جب رستہ طویل ہو اور قدم شروع میں ہی ڈگمگا جائیں تو کامیاب وہی رہتا ہے جو حواس کھونے نہ دے اور منزل سے پہلے پہلے سنبھل جائے۔ پاکستان بھی اس طویل رستے کی ابتدا میں خوب ڈگمگایا۔
مگر بھلا ہوا کہ بیچ راہ ہی سنبھل بھی گیا۔
پاکستانی بولنگ کا آغاز مثالی نہ تھا۔ شاہین آفریدی صحیح لینتھ کی کھوج میں مینڈس کے لیے تر نوالہ بنتے رہے اور حسن علی کی درستی کی بدولت، دوسرے کنارے سے جو کچھ کنٹرول پاکستان کو میسر ہو رہا تھا، وہ بھی حارث رؤف کے ابتدائی سپیل میں ہوا ہو گیا۔
اس پر ستم ظریفی یہ رہی کہ جس ٹورنامنٹ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سپنرز کا کردار اہم تر ہونے کو ہے، وہاں حسبِ معمول شاداب خان اور محمد نواز ایک بار پھر روٹھی فارم کو منانے کی تگ و دو میں نظر آئے۔
بعید نہ تھا کہ جو قہر جنوبی افریقہ نے دہلی میں سری لنکن بولنگ پر ڈھایا تھا، ویسا ہی یہاں پاکستانی بولنگ پر بھی بِیت جاتا۔ مگر اننگز کے بیچ سپنرز کو بھی صحیح لینتھ مل گئی اور تیسرے پاور پلے میں پیسرز بھی اپنی اصل کو لوٹے۔
کسی بہت بڑے مجموعے کی سمت گامزن لنکن بیٹنگ اپنے لوئر آرڈر کے ہاتھوں پست قدم رہ گئی۔
حیدرآباد کی پچ عموماً بلے بازی کے لیے یوں زرخیز نہیں ہوا کرتی مگر یہاں کیوریٹر نے کچھ ایسا جادو جگایا کہ نئی گیند کے ساتھ پیسرز تو درکنار، سپنرز کو بھی سانس لینا محال ٹھہرا۔
داسون شانکا نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ اس سوچ کے تحت کیا تھا کہ پچھلے میچ کے بعد شدید دباؤ میں گِھری بولنگ کے عزائم بلند کرنے کو سکور بورڈ پر ایک ایسا حوصلہ افزا مجموعہ جڑا ہو کہ وسائل کی کمیابی سے دوچار اٹیک کی ہمت بندھانے کو کافی ہو رہے۔
مگر میچ تمام ہونے تک یہ طے کرنا دشوار ہو چکا تھا کہ دونوں ٹیموں کے فیلڈنگ اور بولنگ ڈسپلن میں سے بدتر کسے ٹھہرایا جائے۔ جہاں پاکستانی فیلڈنگ بھول بھلیوں میں کھوئی نظر آئی، وہاں سری لنکا کا نظم و ضبط اس سے بھی ابتر نکلا۔
پاکستانی تھنک ٹینک نے بہرطور ایک ہی غلطی بار بار دہرانے کے بعد یہاں بالآخر درست قدم لے ہی لیا اور فخر زمان کو آرام دیتے ہوئے، عبداللہ شفیق کو ہنر آزمانے کا موقع دیا۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستانی ٹاپ آرڈر جس کم مائیگی کا شکار رہا ہے، وہاں عبداللہ کے لیے یہ امتحان سہل نہ تھا۔
مگر جس طرح کی تکنیکی مضبوطی اور اعصابی پختگی عبداللہ شفیق میں جھلکتی ہے، وہ فی زمانہ نوجوان کرکٹرز میں خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ عبداللہ کی ذہنی بلوغت کا مکمل نمونہ تھا کہ یکے بعد دیگرے امام الحق اور بابر اعظم کا ساتھ گنوانے کے بعد بھی اضمحلال کو پاس پھٹکنے نہ دیا۔
اور پھر انھیں محمد رضوان کی شکل میں وہ آزمودہ کار سنگت میسر ہوئی کہ جس نے دوسرے کنارے سے بھرپور سنبھالا دیا۔ گو پاکستان میچ کی چال سے بہت پیچھے رہ چکا تھا مگر ان دونوں نے کہیں بھی مطلوبہ رن ریٹ کو اعصاب پر حاوی نہیں کیا اور شانکا کی غلطیوں کے منتظر رہے۔
ون ڈے کرکٹ کی خوبصورتی یہ ہے کہ ٹی ٹونٹی کے برعکس یہاں کئی ایک پڑاؤ آتے ہیں اور ایک مرحلے کی پست ہمتی کا ازالہ کرنے کو دوسرا مرحلہ میسر ہوتا ہے۔ پاکستانی بولنگ ہی کی طرح بیٹنگ بھی ابتدا میں جہاں ڈگمگا گئی تھی، اننگز کے دوسرے مرحلے میں اس لغزشِ پا کو کمال مہارت سے رفع کر لیا گیا۔
جہاں سعود شکیل کی شمولیت سے مڈل آرڈر کی کجی دور ہوئی تھی، وہیں اب عبداللہ شفیق کی آمد سے ٹاپ آرڈر کا نقص بھی دور ہو گیا اور ان کی شاندار اننگز کے طفیل، ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف طے کرنے کا ایک نیا ریکارڈ پاکستان کے نام ہوا۔
اگرچہ ساڑھے چار بولرز پر مشتمل اٹیک کے ہمراہ میدان میں اُترنا کسی بھی فیلڈنگ کپتان کے لیے عذاب سے کم نہیں ہوتا مگر بے سبب دور اندیشی پر مائل سری لنکن کپتان نے بھی بولنگ تبدیلیوں میں بارہا ایسی غلطیاں کی کہ رن ریٹ کے بوجھ تلے دبتی پاکستانی بیٹنگ کو نئی زندگی ملتی رہی۔
اور اس سب احوال سے بالاتر رہی محمد رضوان کی ہمت کہ کوئی انجری ان کا رستہ روک پائی اور نہ ہی تھکن ارادوں میں حائل ہو پائی کہ منزل تک پہنچ کر ہی دم لیا۔