’ایک شخص نے آگے بڑھ کر میرے ابو سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں کیونکہ آپ کی بیٹی کو لوگ قبر سے نکال رہے ہیں کیونکہ اُس کے خلاف فتوی آ گیا ہے۔‘
یہ کہنا تھا فوزیہ (فرضی نام) کا جنھوں نے اپنی زندگی کی ایک مشکل رات کی کہانی بی بی سی کو بتائی۔
انھوں نے بتایا کہ ’رات ایک بجے ہم سب سو رہے تھے کہ اچانک ایک درجن سے زیادہ پولیس کے اہلکار ہمارے گھر کی دیواریں پھلانگ کر اندر آ گئے۔ ہمیں لگا کہ شاید انڈیا نے حملہ کر دیا ہے کیونکہ ہمارا علاقے کے ساتھ انڈیا کی سرحد لگتی ہے۔‘
’اندر داخل ہونے والوں نے گھر کا مرکزی دروازه کھول دیا جس کے بعد مزید لوگ اندر داخل ہوئے۔ انھوں نے مجھے اور میرے بہنوں کو ایک طرف کیا اور پھر میرے بھائیوں اور ابو کو پکڑ کر گھر سے باہر لے گئے۔‘
’اس لڑکی کو قبر سے نکالو کیونکہ ہمارے مردوں کو عذاب ہوتا ہے‘
فوزیہ کا تعلق احمدیہ کمیونٹی سے ہے۔
فوزیہ کا دعویٰ ہے کہ ’میری بہن کی وفات ہوئی تو ہم نے اسے اپنے علاقے کے قبرستان میں دفنایا جہاں ہمارے خاندان کے دیگر لوگ بھی دفن ہیں۔ اس کی موت کے دس دن کے بعد علاقے کے لوگ ایک فتوی لے کر آ گئے کہ اس لڑکی کو قبرستان سے نکالا جائے کیونکہ ہمارے (مسلمانوں کے) مردوں کو عذاب ہوتا ہے۔‘
فوزیہ کے مطابق انھیں وہ فتویٰ دکھایا نہیں گیا جبکہ اُن کے والد نے میت کو قبر سے نکالنے سے انکار کر دیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’اس وقت ہمارے گھر کے گرد اتنے لوگ جمع تھے کہ لگ رہا تھا کہ آس پاس کے دیہات کے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے ہیں۔ پولیس والے اپنی نگرانی میں میرے بھائیوں اور ابو کو قبرستان لے گئے۔ میری بہن کی قبر کے گرد جمع لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ اس لڑکی کا باپ اور بھائی آ گئے ہیں۔‘
فوزیہ بتاتی ہیں کہ اس مشکل میں ’ہم نے جماعت کے لوگوں سے رابطہ کیا اور انھیں اس واقعے سے ٓاگاہ کیا تو انھوں نے نئی جگہ کا انتظام کیا اور پھر ہم نے اسے وہاں جا کر دفنایا۔‘
فوزیہ کے مطابق اس واقعے کو گزرے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی اس واقعے سے ملنے والی تکلیف ان کے لیے کم نہیں ہوئی ہے۔ تاہم وہ آج بھی صرف ایک ہی شکوہ کرتی ہیں کہ ’ہمارے زندہ لوگ تو مشکل وقت گزار ہی رہے ہیں لیکن ہمارے مُردوں کو ان کی قبروں میں سکون سے کیوں نہیں رہنے دیا جاتا؟‘
’گذشتہ دو برسوں میں احمدی کمیونٹی کے خلاف عدم برداشت میں اضافہ‘
پاکستان میں احمدی کمیونٹی کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، جن میں بچوں کے سکولوں میں داخلے ہوں یا پھر ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا مسئلہ ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ احمدیوں لیے بھی پاکستان میں اپنے مر جانے والے پیاروں کو دفنانا بھی ایک آزمائش بن گیا ہے۔
احمدی کمیونٹی کی جانب سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 1984 سے لے کر اب تک تقریباً سو سے زائد میتوں کو قبرستانوں میں دفنانے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ 40 کے قریب ایسے واقعات پیش آئے جن میں میتوں کو دفنانے کے بعد قبر سے نکالا گیا۔
رفيق (فرضی نام) سیالکوٹ کے نواحی علاقے کے رہائشی ہیں۔ ان کا خاندان قیامِ پاکستان سے پہلے سے اسی علاقے میں بس رہا ہے۔ ان کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ان کے دو رشتہ داروں کی وفات ہوئی جنھیں قریبی اور مقامی قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
وہ بتاتے ہیں ’میری ساس کی طبعیت خراب ہوئی تو ہم انھیں لاہور لے گئے جہاں صبح پانچ بجے ان کی وفات ہو گئی۔ ہم لاہور سے ان کی میت اپنے گھر لا ہی رہے تھے کہ ہمارے گھر پہنچنے سے پہلے ہی کچھ لوگ قبرستان پہنچ گئے تاکہ ہم انھیں وہاں دفنا نہ سکیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے علاقے کی پولیس سے جا کر اجازت لی کہ ہم اپنے علاقے کے قبرستان میں تدفین کرنا چاہتے ہیں۔ ایس ایچ او نے ہمیں نہیں روکا لیکن جب ہم نے قبر کھود لی تو ارد گرد سے لوگ اکھٹے ہو کر آ گئے۔ پولیس اور اے سی صاحب بھی آ گئے کہ آپ یہاں تدفین نہیں کر سکتے ہیں۔‘
رفیق کے مطابق ان کے خاندان کے افراد نے پوچھا کہ کیوں تدفین نہیں کر سکتے؟ ’ہمارے آباؤ اجداد یہاں دفن ہیں تو اب ایسا کیا ہو گیا کہ وہ یہاں اپنی میتوں کو نہیں دفنا سکتے؟‘
رفیق کا دعویٰ ہے کہ اس پر حکام نے جواب دیا کہ ’اوپر سے حکم آیا ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔‘
رفیق بتاتے ہیں ’ہماری ان سے گرما گرمی بھی ہوئی لیکن پھر انھوں نے ہم سے درخواست کی کہ آپ اچھے لوگ ہیں مہربانی کر کے علاقے کے امن و امان کے لیے مان جائیں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں گے۔ ‘
انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد ایک دن میت گھر میں رکھنے کے بعد ربوہ لے جا کر تدفین کی گئی۔
’ہمیں ہمارے مردوں کا کفن دفن تقریبا دولاکھ میں پڑتا ہے‘
رفیق کہتے ہیں کہ ان کی تکلیف دہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی کیونک ساس کی وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد ان کا ایک اور رشتہ دار فوت ہو گیا اور ان کی تدفین کے موقع پر ایک بار پھر وہی ہوا کہ علاقے کے قبرستان میں دفنانے نہیں دیا گیا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ میت بھی تین دن گھر پر رکھی گئی اور پھر ربوہ لے جا کر تدفین کرنا پڑی۔
رفیق کہتے ہیں کہ ’میت وہاں لے کر جانا بھی انتہائی مشکل کام ہے۔ آنے جانے کا کرایہ اور تمام تر اخراجات اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ تقریبا ڈیڑھ سے دو لاکھ کا خرچہ آتا ہے۔ ہم تو پھر بھی یہ خرچہ برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہمارے وہ بہن بھائی جو استطاعت نہیں رکھتے ان کے لیے تو اپنے پیاروں کو دفنانا بھی مشکل ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب تو ربوہ والوں نے بھی ہمیں منع کر دیا ہے کہ اب آپ نے یہاں کوئی میت لے کر نہیں آنی کیونکہ ہمارے پاس بھی جگہ ختم ہو گئی ہے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں ’ایک طرف ہمیں ہمارے پیاروں کے مرنے کی تکلیف ہوتی ہے تو دوسری طرف ہمیں ان کے مرنے کے فورا بعد یہ پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ ہم انھیں دفنائیں کہاں؟‘
انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اس معاملے پر ’علاقے کا کوئی بزرگ سامنے نہیں آیا۔ ہم تو ان بڑوں سے بھی کہہ چکے ہیں کہ مل بیٹھ کر امن و امان کے لیے بات کریں تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔ ‘
’ریاست ایسے واقعات کی روک تھام میں ہماری امداد نہیں کرتی‘
بی بی سی کی اس رپورٹ کے لیے ہم نے مختلف شہروں کا رُخ کا کیا اور تقریباً ہر جگہ صورتحال لگ بھگ ایک سی نظر آئی۔ یہاں تک کہ جب ہم نے چند احمدیوں کے ساتھ ایسے قبرستانوں کا دورہ کیا تو وہاں بھی چند افراد آن پہنچے اور استفسار کیا کہ آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟
اس کے علاوہ ہم نے چند ایسے قبرستانوں کا دورہ بھی کیا جہاں ایک سے زائد مرتبہ شرپسند افراد نے حملہ کیا۔ فیصل آباد کے قریب واقع ایسے ہی گاؤں کے قبرستان میں ہمیں جلے ہوئے تابوت اور اُکھاڑی گئی قبریں اور توڑے گئے کتبے بھی دیکھنے کو ملے۔
ایسے ہی ایک قبرستان کی دیکھ بھال کرنے والے شخص نے ایک پوسٹر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ پوسٹر آج صبح ہی کوئی قبرستان میں پھنک کر گیا ہے۔
اس پوسٹر پر درج تھا ’اب اگر کوئی لاش یہاں دفنائی تو ذمہ دار تم خود ہو گے‘۔
کرامت (فرضی نام) نے بتاتا کہ ’ہم تین مرتبہ پولیس کے پاس شکایت لے کر گئے تو پولیس نے جواب دیا کہ یہ مذہبی معاملہ ہے ہم اس پر کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’ایسے تمام تر واقعات میں پولیس اور ریاست شرپسند لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے۔ اور ہمارا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جاتا ہے۔‘
پولیس اور ریاست پر اس الزام کے بارے میں جب ہم نے آئی پنجاب سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’میرے ہوتے ہوئے تو قبروں کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں ہے اور اگر ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس پر قانونی کارروائی ہوتی ہے۔‘
آئی جی پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ باہمی رضامندی سے فریقین کے درمیان ایسے معاملات حل ہو جائیں تاکہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھا جا سکے۔‘
یاد رہے کہ حال ہی میں ضلع قصور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس کے تحت ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو احمدیوں کی قبروں پر لگے ہوئے کتبوں کا جائزہ لے گی کہ کہیں ان پر کوئی ایسی چیز نہ لکھی گئی ہو جس کا تعلق اسلام سے ہو۔
اسی بارے میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے صحافی منیزے جہانگیر کو انٹرویو دیتے ہوئے احمدیوں پر ہونے والے حملوں میں ریاست کے ملوث ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ پولیس یا ریاست کے کسی ادارے کے ملوث ہونے کے بارے میں وہ انکوئری ضرور کروائیں گے۔
(اس کہانی کے تمام کرداروں کے اصل ناموں کو اُن کے تحفظ کے پیش نظر مخفی رکھا گیا ہے اور فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔)