’آپ کے تمام سابقہ محبوب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔‘
یہ وہ گفتگو ہے جو میں نے اپنی بہترین دوست کے ساتھ ماضی میں کئی بار کی ہے۔
شروع میں تو یہ ایک طرح کا مذاق ہی تھا تاہم اپنے ماضی کے رومانوی تعلقات کا تجزیہ کرنے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس ’مذاق‘ میں کہیں نہ کہیں سچائی موجود ہے۔
یہی نہیں بلکہ کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ الگ الگ روپ میں ایک ہی شخص کے ساتھ تعلق ختم ہوتا ہے، ہاں ان کے نام ضرور مختلف ہوتے ہیں۔
کچھ تعلقات کا ٹوٹنا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پریشان کن ہوتا ہے لیکن میرے رومانوی تعلقات مجموعی طور پر ناکام ہی رہے ہیں۔
اس کیفیت کو ’ڈیٹنگ ڈیژا-وو‘ (محبت کا سراب) کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو ہمیں ایک جیسی شخصیت اور یہاں تک کہ جسمانی خصوصیات کے حامل لوگوں کی طرف متوجہ ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
ایسا تب بھی ہوتا ہے جب ’خاص‘ اور ’دل کو چھو لینے والے‘ یا ’مثالی‘ ساتھی کے ساتھ تعلق بار بار ناکام ہوتا ہے۔
کینیڈا کی اونٹاریو یونیورسٹی میں محقق اور سماجی ماہر نفسیات پروفیسر جیسیکا میکسویل کا کہنا ہے کہ ڈیٹنگ ڈیژا-وو طویل عرصے سے جاری اس مفروضے سے نکلا ہے کہ ’ہم سب کی ایک خاص ٹائپ یعنی قسم ہے اور یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کی مجھ سمیت بہت سے سکالرز حمایت کرتے ہیں۔‘
پروفیسر جیسیکا نے بی بی سی منڈو کو مزید بتایا کہ ’یہ سچ ہے کہ کچھ لوگ ہمیشہ ایک ہی قسم کے ساتھی کو تلاش کرتے ہیں اور ڈیٹنگ میں اسی رجحان کی طرف راغب ہوتے ہیں۔‘
یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کے بارے میں سکالرز بخوبی واقف ہیں اور یہ ہرگز ضروری نہیں کہ وہ اس اصطلاح کا استعمال کریں۔
پہلی نظر میں محبت کی بار بار دہرائی جانے والی کہانی
ماہر نفسیات لیزلی بیکرز فیلپس اپنی کتاب ’ان سیکیور ان لوو‘ (Insecure in Love) میں بتاتی ہیں کہ ہم عام طور پر ’ڈیژا-وو‘ کے بارے میں اس وقت بات کرتے ہیں جب کوئی شخص مشکل تعلقات کو دہراتا ہے تاہم اس کے مثبت تجربات بھی سامنے آئے ہیں۔
’ہو سکتا ہے آپ کو پہلی نظر میں پیار ہوگیا ہو اور آپ اس محبت کی کہانی کو دہرانا چاہتے ہوں۔‘
ماہر نفسیات لز کے مطابق ’ہمارے پاس اکثر ایسے لوگ آتے ہیں جو زندگی بھر ایک ہی جیسی محبت کی مثالوں کو دہراتے ہیں، جو ڈیٹنگ کی دنیا میں بہت زیادہ عام ہے۔‘
’ہم ایک جیسی خصلتوں والے افراد کو تلاش کرنے اور ان سے محبت کرنے کا رجحان رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہم سے واقف ہیں اور ہم اس سے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔‘
اٹیچمنٹ تھیوری
دونوں ماہرین نفسیات اس کی وجہ اٹیچمنٹ تھیوری کو قرار دیتے ہیں، یعنی جب کوئی شخص ایک ہی وجہ سے بار بار محبت میں دھوکہ کھائے۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد برطانوی ماہر نفسیات جان بولبی نے بتایا کہ یہ ایک نفسیاتی اور ارتقائی رجحان ہے جو انسانی رشتوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس کی دلیل میں انھوں نے کہا کہ چھوٹی عمر سے ہی ہم دیکھ بھال کرنے والے اشخاص کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں جو عام طور پر ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ مستقبل کے ساتھی کی تلاش میں اس تعلق کا بڑا کردار ہوتا ہے۔
اس تھیوری کے مطابق اٹیچمنٹ کی چار اقسام ہیں: محفوظ، فکر مند، اجتناب اور متضاد۔
ماہرین نفسیات کے مطابق اگر بچپن میں آپ کے والدین آپ کی ضروریات کو وقت پر مناسب انداز میں پورا کرتے ہیں تو اس سے آپ کا ان کے ساتھ اچھا تعلق بنتا ہے۔
لیکن اگر آپ کے والدین حد سے زیادہ محتاط، دخل اندازی کرنے والے یا نظرانداز کرنے والے ہیں تو ممکنہ طور پر آپ کا ایک غیر محفوظ لگاؤ ہوگا جو بعض لوگوں کو اکثر خراب تعلقات ختم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اونٹاریو میں میک ماسٹر یونیورسٹی کی ایک محقق ماہر نفسیات جیسیکا میکسویل نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ہم اپنے لگاؤ کے رویے کو تبدیل کرنے پر کام نہیں کرتے تب تک ہم اسی رجحان میں پھنسے رہتے ہیں۔
ان کی رائے میں اگر ہمارے والدین ہمیں نظر انداز کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ ہمارے مستقبل کے تعلقات میں بھی پارٹنر کی جانب سے نظر انداز کیا جانا عام ہو۔ ’مگر اس سے ایسے پارٹنر مل سکتے ہیں جو آپ پر بہت زیادہ انحصار کریں یا آپ سے بہت زیادہ فاصلہ رکھیں۔‘
مصنفہ لیسلی بیکر فیلپس اپنی کتاب ’ان سیکیور ان لو‘ میں بتاتی ہیں کہ کس طرح بالغ افراد کے درمیان اچھے اور محفوظ رومانوی تعلق کی راہ میں اٹیچمنٹ سے رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق رومانوی تعلق میں ’فکر مندی‘ حسد اور پریشانی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو فکرمند یا پرہیزگارانہ لگاؤ رکھتے ہیں، ان میں ایسی حرکات کو دہرانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جو پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔
ان کے مطابق ڈیٹنگ ڈیژا وو عدم تحفظ کے رویے سے ہوسکتا ہے جو بچپن میں پیدا ہوا ہو۔
’اگر آپ اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو محبت کا مستحق ہے اور کوئی آپ کی اس جذباتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دستیاب ہوتا ہے تو آپ میں ایک صحت مند رشتہ استوار کرنے کا امکان پایا جاتا ہے۔‘
’لیکن جو لوگ اپنے آپ کو ناپسندیدہ یا محبت کے لائق نہیں سمجھتے وہ اپنی جذباتی ضرورت کے لیے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں تاکہ وہ خود اپنے بارے میں بہتر محسوس کریں۔‘
بیکرز فیلیپس کا کہنا ہے کہ فکرمندانہ لگاؤ رکھنے والے افراد ایک ایسے شخص کے ساتھ اچھا تعلق استوار کر سکتے ہیں جو ان کی یہ ضرورت پوری کرے۔
’بدقسمتی سے ان کے لیے یہ عام بات ہے کہ وہ اجتناب کے رویے کے حامل پارٹنرز کے ساتھ تعلقات میں پھنس جاتے ہیں تاہم وہ شخص انھیں اپنے سے نیچے رکھتا ہے اور دور رہنا پسند کرتا ہے۔‘
عام طور پر یہ تعلقات ایک ایسے دائرے میں ختم ہو جاتے ہیں جس میں پریشان کن لگاؤ رکھنے والا شخص ایسے محبوب سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو فکر کے رویے کے باعث اس کا خیال رکھتے ہوئے بہت قریب آ جاتا ہے۔ تاہم پریشان کن لگاؤ والا شخص اس سے ضرورت کے مطابق تھوڑا سا پیار پا کر دور ہو جاتا ہے۔
یہ ایک ایسی متحرک چیز ہے جو برسوں تک چل سکتی ہے اور جو ماہر نفسیات کے مطابق ڈیٹنگ ڈیژا وو میں سب سے زیادہ عام ہے۔
انفرادی ترجیحات
جیسیکا میکسویل نے یقین دلایا کہ خود اعتمادی میں کمی جیسے دیگر عوامل بھی ڈیٹنگ ڈیژا وو کو متحرک کر سکتے ہیں۔
پرسنالٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی بلیٹن نامی جریدے میں رواں سال اپریل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بڑی عمر کے شرکا میں وقت کے ساتھ خوبصورتی، مزاح اور ذہانت جیسے پہلوؤں کی اہمیت کم ہوتی دیکھی گئی ہے۔
مگر 13 سال کے دورانیے میں مردوں اور عورتوں نے گرم جوشی، ایمانداری اور خود اعتمادی جیسی عادات کو اہمیت دی ہے۔
لہٰذا جو آپ اپنے پارٹنر میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ عادات آپ میں خود ضرور ہوتی ہیں۔
ذہن کھلا رکھنا ضروری کیوں
بیکر فیلیپس کے مطابق ایک ہی قسم کے شخص کے ساتھ بار بار محبت کے رجحان کو روکنے کے لیے آگاہی اور ہمدردی ضروری ہیں۔
’خود کو قصوروار ٹھہرائے یا بُرا محسوس کرائے بغیر بھی آپ یہ غلطی دہرانے سے بچ سکتے ہیں۔‘
اس رجحان کی شناخت کر کے آپ اپنے اختیارات کی درستی کر سکیں گے اور فیصلہ کر سکیں گے کہ آیا آپ کسی نئے شخص کو آزمانے کے لیے تیار ہیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ صحت مند اور کامیاب تعلقات کی کلید ایک حساس ساتھی کے ساتھ ہونا ہے جو آپ کی ضروریات کو پورا کرتا ہے، یعنی ’کوئی پیار کرنے والا جو آپ کو سمجھنے اور آپ کی حمایت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور جو آپ کی توثیق کرتا ہے۔‘
میکسویل کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہمیں اس خیال کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے کہ آپ اپنے رومانوی ساتھی کو بالکل اپنے ذوق کے مطابق حاصل کر پائیں گے۔
’یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صرف ایک ہی قسم کا انسان نہیں ہے جس کے ساتھ آپ خوش رہ سکتے ہیں بلکہ خوشی تلاش کرنے کے لیے آپ کو اپنا ذہن بالکل کھلا رکھنا ہوگا۔‘