گذشتہ سال فروری میں جب یوکرین میں جنگ شروع ہوئی تو روس میں تجارت کرنے والی بہت سی مغربی کمپنیوں نے ملک چھوڑ دیا لیکن بہت سی روس میں ہی رہیں۔
کیئو سکول آف اکنامکس (کے ایس ای) کی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ روس میں کام کرتے رہے انھوں نے ’اربوں ڈالر کا منافع‘ کمایا ہے۔
تاہم، تحقیقات میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ کریملن انھیں ’دشمن‘ سمجھے جانے والے ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے انھیں ان کی آمدن تک رسائی سے روک رہا ہے۔
مطالعاتی مرکز کا تخمینہ ہے کہ ماسکو کا ساتھ نہ دینے والے ممالک کی تقریباً 700 کمپنیوں نے سنہ 2022 میں 20,375 ملین امریکی ڈالر کے قریب منافع حاصل کیا جو کہ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے حاصل کیے گئے منافع سے کہیں زیادہ ہے۔
بہرحال زیادہ منافع بذات خود دو دھاری تلوار بن گیا کیونکہ اب ان کے فنڈز بلاک کر دیے گئے ہیں۔
کے ایس ای میں ڈویلپمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اینڈری اونوپرینکو نے بی بی سی منڈو کو بتایا: ’کئی مغربی کمپنیوں نے روس چھوڑنے کے لیے بہت انتظار کیا اور اس وقت حکام نے کمپنیوں کے وہاں سے جانے کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔‘
کے ایس ای کے اعداد و شمار کے مطابق منافعے کی وجہ سے پھنسنے والی زیادہ تر کمپنیاں امریکہ، جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کی کمپنیاں ہیں۔
سرفہرست ’دس کمپنیوں‘ میں رائیفیسن، فلپ مورس، پیپسی، جاپان ٹوبیکو انٹرنیشنل اور آٹوموبائل کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ اس میں مارس، مونڈیلیز، کے آئی اے موٹرز، امپیریل انرجی کارپوریشن اور پراکٹر اینڈ گیمبل بھی شامل ہیں۔
یوکرین کے محقق کا مزید کہنا ہے کہ ’روس میں جو کچھ بھی کمایا گیا تھا وہ وہیں رہے گا، کیونکہ حکام منافعے کی واپسی کی اجازت نہیں دیں گے اور انتہائی پرکشش اثاثوں کو قومیا لیں گے۔‘
مغرب کی نبض
ماسکو فنڈز کو منجمد کرنے جیسے تجارتی اقدامات کو مکمل طور پر جائز سمجھتا ہے کیونکہ مغربی اتحاد والے ممالک نے بھی روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں اور روسی افراد اور کمپنیوں کے بیرون ملک مالیاتی اثاثوں کو روک دیا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اگست میں کہا تھا کہ ’یوکرین پر حملے کے لیے روس کو سزا دینے اور مالی طور پر تنہا کرنے کی مغرب کی کوششیں ’پابندیوں کا ایک ناجائز سلسلہ ہیں‘ اور خودمختار ریاستوں کے اثاثوں کو غیر قانونی طور پر منجمد کرنا ہے، جو وہ آزاد تجارت کے تمام بنیادی اصولوں اور ضابطوں کو پامال کر رہے ہیں۔‘
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ماسکو کی آمدنی کو کم کرنے اور اس کی جنگی کوششوں کو کمزور کرنے کے لیے روسی تیل اور گیس کی اپنی درآمدات کو محدود کر دیا ہے۔
کریملن کے فنڈز کو بے اثر کرنے کے بہت سے دیگر اقدامات کے علاوہ، مغرب نے روسی مرکزی بینک کے غیر ملکی ذخائر میں سے سینکڑوں بلین ڈالر کو منجمد کر دیا، جبکہ روسی اداروں کی بڑی سرمایہ کاری کی مارکیٹوں تک رسائی کو محدود کر دیا اور بین الاقوامی ادائیگی کے سوئفٹ نظام میں ملک کے سب سے بڑے بینکوں کو نکال دیا ہے۔
ان کی ’بلیک لسٹ‘ میں سینکڑوں روسی اولیگارچ شامل ہیں جن کے فنڈز منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان کے اثاثے ضبط کر لیے گئے ہیں۔
جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد روس کے خلاف لگائی جانے والی پے در پے پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے پوتن نے کہا کہ روسی معیشت کا دم گھوٹنے کی کوشش کا منصوبہ ’اعلان جنگ‘ کے مترادف ہے۔
پیسہ بطور ’یرغمال‘
بی بی سی روسی سروس کے معاشیات کے صحافی الیکسی کالمیکوف بتاتے ہیں کہ ’مغربی پابندیوں نے روس سے اربوں ڈالر کو مغرب میں پھنسا دیا اور پوتن نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ اس نے ان تمام مغربی پیسے کو یرغمال بنا لیا جو انھیں دستیاب تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب اسے روس سے ان پیسوں کا نکالنا عملی طور پر ناممکن ہے۔‘
کلمیکوف کا استدلال ہے کہ یورپی اور امریکی کمپنیوں کو اب ایک مشکل انتخاب کا سامنا ہے۔ یا تو وہ روس میں بغیر کسی یقین دہانی کے اس امید پر پیسہ کمانا جاری رکھیں کہ وہ کبھی منافع حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے، یا روس چھوڑ دیں، لیکن یہ سب کریملن کی شرائط پر ہوں گے۔
ان شرائط میں حکام کی طرف سے مقرر کردہ قیمت پر اپنے اثاثوں کو فروخت کرنا، کم از کم 50 فیصد کی چھوٹ دینا اور روسی جنگی بجٹ میں اضافی 10فیصد کا ‘رضاکارانہ’ حصہ ڈالنا شامل ہے۔
کلمیکوف کا کہنا ہے کہ ’اس مین حیرت کی بات نہیں ہے کہ مغربی کمپنیوں کے لیے روس چھوڑنا ناممکن مشن ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہائنکن سے پوچھیں۔ ڈچ شراب بنانے والی بڑی کمپنی نے حال ہی میں ملک میں اپنا کاروبار ایک روسی خریدار کو تقریباً ایک ڈالر میں فروخت کر دیا۔‘
’دشمن‘ ممالک کی کمپنیاں
روس نے حالیہ مہینوں میں بیرون ملک روسی ملکیت کے اثاثوں کو ضبط کرنے کے بدلے میں مغربی کمپنیوں کے اثاثوں کو محدود کرنے کے لیے کئی ضابطے قائم کیے ہیں۔
اور کچھ معاملات میں بات کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ مثال کے طور پر کریملن نے ڈینش شراب بنانے والی کمپنی کارلسبرگ کے روسی کمپنی میں حصص کے ساتھ ساتھ فرانسیسی دہی بنانے والی کمپنی ڈینون کی ایک روسی ذیلی کمپنی کا کنٹرول سنبھال لیا۔
فن لینڈ کی کمپنی فورٹم اور جرمن کمپنی یونیپر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
اگست میں پوتن نے ’دشمن‘ ممالک کے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بڑی روسی کمپنیوں اور بینکوں میں حصص رکھنے پر پابندی لگانے کے قانون پر دستخط کیے، جس سے ملک میں غیر ملکی کارروائیوں پر نئی حدیں مقرر کی گئیں۔
یہ قانون نہ صرف ان ممالک کے سرمایہ کاروں کے حقوق کو محدود کرتا ہے جنھوں نے خود کو ماسکو کے ساتھ منسلک نہیں کیا بلکہ یہ بھی سہولت فراہم کرتا ہے کہ ان کے حصص کسی کمپنی کے روسی مالکان میں متناسب طور پر تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔
چونکہ کریملن نے اپنی روسی ذیلی کمپنیاں بیچ کر ملک چھوڑنے کی کوشش کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے رکاوٹیں بڑھا دی ہیں ایسے میں بہت سی بڑی کارپوریشنز جنھوں نے جنگ کے بعد روس میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا انھیں اب لاکھوں کے نقصانات کا سامنا ہے جس سے ان کے کاروبار کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان سب کا انھیں اس وقت شاید اندازہ بھی نہیں تھا جب انھوں نے جنگ کے باوجود روسی مارکیٹ میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ اپنے منافع کی واپسی کا انتظام کیسے کریں گے اور وہ اس ملک کو کیسے چھوڑیں گے جس نے سخت مشکل حالات میں پہنچا دیا ہے۔