحریک انصاف کی ایک اہم خاتون شخصیت نے پی ٹی آئی کو چھوڑ کر عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو صوبائی قیادت نے انھیں سوات سے ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا حالانکہ اس نشست سے واجد علی خان امیدوار تھے۔
رہنما کے مطابق ’ایمل ولی خان کے اس فیصلے سے واجد علی خان ناراض تھے، جنھیں پھر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا اور یوں وہ پارٹی سے علیحدہ ہو ئے ہیں۔‘
اس رہنما کے مطابق زاہد خان کا بھی ٹکٹ ہی کے معاملے پر پارٹی قیادت سے اختلاف شروع ہوا۔
مگر بات یہیں تک محدود نہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اے این پی سے اہم شخصیات یا تو خود پارٹی چھوڑ کر چلی گئی ہیں یا انھیں شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ جماعت چھوڑ گئے ہیں۔
ان میں پشاور سے تعلق رکھنے والے حاجی شیر رحمان ہیں، جنھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ حاجی شیر رحمان عوامی نیشنل پارٹی کی ٹکٹ پر میئر کے انتخاب میں شریک تھے اور انھوں نے45 ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے تھے۔ اسی طرح محمد طارق اعوان بھی ایک اہم شخصیت ہیں جو پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔
سینیئر صحافی فدا عدیل کے مطابق ملاکنڈ سے مظفر الملک اور ان کے صاحبزادوں نے باقاعدہ اخبارات میں اشتہار دے کر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اے این پی سے اپنی دہائیوں طویل رفاقت کو ختم کر رہے ہیں اور پارٹی کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔
فدا عدیل کا کہنا تھا کہ ’جماعت کے اندر اختلافات ہیں اور یہ خبریں ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی ہیں لیکن جماعت کے طرف سے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی جا رہی کہ کیا صورتحال ہے۔‘
سینیئر تجزیہ کار محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ اے این پی اس وقت اندرونی بے چینی کا شکار نظر آتی اور ایسے میں ایمل ولی خان کی قیادت اس پائے کی نہیں، جس کی بنیاد باچا خان اور ولی خان نے ڈالی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی جماعت میں ایسے سینیئر قائدین موجود ہیں جو جماعت کے نظریے اور اصول پر قائم ہیں اور ان سے مشاورت کے تحت جماعت کو اپنی روایات کے مطابق آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
کیا اے این پی میں فیصلے ’ون مین شو‘ کے تحت ہوتے ہیں؟
عوامی نیشنل پارٹی سے پہلے بھی اہم رہنما اور قائدین ناراض رہے ہیں اور علیحدگی اختیار کی تھی۔
یاد رہے عبدالطیف آفریدی، افراسیاب خٹک، بشری گوہر اور دیگر بہت سے سینیئر رہنماؤں کو سنہ 2018 میں اے این پی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس وقت افضل خان لالہ کی قیادت میں بھی ایک جماعت بنی تھی لیکن وہ زیادہ عرصہ متحرک نہیں رہ سکی۔ افراسیاب خٹک اور بشری گوہر اب نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزئ قائدین میں شامل ہیں۔
بشریٰ گوہر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے پارٹی کو نہیں چھوڑا تھا بلکہ انھیں ایک دن شوکاز نوٹس ملا اور اگلے دن پارٹی نے انھیں چھوڑ دیا تھا۔
موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اے این پی کی فیصلہ ساز کونسل سے ان کا رابطہ نہیں لیکن وہ اتنا ضرور جانتی ہیں کہ اس وقت سیاسی جماعتوں میں نظریاتی سیاست کے لیے جگہ نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت الیکٹیبلز، سیلیکٹیبلز اور ایکسیپٹیبلز کی سیاست ہو رہی ہے اور اس میں نظریات کی نہیں بلکہ ان لوگوں کی جگہ ہے جو پارٹی کو معاشی طور پر سپورٹ کرتے ہوں اور جب فیصلے ایسی شخصیات کے پاس آ جاتے ہیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے، یہ سیاست نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی بھی اس وقت دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اس نوعیت کی صورتحال سے متاثر ہے۔
ان معاملات پر اے این پی کا مؤقف جاننے کے لیے بی بی سی نے سابق صوبائی وزیر اور جماعت کے اہم رہنما میاں افتخار حسین سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا تاہم باچا خان مرکز کے چیئرمین اور پارٹی رہنما ڈاکٹر خادم حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ اختلافات تو ہر جماعت میں ہوتے ہیں اور یہ کوئی انہونی بات نہیں۔
انھوں نے کہا کہ عوامی نینشل پارٹی ایک بڑی جماعت ہے اور اس میں شامل قائدین اپنے خیالات کا اظہار کھل کر کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’ہماری جماعت بھی دیگر پاکستانی سیاسی جماعتوں کی طرح ہے۔ جیسے دوسری جماعتوں میں قائدین کے درمیان اگر کہیں کوئی اختلاف ہوتا ہے تو وہ حل ہو جاتا ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے مؤقف کا اظہار کر سکتا ہے تو ایسا ہی اے این پی کے ساتھ ہے اور یہ جمہوری پارٹیوں کا حسن ہوتا ہے۔‘
اے این پی کی سینیئر رہنما ارباب طاہر کا کہنا تھا کہ جماعت میں تمام فیصلے اپنے اپنے فورمز پر ہوتے ہیں اور یہ فیصلے اصولوں کے تحت تمام قائدین کے ساتھ مشاورت کرکے طے کیے جاتے ہیں۔
جماعت سے باہر چیلنجز
عوامی نینشل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کو جہاں اندرونی اختلافات کا سامنا ہے وہیں انھیں دیگر جماعتوں سے بھی مقابلے کا سامنا ہے۔
اے این پی نے نگران حکومت میں سخت فیصلے کرنا تھے لیکن جماعت سیاسی بہاؤ کا شکار ہو گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سب سے زیادہ عہدے اپنے پاس رکھے۔ باقی جماعتیں جیسے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اے این پی کو کوئی زیادہ حصہ نہیں ملا۔
عوامی نینشل پارٹی کے دو وزرا اب تک نگراں حکومت سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان میں چندر روز پہلے شاہد خٹک نے استعفی دے دیا تھا جبکہ اس سے پہلے نگران صوبائی وزیر عدنان جلیل بھی مستعفی ہو گئے تھے۔
عدنان جلیل کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ ان کے بھی اپنی جماعت کے قائدین سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔
ماضی میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دو اہم پشتون قوم پرست جماعتیں اے این پی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی تھیں اور دونوں جماعتین اپنے اپنے صوبے میں خاصی متحرک تھیں۔
پھر پاکستان پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کرنے والے سابق وزیر اعلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے بھی پشتون قوم پرست جماعت قومی وطن پارٹی کی بنیاد رکھی لیکن ان کی جماعت سنہ 2018 کے عام انتخابات اور اب بلدیاتی انتخابات میں کوئی زیادہ کامیابی نہیں دکھا سکی۔
اس دوران پشتون تحفظ موومنٹ تیزی سے ابھر کر سامنے آئی، جس میں نوجوان زیادہ متحرک تھے۔ عوامی نینشل پارٹی سے بڑی تعداد میں کارکن اور لیڈر پی ٹی ایم کے ساتھ کھڑے ہو گئے، جس سے جماعت کو بڑا نقصان ہوا۔
اس کے بعد جب پی ٹی ایم سے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) نے جنم لیا تو محسن داوڑ اور ان کے کچھ ساتھیوں نے مل کر اپنی جماعت بنائی تو یہ بھی اے این پی کے لیے بڑا چیلنج بن گیا۔ این ڈی ایم میں اے این پی کے کارکن اور رہنما بھی شامل ہیں۔
اگرچہ اے این پی نے اس کے بعد پی ٹی ایم کی قیادت منظور پشتین سے قربت اختیار کی لیکن اس سے جماعت کو اب تک کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوا اور یہ رفاقت بظاہر کچھ عرصے کے لیے رہی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے مقابلہ سخت ہو گا۔ اگر پی ٹی ایم میدان میں رہی تو اے این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔