حال ہی میں سکھر کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے اپنے طلبہ کو بذریعہ ای میل وارننگ دی کہ ’اگر کوئی فری لانس کام کرتا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ دینا پڑے گا۔‘
طلبہ نے فوراً اس تنبیہ کی شدید مخالفت کی، جیسے کرن خان نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ یونیورسٹی میں ’فوٹو کاپی ہی اتنی مہنگی ہے۔ فیس کے علاوہ اتنی اسائنمنٹس اور نوٹس کے پیسے انھی کاموں سے پورے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی بالغ کو روزمرہ کے خرچوں کے لیے پیسے کمانے سے نہیں روک سکتا۔‘
ادارے کی وارننگ کے بعد کرن کی طرح کئی لوگوں نے ناراضی ظاہر کی۔ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ ’اگر ان کو طلبہ کی اتنی فکر ہے تو انھیں اپنی فیس کم کر دینی چاہیے۔‘
مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثرہ کئی پاکستانیوں کے لیے پیسے کمانا فری لانسنگ کے ذریعے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔
پاکستانی طلبہ پڑھائی کے دوران فری لانسنگ کرنے پر کیوں مجبور؟
آئی بی اے کی تنبیہ پر اکثر طلبہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ایک تعلیمی ادارہ طلبہ کو آمدن کمانے اور خود کفیل ہونے سے کیسے روک سکتا ہے۔
ہم نے سکھر میں آئی بی اے کی انتظامیہ سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’یہ ای میل طلبہ کو ایک وارننگ کے طور پر بھیجی گئی تھی کیونکہ پوری کلاس لیب میں فری لانسنگ کرنے میں مصروف تھی جبکہ ٹیچر کلاس میں انتظار کر رہے تھے۔‘
واضح رہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی ہے کہ طلبہ کے لیے 75 فیصد حاضری لازمی ہے۔
ادارے نے اس ای میل کو جلد ہی واپس لے لیا اور اب سٹوڈنٹس کو بتایا گیا ہے کہ وہ ’ایک مخصوص وقت میں فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔‘
یہاں سوال یہ ہے کہ آخر طلبہ اپنی پڑھائی کے دوران کام کیوں کرتے ہیں۔
پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے طالبعلم داؤد قیوم کہتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران ہونے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ ’میں پشاور میں عینک اور بچوں کے کھلونے وغیرہ روڈ کنارے یا فُٹ پاتھ پہ بیچتا ہوں اور اس سے اپنے ہاسٹل کا خرچہ نکالتا ہوں۔ دن میں تقریباً تین سو سے پانچ سو تک کماتا ہوں۔‘
لیکن اُن کا خیال ہے کہ تعلیم کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
داؤد کے بقول ’یہ تعلیم پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ اُن کے دماغ میں یہ چل رہا ہوتا ہے کہ شام کو روٹی کیسے ملے گی۔ وہ خرچہ اور فیس وغیرہ کہاں سے پورا کریں گے۔ تو اس کی وجہ سے آدھا دماغ کام کی طرف جاتا ہے۔‘
دنیا بھر میں بیشتر طلبہ اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مختلف کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ رجحان عام ہے۔
ماضی میں اکثر سٹوڈنٹس کی پہلی ترجیح اپنے اور دوسروں کے گھروں یا سینٹرز میں جا کے ٹیوشن دینا ہوتی تھی۔ البتہ اب دور بدل گیا ہے اور انٹرنیٹ نے بہت سے مواقع پیدا کر دیے ہیں۔
طلبہ فری لانسنگ کے مختلف کاموں کے ذریعے پیسے بنا رہے ہیں۔ کچھ طلبہ سیلز پرسن ہیں تو کچھ بطور فوڈ ڈیلیوری رائیڈر کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو رائیڈ ہیلنگ ایپس کے ساتھ ڈرائیونگ کر کے آمدن حاصل کرتے ہیں۔
کیا پارٹ ٹائم کام کرنے سے پڑھائی متاثر ہوتی ہے؟
بیشتر طلبہ کا خیال ہے کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران ہی خود کفیل ہو کر اپنے والدین پر پڑنے والے معاشی بوجھ کو بانٹنا چاہتے ہیں۔ لیکن ملازمت کی وجہ سے اُن کی پڑھائی کا کتنا حرج ہوتا ہے؟
کراچی کی ایک مقامی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے سٹوڈنٹ انس الرحمان بطور ٹیچر ایک ادارے میں پڑھاتے بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی اُن کی اپنی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ ’جیسے ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میرے سٹوڈنٹس کا پرچہ تھا اور میرے اپنے بھی امتحانات چل رہے تھے۔‘
گھر میں ہی ٹیوشنز دینے والی کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے نام ظاہر کیے بنا کہا کہ ’اگر کام نہیں کر رہی ہوتی تو ظاہر سی بات ہے ٹائم زیادہ بچتا اور ہم اپنی سٹڈیز پہ زیادہ توجہ دے سکتے۔‘
کراچی کی محمد علی جناح یونیورسٹی میں گریجویشن کی ایک طالبہ بولیں کہ ’بیکنگ کا بہت زیادہ شوق ہے جو میں کر نہیں پاتی کیونکہ ٹائم مینیج نہیں ہو پاتا۔‘
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ آیا جاب کرنے والے طلبہ کو اپنے تعلیمی ادارے کی کتنی سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ تاریخ کی سٹوڈنٹ کائنات بلوچ کراچی یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سینٹر فار یورپ کی طالبہ ہیں۔
خوش قسمتی سے اُنھیں بطور ریسرچ اسسٹنٹ ایک سرکاری ادارے میں کام مل گیا اور اُن کے تعلیمی ادارے نے اُنھیں مکمل سپورٹ کیا۔ اُن کے ٹیچرز نے دیگر طلبہ کو اپنے کلاس نوٹس کائنات سے شیئر کرنے کی تلقین کی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ریسرچر ہوں، مجھے سائٹ پہ جانا پڑتا ہے۔ کانفرنسز ہوتی ہیں، اُن کی تیاری کرنی پڑتی ہے تو ایسے میں میرے تعلیمی ادارے کی طرف سے سپورٹ ملی۔‘
لیکن تھکا دینے والے سفر، پراجیکٹس اور اسائنمنٹس کی وجہ سے روزانہ ایک رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ یہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔
اسی طرح محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کے ایک طالبِ علم آفاق احمد نے بتایا کہ ’یونیورسٹی کی بہت بڑی سپورٹ ہوتی ہے جیسے جب ہماری رجسٹریشن ہوتی ہے تو ہم ایڈوائزر کو بتا دیتے ہیں کہ ہم ساتھ ساتھ جاب بھی کر رہے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ کافی تعاون کرتے ہیں۔‘
پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ لڑکیوں کو ایک مخصوص وقت کے بعد ہاسٹل سے باہر رہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کے بقول ’ہاسٹل میں رہتے ہوئے ہم فری لانس کام کرتی ہیں لیکن ہاسٹل سے باہر ہم جاب نہیں کرسکتیں۔‘
’یہ سب ترجیحات کا کھیل ہے‘
فری لانسنگ یا سائڈ جاب کرنے کے پیچھے ہر سٹوڈنٹ کی الگ وجہ ہو سکتی ہے۔ اور کچھ کے لیے یہ مجبوری بھی ہو سکتی ہے۔
پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ فُل ٹائم یعنی دن کے آٹھ گھنٹے کام کرنے کا وعدہ نہیں کر سکتے اور ایسے میں آپ کی کام کرنے کی چوائسز بھی محدود ہو جاتی ہیں۔
ممکن ہے کہ تعلیمی دور میں کی جانے والی محنت کا مستقبل میں ثمر ملے لیکن کام کاج کے چکر میں سٹوڈنٹس کے گریڈز متاثر ہونے کا خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ وقت کی پابندی اور اس کا درست اور بھرپور استعمال اس خدشہ کو ختم کرسکتا ہے۔
کیریئر کونسلر سعد مسعود کہتے ہیں کہ ’یہ سب ترجیحات کا کھیل ہے۔ جب آپ جاب کریں گے تو کچھ وقت تو صرف ہوگا اُس پہ لیکن اگرآپ بندھے ہوئے اوقاتِ کار پر چلیں اور اپنے ٹارگٹس کو سامنے رکھیں تو ایسا ہوسکتا ہے کہ ہمیں اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا پڑے تاکہ ہم اپنے گریڈز پہ کامپرومائز نہ کریں۔
’ہیں تو چوبیس گھنٹے ہی نا تو اُس میں ہوسکتا ہے کہ کچھ گھنٹے اگر جاب پہ جارہے ہیں تو پڑھائی کا ٹائم نسبتا کم ملےگا۔ تو ایسے بچے کو اپنی کچھ سوشل کائف کامپرومائز کرنی پڑے گی، اپنے کچھ ذاتی ٹائم کو کامپرومائز کرنا پڑے گا۔‘
سٹوڈنٹ فری لانسنگ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر دور میں لوگوں نے اخراجات اور دیگر وجوہات کے تحت پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کیا ہے۔
گرافک ڈیزائنر اور فوٹو گرافر محمد حسن مصطفی نے کالج کے دور میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا اور اب وہی کام ان کا ذریعہ معاش ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’سٹوڈنٹس کو ہر وقت پیسوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کام نے میرا بہت زیادہ ساتھ دیا۔ شروعات میں نے ویڈنگ فوٹوگرافی سے کی۔ اپنے حلقہ احباب میں کام کرنا شروع کیا تو کبھی کسی دوست کے گھر تو کبھی کسی رشتہ دار کےلیے۔ بہت سا کام مفت بھی کرنا پڑا۔ لیکن اب یہ کام مکمل طور پر میرا ذریعہ معاش بن چکا ہے۔‘
لیکن محمد حسن کی بیچلر ڈگری ایوی ایشن مینجمنٹ میں ہے۔ سٹوڈنٹس کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اس کا خاطر خواہ سکوپ نہ ہونے کی وجہ سے اب یہی کام میں فُل ٹائم کر رہا ہوں۔ تمام نئے سٹوڈنٹس کو میرا یہی مشورہ ہوگا کہ اپنی ڈگری اپنا کریئر اس پیشہ میں چُنیں، جس کا آپ کو شوق ہے۔ تاکہ آپ اس کو انجوائے کرسکیں اور وہ آپ کو بوجھ نہ لگے۔‘
کام کوئی بھی ہو، چند پیسوں کے علاوہ اگر فوری طور پر آپ کو اُس کا کوئی بڑا فائدہ نہیں ہو رہا تو تجربہ ضرور ملتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر متعلقہ فیلڈ میں ہی سٹوڈنٹ کو تجربہ مل جائے تو بعض اوقات مستقبل میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔
سعد مسعود نے کہا کہ ’بہت سارے سٹوڈنٹس ایسے ہیں جو ٹیوشنز کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اگر وہ انجینیئرنگ کر رہے ہیں یا ڈاکٹر بن رہے ہیں تو وہ متعلقہ مضامین چھوٹے سٹوڈنٹس کو پڑھاتے ہیں۔ اُس میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کی مضمون پر گرفت بہتر ہوجاتی ہے کیونکہ ایک عام انسانی نفسیات ہے کہ ہم جو بھی چیز بار بار کرتے ہیں ہم اُس میں بہتر ہوجاتے ہیں۔‘
’اگر یہی سٹوڈنٹس کسی ایک کے بجائے کسی گروپ کو یا ٹیوشن سینٹر میں پڑھانے لگیں تو اُن کی پریزینٹیشن کی صلاحیت بھی بہتر ہوسکتی ہے۔ اُن میں سٹیج کا سامنا کرنے کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے۔‘
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ اب تعلیم مکمل کر کے جب سٹوڈنٹس پیشہ ورانہ دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی ڈگری کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتیں، تجربہ اور پروفیشنل پورٹ فولیو کو بھی ترجیح دی جاتی ہے۔
سٹوڈنٹ فری لانسنگ طلبہ کو یہ سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہے کہ مستقبل میں آپ کو کیا کام کرنا چاہیے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ یونیورسٹیز بھی اپنے نظام میں لچک پیدا کریں کہ سٹوڈنٹس کے لیے پڑھائی کے ساتھ کام کرنے کی گنجائش اور آسانی پیدا ہوسکے۔ البتہ اپنے گریڈز کی ذمہ داری خود سٹوڈنٹس پر ہوگی۔