’ویسے تو معلوم نہیں کب ہی انڈیا دیکھنے کا موقع ملے گا اور اگر انڈیا میں کرکٹ دیکھنے کو ملے تو کیا ہی بات ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک پاکستانیوں کے لیے انڈیا کا ویزہ ہی نہیں کھولا گیا ہے۔‘
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے شہری ذیشان علی کرکٹ کے مداح ہیں اور کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے انڈیا جانے کے خواہشمند ہیں۔
ذیشان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے کل تین میچز کے ٹکٹس خرید رکھے ہیں جن میں پاکستان بمقابلہ انڈیا، پاکستان بمقابلہ سری لنکا اور پاکستان بمقابلہ افغانستان شامل ہیں۔‘
ورلڈ کپ دیکھنے کے خواہش مند ذیشان انتظار کے ان لمحات میں مایوسی کا شکار بھی ہوئے۔
’میں ہوٹل کی بکنگ بھی کروا چکا ہوں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک پاکستانیوں کے لیے ویزے ہی نہیں کھولے گئے۔ اب تو انتظار کی وجہ سے میرا اپنا جوش و خروش بھی کم ہو جاتا رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کا آغاز آج (پانچ اکتوبر) سے انڈیا میں ہونے جا رہا ہے۔ چار برس کے بعد سجنے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے اس میلے کا افتتاحی میچ آج جمعرات انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان انڈیا کے شہر احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جبکہ پاکستان کا پہلا میچ جمعہ (6 اکتوبر) کو نیدرلینڈز کے خلاف کھیلے گا۔
تاہم ورلڈ کپ کے آغاز کے باوجود ابھی تک سینکڑوں پاکستانی شائقین کرکٹ کو انڈیا کی جانب سے ویزوں کا اجرا نہیں کیا گیا ہے۔
ورلڈ کپ کے میزبان ملک انڈیا میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں دنیا بھر سے ہزاروں شائقین کرکٹ پہنچ رہے ہیں۔
ذیشان کے مطابق انھوں نے انڈیا، پاکستان میچ کا ایک ٹکٹ 27 ہزارروپے میں خریدا ہے۔
قواعد و ضوابط کے مطابق اگر آپ انڈیا کا ویزہ لینے کے لیے خواہشمند ہیں تو یہ ضروری ہے کہ آپ نے میچ کا ٹکٹ اپنے کارڈ پر خریدا ہو جبکہ ویزہ کے لیے ہوٹل کی بکنگ کی تصدیق دکھانا بھی لازمی ہے۔
’اب تو روزانہ امید جاگتی ہے کہ شاید آج انڈیا کا ویزہ آ جائے، مگر اب امید ناامیدی میں بدلتی جا رہی ہے۔‘
ذیشان جیسے بے شمار پاکستانی اس انتظار میں ہیں کہ کب ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے انڈیا جا سکیں گے۔
اس صورت حال کا سامنا صرف پاکستان کے عام افراد کو نہیں بلکہ ابھی تک سپورٹس کو کور کرنے والے صحافیوں کو بھی ویزے جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
’ویزہ نہ دینا اصولوں کی خلاف ورزی ہے‘
کیا پاکستانیوں کو کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے انڈیا کا ویزہ ملے گا یا نہیں؟
اس سوال کا جواب ہر وہ پاکستانی جاننا چاہتا ہے جو کرکٹ میچ انڈیا جا کر دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ لیکن ابھی تک اس سوال کا جواب نہ تو انڈیا کی سرکار کی جانب سے آیا ہے اور نہ ہی آئی سی سی اس پر کوئی تسلی بخش جواب دے سکی ہے۔
تاہم چند روز قبل انڈین کرکٹ بورڈ ’بی سی سی آئ‘ی کی جانب سے سامنے آنے والے ایک بیان میں یہ ضرور کہا گیا تھا کہ ’پاکستانی صحافیوں اور شائقین کو کتنے ویزے جاری کیے جائیں گے، اس ضمن میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے تاہم وزارتِ خارجہ اور آئی سی سی کے ساتھ مل کر ویزوں کی تعداد پر کام کیا جا رہا ہے۔‘‘
بی سی سی آئی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کچھ پاکستانی شائقین کو ورلڈ کپ کے میچز کے لیے ویزے جاری کریں گے۔‘
تاہم اس مختصر اور غیر واضح بیان کے بعد بی سی سی آئی اور انڈین حکام کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔
دوسری جانب انڈین ہائی کمیشن کے لیے پاکستان میں ویزہ کی درخواست اور پاسپورٹ وصول کرنے والی کمپنی کے مطابق انھیں ابھی تک انڈین ہائی کمیشن کی جانب سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئی ہیں جس کے باعث وہ ابھی کسی بھی صارف کی ویزہ کی درخواست موصول ہی نہیں کر رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اس معاملے پر آئی سی سی کو ای میل بھی کی گئی ہے کہ جس میں انھوں نے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ملک کے حوالے سے ضابطہ اخلاق (کوڈ آف کنڈکٹ) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی صحافیوں اور شائقین کو ابھی تک ویزہ نہ دینا ’اصولوں کی خلاف ورزی‘ ہے۔
’مجھے آج انڈیا کے لیے پرواز بھرنی تھی لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا‘
بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی سے تعلق رکھنے والے سپورٹس جرنلسٹ نے بتایا کہ ان کی ورلڈ کپ میچز کور کرنے کی تیاریاں مکمل تھیں لیکن ویزہ ملنے کا عمل نہ شروع ہونے کے باعث انھوں ہوٹل بکنگ اور اپنی فلائٹ کینسل کروائی ہے۔
’مجھے آج انڈیا کے لیے روانہ ہونا تھا، لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا‘
دوسری جانب پاکستانی میڈیا کے ایک نجی چینل سے تعلق رکھنے والی ماریہ راجپوت نے اسی مسئلے کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’ماضی قریب میں مجھے یاد ہے کہ آسٹریلیا کا ہمارا ویزہ تین دن میں آ گیا تھا جبکہ انڈیا کے ویزے کے لیے آئی سی سی کی جانب سے تصدیق شدہ صحافیوں کو بھی انڈیا نے ابھی تک ویزے جاری نہیں کیے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ اس مرتبہ تو پاکستان سے مخصوص صحافیوں کے نام ہی آئی سی سی نے منظور کیے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جن کے یوٹیوب چینل یا ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق ہے اور وہ ٹکٹ پر پیسے خرچ کر کے ضائع کر چکے ہیں۔
اس معاملے پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ صحافیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو شائیقین کے بارے میں تو آپ بات ہی نہ کریں۔‘
پاکستان کرکٹ بورڈ اور دفتر خارجہ کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ متعلقہ حکام کی جانب سے اس معاملے پر زور نہیں لگایا جا رہا ہے۔ ’ہم صحافیوں نے دفتر خارجہ کو بھی آئی سی سی سے منظور شدہ صحافیوں کی لسٹ دی تھی تاکہ اس معاملے کو حکومتی سطح پر اٹھایا جا سکے لیکن اس بات کو چار سے پانچ دن گزر چکے ہیں اور وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔‘
اس معاملے پر پی سی بی کے ترجمان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پی سی بی جانب سے یہ معاملہ ایک سے زائد مرتبہ آئی سی سی کے ساتھ اٹھایا گیا ہے اور ہم نے انھیں دو سے تین مرتبہ ای میلز بھی کی ہیں۔ تاہم ہمیں اب یہ بتایا گیا ہے کہ ایک سے دو روز میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا جس کے بعد صحافیوں کے لیے انڈیا کے ویزے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ کرکٹ شائقین کے لیے انڈیا کی ویزہ پالیسی ابھی بھی واضح نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص وقت دیا گیا ہے کہ انھیں ویزہ جاری ہو گا بھی یا نہیں۔