جب پاکستان کرکٹ ٹیم رواں ہفتے ورلڈ کپ 2023 میں شرکت کے لیے انڈیا روانہ ہو گی تو یہ سکواڈ کے تمام کھلاڑیوں کا انڈیا کا پہلا دورہ ہو گا یعنی پاکستان کے 15 رکنی سکواڈ میں سے کسی کو بھی انڈیا کے کسی بھی گراؤنڈ کی کنڈیشنز کا تجربہ نہیں ہو گا۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس سے پہلے سنہ 2012-13 میں ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے انڈیا گئی تھی جس میں پاکستان نے انڈیا کو تین صفر سے شکست دی تھی۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی تناؤ کے باعث پاکستان اور انڈیا نے ایک دوسرے کے ملک میں جا کر سیریز کھیلنے سے انکار کیا۔
گذشتہ دس برس میں پاکستان نے انڈیا جا کر سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی تھی تاہم اس ٹیم کا کوئی بھی کھلاڑی موجود ٹیم کا حصہ نہیں۔
کرکٹ کا کھیل ایسا ہے کہ جس میں کنڈیشنز سے ہم آہنگی میچ میں کامیابی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے اور یہ ٹیم مینجمنٹ کو متعدد فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔
دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کو جہاں آئی پی ایل میں کرکٹ کھیل کر انڈیا کے تمام گراؤنڈز کی کنڈیشنز میں کھیلنے کا موقع ملتا ہے وہیں پاکستانی کھلاڑی ایسا اس لیے نہیں کر سکتے کیونکہ ان پر آئی پی ایل کے پہلے ایڈیشن کے بعد سے ٹورنامنٹ کھیلنے پر پابندی عائد ہے۔
تاہم ڈیٹا اینالٹکس کے اس دور میں یہ یہ پتا چلانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ اعداد و شمار کے اعتبار سے انڈیا کا کون سا گراؤنڈ بیٹنگ اور کون سا بولنگ کے لیے سازگار ہو گا۔
آئیے نظر دوڑاتے ہیں ان گراؤنڈز کی فہرست پر جہاں پاکستان ورلڈ کپ 2023 میں اپنے میچ کھیلنے جا رہا ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی یہاں کارکردگی کیسی رہی ہے، یہاں کی کنڈیشنز کیسی ہیں اور ان میں کتنے تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیڈیم، حیدرآباد
پاکستان ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ نیدرلینڈز کے خلاف چھ اکتوبر کو اسی میدان پر کھیلنے جا رہا ہے۔
راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیڈیم میں 55 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور اس کی پچ عام طور پر بلے بازوں کے لیے موافق ہے اور یوں اس گراؤنڈ میں زیادہ رنز بنتے ہیں۔
انڈین اوپنر شبمن گل نے اس سال کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے خلاف اسی گراؤنڈ پر کھیلے گئے ون ڈے میچ میں 208 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی اور انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 349 رنز بنائے تھے تاہم اس گراؤنڈ پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اوسط سکور 275 ہے۔
اس سٹیڈیم میں اب تک 14 ون ڈے میچ کھیلے جا چکے ہیں تاہم پاکستان نے تاحال یہاں کوئی میچ نہیں کھیلا۔
پاکستان ورلڈ کپ میں اپنے پہلے دو میچ یعنی نیدرلینڈز اور سری لنکا کے خلاف چھ اور 10 اکتوبر کو اسی گراؤنڈ پر کھیلے گا۔
اس کے علاوہ ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کے دونوں وارم اپ میچ 29 ستمبر اور تین اکتوبر کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف اسی گراؤنڈ پر کھیلے جائیں گے۔
حیدر آباد کی انتظامیہ نے پاکستان کو پہلے وارم اپ میچ کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے معذوری کا اظہار کیا تھا جس کے باعث نیوزی لینڈ کے خلاف وارم اپ میچ میں شائقین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
نریندر مودی سٹیڈیم احمد آباد
یہ گراؤنڈ دراصل سنہ 1982 میں تعمیر ہوا تھا اور اسے سردار پٹیل کرکٹ گراؤنڈ کا نام دیا گیا تھا تاہم گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن نے ایک بہتر گراؤنڈ تعمیر کرنے کے لیے سنہ 2015 میں اسے مسمار کیا اور دنیا کا سب سے زیادہ گنجائش والا سٹیڈیم تعمیر کیا گیا جس کا افتتاح سنہ 2020 میں کیا گیا۔
نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم میں ویسے تو ایک لاکھ 32 ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے لیکن سائٹ سکرینز کی رکاوٹ کے باعث یہ تعداد کم ہو جاتی ہے۔
پاکستان یہاں انڈیا کے خلاف اپنا تیسرا میچ کھیلے گا۔ ابتدائی طور پر یہ میچ 15 اکتوبر کو احمد آباد میں شیڈول تھا تاہم اسی روز ہندوؤں کے تہوار نوراتری کا پہلا روز ہونے کی وجہ سے اب یہ میچ ایک دن قبل یعنی 14 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔
پاکستانی ٹیم نے نریندر مودی سٹیڈیم میں تاحال کوئی میچ نہیں کھیلا لیکن سردار پٹیل کرکٹ گراؤنڈ میں سنہ 2005 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیریز کا چوتھا اور تاریخی ون ڈے میچ کھیلا گیا تھا۔ اس میچ میں انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے سچن تندولکر کی 123 رنز کی شاندار اننگز کی بدولت 48 اوورز میں 315 رنز بنائے تھے۔
جواب میں پاکستان نے پہلی مرتبہ 300 سے زیادہ رنز کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا تھا اور انضمام الحق کا سچن تندولکر کو میچ کی آخری گیند پر چوکا مار کر میچ جیتنا آج بھی اکثر پاکستانی فینز کو یاد ہو گا۔
نئے سٹیڈیم میں اب تک صرف تین ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے گئے ہیں اور اس گراؤنڈ میں گیارہ سینٹر پچز بنائی گئی ہیں۔ یہاں آئی پی ایل کے میچوں کے دوران یہ پچ بلے بازوں کے لیے سازگار ثابت ہوئی ہے، جو خاصی آزادی کے ساتھ سٹروکس کھیلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ایم چناسوامی سٹیڈیم، بینگلورو
اس گراؤنڈ کی بنیاد سنہ 1969 میں رکھی گئی تھی اور آغاز میں اس کا نام کرناٹک سٹیٹ کرکٹ ایسوسی ایشن سٹیڈیم رکھا گیا تھا تاہم بعد میں اس کا نام ماضی کے ایک بی سی سی آئی چیئرمین ایم چناسوامی کے نام سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔
اس گراؤنڈ کی تاریخ بہت دلچسپ ہے اور یہاں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی تاریخی میچ ہو چکے ہیں۔ سنہ 1987 کی ٹیسٹ سیریز میں سنیل گواسکر نے اپنا آخری ٹیسٹ اسی گراؤنڈ پر پاکستان کے خلاف کھیلا تھا اور ایک مشکل پچ پر 96 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی تھی۔ پاکستان نے یہ میچ 16 رنز سے جیت لیا تھا۔
اس کے علاوہ یہ وہی گراؤنڈ ہے، جہاں سنہ 1996 کے ورلڈ کپ کا کوراٹر فائنل بھی کھیلا گیا تھا جس میں انڈیا نے پاکستان کو باآسانی شکست دے دی تھی۔
اسی طرح انضمام الحق نے اسی گراؤنڈ پر اپنے کریئر کا 100واں ٹیسٹ کھیلا تھا اور پہلی اننگز میں 184 رنز بنائے تھے۔ یونس خان نے اس میچ میں 284 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی اور پاکستان یہ میچ 168 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہوا تھا اور یوں یہ سیریز بھی اپنے نام کر لی تھی۔
یہاں سنہ 1999 کے پیپسی کپ کے میچ میں پاکستان نے انڈیا کو 123 رنز سے شکست بھی دی تھی۔
اس گراؤنڈ میں 40 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے اور یہاں کی پچ بیٹنگ کے لیے انتہائی موزوں سمجھی جاتی ہے۔ یہاں کا اوسط پہلی اننگز کا سکور تقریباً 260 سے 270 کے درمیان ہے۔
پاکستان نے ابھی تک یہاں صرف دو ون ڈے میچ کھیلے ہیں اور ورلڈ کپ میں یہاں 20 اکتوبر کو آسٹریلیا اور چار نومبر کو نیوزی لینڈ کے مدِمقابل ہو گا۔
ایم اے چدمبرم سٹیڈیم، چنئی
چنئی کا یہ سٹیڈیم چیپوک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ انڈیا کا دوسرا سب سے قدیم میدان ہے جس کی بنیاد سنہ 1916 میں رکھی گئی تھی۔
پاکستان نے اسی میدان پر سنہ 1999 کی مشہور سیریز کے چنئی ٹیسٹ میں انڈیا کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد 12 رنز سے شکست دی تھی جس کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں نے میدان کا چکر لگا کر تماشائیوں سے داد وصول کی تھی۔
یہ وہی گراؤنڈ ہے جہاں پاکستان کے مایہ ناز اوپنر سعید انور نے سنہ 1997 میں انڈیپینڈینس کپ کے میچ میں 194 رنز کی ریکارڈ اننگز کھیلی تھی جو ایک عرصے تک عالمی ریکارڈ بھی رہا تھا۔
یہاں پاکستان نے اس کے علاوہ صرف ایک اور ون ڈے میچ سنہ 2012 میں کھیلا تھا جس میں جنید خان کی عمدہ سوئنگ بولنگ کے باعث پاکستان انڈیا کو 226 رنز پر روکنے میں کامیاب ہوا تھا جس میں دھونی کی ناقابلِ شکست 113 رنز کی اننگز بھی شامل تھی۔
پاکستان نے یہ ہدف ناصر جمشید کی سنچری کے باعث چار وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا تھا۔
یہ گراؤنڈ سابق انڈین کپتان مہندرا سنگھ دھونی کا فیورٹ گراؤنڈ سمجھا جاتا ہے اور ان کی آئی پی ایل کی ٹیم چنئی سپر کنگز نے اس میدان پر متعدد میچ ان کی کپتانی اور سپنرز کی عمدہ بولنگ کے باعث جیتے ہیں۔
پاکستان اس میدان پر 23 اکتوبر کو افغانستان اور 27 اکتوبر کو جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے گا۔ بی سی سی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش 33،500 ہے۔
ایڈن گارڈنز، کولکتہ
کولکتہ میں موجود ایڈن گارڈنز کا میدان انڈیا کا سب سے قدیم کرکٹ سٹیڈیم ہے جو سنہ 1864 میں بنایا گیا تھا۔
اس تاریخی میدان پر پاکستان ورلڈ کپ میں دو میچ کھیلے گا۔ 31 اکتوبر کو پاکستان کا بنگلہ دیش سے اس میدان پر مقابلہ ہو گا جبکہ 11 نومبر کو پاکستان اور نیوزی لینڈ یہاں آمنے سامنے ہوں گے۔
پاکستان کرکٹ کی کولکتہ کے ایڈن گارڈنز سے متعدد یادیں جڑی ہیں۔ یہاں پاکستان کا ون ڈے ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے اور اسے کبھی بھی انڈیا سے شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
پاکستان نے یہاں کل چھ ون ڈے میچ کھیلے ہیں اور ان میں سے صرف ایک میچ میں سری لنکا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کنڈیشنز کی بات کریں تو ایڈن گارڈنز کی وکٹ بیٹنگ کے لیے اچھی سمجھی جاتی ہے اور یہاں سپنرز کو بھی پچ سے جلد مدد مل جاتی ہے۔
سنہ 1999 کا کولکتہ ٹیسٹ کسے یاد نہیں جب شعیب اختر نے انڈیا کی پہلی اننگز میں راہل ڈراوڈ اور اور سچن تندولکر کو یکے بعد دیگرے دو گیندوں پر بولڈ کیا تھا اور ایک لاکھ کے قریب تماشائی اچانک خاموش ہو گئے تھے۔
تاہم دوسری اننگز میں جب غیر ارادای طور پر شعیب اختر سے ٹکر لگنے کی وجہ تندولکر رن آؤٹ ہوئے تو سٹینڈز سے تماشائیوں نے گراؤنڈ میں بوتلیں پھنکنا شروع کر دیں۔
اس کے بعد تندولکر کی مداخلت اور کچھ شائقین کو باہر نکالنے کے باوجود بھی معاملہ حل نہیں ہوا تھا تو تمام تماشائیوں کو باہر نکال دیا گیا تھا اور میچ بغیر تماشائیوں کے کھیلا گیا تھا۔
بی سی سی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق اب اس گراؤنڈ میں 80 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔