سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
کرکٹر سندیپ پاٹل لکھتے ہیں کہ ’انڈیا مقابلے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ پچھلے دو کرکٹ ورلڈ کپس میں اس نے شاید ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس لیے ہم انڈیا سے روانہ ہوئے تو عملی طور پر چھٹی کے موڈ میں تھے۔ کرکٹ ہماری پہلی ترجیح نہیں تھی۔‘
مگر ہوا یہ کہ انڈیا نہ صرف سیمی فائنل میں پہنچ گیا بلکہ اس نے اپنے مقابل اور مسلسل تیسرے ورلڈ کپ کے میزبان انگلینڈ کو شکست بھی دے دی۔
انڈیا کو اب 25 جون کو لارڈز کے میدان میں فائنل میں پچھلے دو مقابلوں کے فاتح ویسٹ انڈیز کا سامنا تھا جس نے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا۔
فائنل کھیلنے کے باوجود انڈیا کو لارڈز کے دو پاس نہ ملے
کرکٹ مؤرخ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ انڈیا کے سابق وزیر تعلیم سدھارتھ شنکر رے اُن دنوں نجی دورے پر انگلینڈ میں ہی موجود تھے۔ انڈیا فائنل میں پہنچا تو انھوں نے انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر این کے پی سالوے سے یہ میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔
’سالوے نے انگلش کرکٹ بورڈ (ایم سی سی) سے دو ٹکٹوں کے حصول کی درخواست کی۔ گو انڈیا فائنل کھیل رہا تھا مگر اس درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ لارڈز پر پہلا حق ایم سی سی ارکان کا ہے اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اضافی ٹکٹ نہیں دیے جا سکتے۔‘
’سالوے کو اس پر بہت غصہ آیا اور اس معاملے میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے چیئرمین ایئر چیف مارشل نور خان کی حمایت بھی مل گئی۔‘
اس پر مستزاد یہ کہ فائنل مقابلے میں ایم سی سی اراکین کے لیے گراؤنڈ میں مخصوص نشستوں میں سے آدھی خالی رہیں کیونکہ انگلینڈ کے فائنل میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ مقابلہ دیکھنے ہی نہ آئے۔
ٹکٹیں تو نہیں مل سکیں مگر کپل دیو کی قیادت میں انڈیا نے 1983 کے ورلڈ کپ کا فائنل جیت لیا۔
کیوں نہ اگلے ورلڈکپ کے میزبان انڈیا اور پاکستان ہوں؟
اگلے روز لنچ پر سالوے اور نور خان پھر اکٹھے تھے۔
پیٹراوبورن پاکستانی کرکٹ کی تاریخ پر اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سالوے ٹکٹیں نہ ملنے پر شدید غصے میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ کاش فائنل انڈیا میں ہوتا۔‘
نور خان فوراً بولے: ’ہم اگلا ورلڈ کپ اپنے ملکوں میں کیوں نہیں کھیل سکتے؟‘
سالوے نے فوراً نور خان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ (سالوے نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعے کو یوں ہی بیان کیا ہے۔)
اوبورن لکھتے ہیں کہ ’پہلے دونوں کو اپنی اپنی حکومتوں کو قائل کرنا تھا۔ نور خان کے جنرل ضیا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور سالوے تھے ہی (انڈیا کے وزیرِاعظم) راجیو گاندھی کی کابینہ کے وزیر۔‘
اسی سال 1983 میں نور خان نے پہلی ایشیئن کرکٹ کانفرنس کے انعقاد میں مدد کی جہاں یہ تجویز پیش کی گئی اور انڈیا، پاکستان اور سری لنکا نے جنوبی ایشیا میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی تجویز کا بھرپور خیر مقدم کیا۔
سری لنکن بورڈ کے سربراہ گامنی ڈسانائیکے نے اس شرط پر ہاں میں ہاں ملائی کہ اُن کے ملک کا اس ایونٹ میں کوئی مالیاتی حصہ نہیں ہو گا، یوں ایک طرح سے یہ انڈیا اور پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کے مشترکہ خواب کو تعبیر کریں۔
اوبورن کے مطابق ’سالوے اور نور خان نے ایشین کرکٹ کونسل بنائی۔ اس کی تشکیل میں سری لنکا نے بھی ساتھ دیا، جسے تازہ تازہ ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ ملا تھا۔ بنگلا دیش، ملائشیا اور سنگا پور دیگر بانی ارکان تھے اور سالوے اس کے پہلے صدر بنے۔ یوں عالمی کرکٹ میں ایک نئے ووٹنگ بلاک کا اضافہ ہوا۔ رسمی تجویز کا مسودہ تیار کیا گیا۔ دوسری جانب آئی سی سی نے ورلڈ کپ کی میزبانی کسی اور ملک کو دینے کی تجویز کی مخالفت میں قانونی اعتراضات کا استعمال کیا۔‘
انڈیا اور پاکستان کو اس کی توقع تھی
اُس دور میں کرکٹ کا ڈھانچا بہت مختلف تھا۔
کش سنگھ لکھتے ہیں کہ ’انگلش کرکٹ بورڈ کا سربراہ خود بخود آئی سی سی کا سربراہ بن جاتا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے پاس ویٹو کا اختیار تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایشیئن بلاک کی تجاویز کو ایم سی سی بغیر وضاحت کے بھی مسترد کر سکتا تھا۔‘
نور خان نے انڈیا، پاکستان جوائنٹ مینجمنٹ کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی اور این کے پی سالوے کو اس کی سربراہی کے لیے کہا جبکہ بِندرا اس کے سیکریٹری بنے۔
’ایک غیر رسمی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر جگموہن ڈالمیا نے آئی سی سی کے لیے اپنی تجویز میں لکھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کو پوری دنیا میں گھمایا جائے اور 1987 کے بعد آسٹریلیا کو 1992 میں کپ کی میزبانی کا حق دیا جائے۔‘
اور یوں پہلی دراڑ پیدا ہوئی۔
’آسٹریلین کرکٹ بورڈ( اے سی بی) کے چیئرمین فریڈ بینیٹ نے پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ بورڈز کو ضمانت دی کہ آسٹریلیا خفیہ رائے شماری میں اُن کی تجویز کے حق میں ووٹ دے گا۔ بینیٹ نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز کو ویٹو نہیں کریں گے۔‘
’آئی سی سی میں کل ووٹ 37 تھے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے آٹھ ممالک کے دو، دو کے حساب سے 16 ووٹ تھے اور باقی ووٹ ایسوسی ایٹ ممالک کے تھے۔ انگلینڈ آئی سی سی کے وسائل کا صرف 40 فیصد ایسوسی ایٹ ممالک کو دیتا تھا۔‘
’آئی پی جے ایم سی نے ایسوسی ایٹ ممالک کو اس سے چار گنا ریونیو کی پیشکش کی جو انگلینڈ انھیں دے رہا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کو پانچ گنا زیادہ آمدنی کی پیشکش کی جو انگلینڈ اس وقت تک دے رہا تھا۔‘
’نسیم حسن شاہ میز پر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دیا‘
آئی پی جے ایم سی نے ووٹنگ میں 16-12 سے کامیابی حاصل کی لیکن انگلینڈ نے اعتراض اٹھا دیا۔
امرت ماتھر لکھتے ہیں کہ انگلینڈ کے حکام نے کہا کہ انھوں نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے نسیم حسن شاہ کی ووٹنگ نہیں دیکھی کیونکہ اُن کا قد چھوٹا تھا۔ (نسیم حسن شاہ بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے۔)
اس پر جسٹس شاہ غصے میں آ گئے اور دوبارہ گنتی کے دوران میز پر دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا کر کھڑے ہو گئے۔
رقم کا بندوبست
دونوں ممالک کو ایک بڑے بین الاقوامی ٹورنامنٹ کے لیے درکار رقم کا بندوبست کرتے ہوئے اس کے انعقاد کی اپنی صلاحیت کے بارے میں گہرے تعصب پر قابو پانا تھا۔
اوبورن لکھتے ہیں کہ ’نور خان اور سالوے اپنی اپنی حکومتوں کو ورلڈ کپ پراجیکٹ کے لیے سٹیڈیم اور کرکٹ ڈھانچے کی بہتری کے لیے پیسہ لگانے پر راضی کرنے میں کامیاب رہے۔‘
ماتھر لکھتے ہیں کہ ’سالوے نے لندن میں مقیم ایک انڈین تاجر سے ملاقات کی جس نے آسانی سے ادائیگی کرنے اور ورلڈ کپ کو سپانسر کرنے کی پیشکش کی۔‘
انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو یہ اچھا نہ لگا۔ گاندھی نے اپنے اس وقت کے وزیر خزانہ (اور بعد میں سیاسی حریف) وی پی سنگھ کو ہدایت کی کہ وہ بی سی سی آئی کو مطلوبہ رقم جاری کریں۔‘
اب ایک متبادل ٹائٹل سپانسر کی تلاش تھی۔ سالوے اور بندرا نے ملک بھر کے کاروباری افراد کے ساتھ بات چیت کی جس کے بعد وہ ٹیکسٹائل ٹائیکون دھیرو بھائی امبانی کے نام پر متفق ہوئے۔
بِندرا کے مطابق معاہدے پر دستخط کرنے کے وقت امبانی کی ایک شرط تھی کہ وہ ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ایک نمائشی میچ میں انڈین وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھیں گے، جسے قومی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔
’یعنی یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ انڈین کمپنی ریلائنس کے حکومت کے ساتھ گرم جوش تعلقات ہیں۔‘
اوبورن لکھتے ہیں کہ ریلائنس نے 70 ملین روپے (تب کے زرمبادلہ کے سرکاری ریٹ کے مطابق 4.7 ملین پاؤنڈ کے برابر) رقم کی پیشکش کی اور یوں سالوے اور نور خان اس قابل ہوئے کہ انگلینڈ کے مقابلے میں دیگر بورڈز سے 50 فی صد زیادہ انعامی رقم کا وعدہ کر سکیں۔
یوں آئی پی جے ایم سی نے 1987 کے آئی سی سی ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق حاصل کر لیے لیکن انگلش کرکٹ بورڈ کے حکام اس کے بعد بھی کئی سالوں تک قانونی اعتراضات اٹھاتے رہے۔
اوورز پہلی مرتبہ کم ہو کر پچاس ہوئے
اوبورن کے مطابق ‘اب انگلینڈ کا اعتراض تھا کہ انڈیا اور پاکستان میں چونکہ سورج جلدی غروب ہو جاتا ہے اس لیے دن بھر میں ساٹھ اوور کا میچ ہونا ناممکن ہے (یاد رہے کہ تب فلڈ لائٹس میچ نہیں ہوتے تھے)۔ اس پر سالوے اور نور خان کا سادہ سا جواب تھا: ’میچوں کو 50 اوورز کا کر دیں۔‘
انگلینڈ کی طرف سے اگلا شبہ براڈکاسٹنگ کی صلاحیت کے بارے میں تھا، مگر آئی سی سی کو یہ اعتراض دور کرنے کا بھی یقین دلایا گیا۔
ماتھر کے مطابق سالوے اور بندرا کو قومی نشریاتی ادارے دور درشن سے بھی نمٹنا پڑا جس نے ورلڈ کپ کی کوریج کے عوض میزبانوں سے رقم کا مطالبہ کیا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے راجیو گاندھی سے کہنا پڑا۔ دوسری جانب پی ٹی وی پاکستان میں اس ایونٹ کی کوریج کر رہا تھا۔
’معیاری کوریج کو یقینی بنانے کے لیے بی بی سی کے ایک ماہر کیتھ میکنزی کو پروڈکشن کی سربراہی اور نشریات کے تکنیکی پہلوؤں کی نگرانی کے لیے رکھا گیا۔ ان احتیاطی تدابیر کے باوجود، کبھی کبھار معاملہ بگڑ جاتا۔‘
اگلا اعتراض ٹیموں کے انڈیا اور پاکستان میں ایک سے دوسری جگہ سفر کے بارے میں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ انگلینڈ میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا لیکن پاکستان اور انڈیا دو بہت بڑے ملک ہیں۔ اس کے جواب میں، سول ایوی ایشن کے حکام نے اعلان کیا کہ وہ ورلڈ کپ کے پروگرام کے مطابق اپنے فلائیٹ شیڈول کو ایڈجسٹ کریں گے۔
سب کچھ ہو چکا تو 1986 کے آخر میں، انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد پر فوجی کشیدگی بڑھنے لگی۔ اس پر انگلینڈ اور آسٹریلیا نے فوری طور پر ٹیموں کی سکیورٹی خدشات کا مسئلہ اٹھا دیا۔
ماتھر لکھتے ہیں کہ ’اسلام آباد کے باہر مری میں ہونے والے ورلڈ کپ کے اجلاس میں پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے کشیدگی کا ذمہ دار انڈین فوج کو ٹھہرایا۔ بِندرا، جن کا تعلق ضیا کی طرح پنجاب کے شہر جالندھر سے تھا، نے تعطل کو توڑنے کے لیے جنرل ضیا کو انڈیا کے دورے کا مشورہ دیا۔‘
بندرا یاد کرتے ہیں کہ ضیا نے ان سے پوچھا، ’کیا انڈیا کے وزیر اعظم مجھے مدعو کریں گے؟ بِندرا کا جواب تھا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ بس آ جائیں۔‘
’ضیا نے اتفاق کیا اور عالمی کپ سے آٹھ ماہ قبل فروری 1987 میں جے پور میں پاکستان اور انڈیا کا ٹیسٹ دیکھنے جا پہنچے۔ اس کے بعد سے کشیدگی کم ہوئی اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعاون کی کمی کے خدشات دور ہو گئے۔‘
کش سنگھ کے مطابق کرکٹ کی باقی دنیا کے لیے پیغام واضح تھا اور جب 1987 کے آئی سی سی ورلڈ کپ کی میزبانی کی بات آئی تو انڈیا اور پاکستان ایک تھے۔
انڈیا اور پاکستان یہ ورلڈ کپ تو نہ جیت پائے مگر یہ دونوں ملک کرکٹ کی دنیا کو ناقابل ِ شکست وسعت عطا کر چکے تھے۔