غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو یکم نومبر تک پاکستان چھوڑنے کا حکم: 30 لاکھ افغان باشندوں کو نکالنا کتنا مشکل ہو گا؟

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو رضا کارانہ طور پر یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دیے گئے وقت میں ایسے افراد واپس نہیں جاتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے انھیں ڈی پورٹ کریں گے۔

منگل کو وزارت داخلہ میں وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی اجلاس کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی افراد کو ہم نے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔

’اگر وہ رضاکارانہ طور پر یکم نومبر تک اپنے اپنے ممالک میں واپس نہیں جاتے تو ریاست کے جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے وہ اس ڈیڈ لائن کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔‘

سرفراز بگٹی کے مطابق ’کسی بھی پاکستانی کی فلاح اور سکیورٹی ہمارے لیے سب سے زیادہ مقدم ہے اور کسی بھی ملک یا پالیسی سے زیادہ اہم پاکستانی قوم ہے۔ ہم 10 سے 31 اکتوبر تک اس کی اجازت دے رہے ہیں اور اس کے بعد پاسپورٹ اور ویزا پالیسی لاگو ہو گی۔‘

واضح رہے کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ان غیر ملکیوں میں بہت بڑی تعداد افغان باشندوں کی ہے جو پاکستان کے طول و عرض میں مقیم ہیں۔

یورپی یونین کے ادارہ برائے پناہ گزین (ای یو اے اے) کی مئی 2022 میں ریلیز ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 30 لاکھ افغان شہری رہائش پذیر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے 14 لاکھ وہ ہیں جو ’پی او آر‘ کارڈ (پروف آف رجسٹریشن) ہولڈر ہیں جبکہ ساڑھے آٹھ لاکھ افغان شہری ہیں جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہے جبکہ سات لاکھ 75 ہزار کے لگ بھگ ایسے ہیں جن کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔

یاد رہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں کئی روز سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اُن افغان باشندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں جو مبینہ طور پر شدت پسند اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رہنے کے لیے درکار کوئی دستاویزی ثبوت نہیں رکھتے۔

یورپی یونین کے ادارہ برائے پناہ گزین کی رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے حکومت قائم ہونے کے بعد سے فروری 2022 کے دوران اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات کی بنیاد پر لگ بھگ ایک لاکھ 17 ہزار نئے پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔

’تمھیں تھانے چلنا ہو گا کیونکہ تم غیرقانونی ہو‘

یادر ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ باضابطہ اعلان کے سامنے آنے سے قبل بھی کئی روز سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اُن افغان باشندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیے رکھی تھیں جو مبینہ طور پر شدت پسند اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رہنے کے لیے درکار کوئی دستاویزی ثبوت نہیں رکھتے تھے۔

پاکستان میں مقیم ایسے ہی ایک افغان خاندان سے تعلق رکھنے والے نسیم (فرضی نام) سے بی بی سی نے بات کی جو افغانستان کے صوبہ جلال آباد سے چار سال پہلے اپنے بیوی بچوں، ایک بھائی، بھابھی، ان کے بچوں اور اپنے والد کے ہمراہ پاکستان آئے تھے۔

’میں کئی دن سے روزگار کے سلسلے میں سبزی منڈی نہیں جا سکا۔ گھر سے نکلتا ہوں تو یہی خوف ہوتا ہے کہ کہیں پولیس گرفتار نہ کر لے۔ چار سال پہلے باقاعدہ ویزا پر پاکستان آیا تھا مگر پھراس کی معیاد ختم ہو گئی اور پھر دوبارہ ویزا نہیں لگ سکا اور اب میں قانون کی نظر میں غیرقانونی شہری ہوں۔‘

نسیم گذشتہ ہفتے اپنے بھائی کے ہمراہ رکشے میں سبزی منڈی جا رہے تھے جب ایک عارضی پولیس چیک پوسٹ پر انھیں روکا گیا۔

’پولیس نے شناختی دستاویزات طلب کیں۔ میرے بھائی نے اپنی دستاویزات تو نہیں دکھائیں مگراپنی اہلیہ کا پاکستانی کارڈ دکھایا جس پر شوہر کے خانے میں ان کا نام لکھا ہوا تھا۔ پولیس نے کچھ سوالوں کے بعد اسے چھوڑ دیا مگر مجھے کہا گیا کہ تھانے چلنا ہو گا کیونکہ تم غیرقانونی ہو۔‘

جب دستاویزات نامکمل ہونے پر پولیس نے انھیں روکا تو خود نسیم اور ان کے بھائی نے پولیس اہلکاروں کی خوب منت سماجت کی، جس پر پولیس اہلکاروں نے انھیں جانے دیا مگر ساتھ تنبیہ کی کہ ’آج کل بہت سختی ہے، گھر سے مت نکلنا۔‘

نسیم بتاتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد وہ ڈر گئے کہ کہیں انھیں جیل میں نہ ڈال دیا جائے یا زبردستی واپس نہ بھیج دیا جائے کیونکہ ان کے بیوی بچے پشاور کی ایک بستی میں مقیم ہیں۔

دوسری جانب گذشتہ ہفتے اسلام آباد کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران اسلام آباد کی حدود سے 400 سے زائد ایسے افغان باشندوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے لیے درکار مکمل دستاویزات نہیں تھیں اور وہ غیرقانونی طور پر ملک میں مقیم تھے۔

پولیس کے مطابق یہ گرفتاریاں شہر میں واقع مختلف علاقوں اور ہوٹلوں سے کی گئی ہیں جہاں مقیم افغان خاندان ویزا کی معیاد ختم ہونے کے باوجود قیام پذیر تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد تو وہ ہیں جن کی پاکستان میں قیام کے لیے درکار قانونی دستاویزات نامکمل تھیں اور وہ بہت عرصے سے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تھے تاہم بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ویزا حاصل کر کے پاکستان پہنچے تھے مگر بعدازاں وہ ویزا کی تجدید نہیں کروا سکے تھے۔

’غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ان کے سفارتخانوں کے تعاون سے واپس بھیجا جائے گا‘

وزارت داخلہ کے ایک افسر کے مطابق خفیہ اداروں کی جانب سے وزارت داخلہ کو بھیجی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف سامنے آیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد چھ لاکھ کے قریب افغان شہری ویزا لے کر اور باضابطہ سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔

وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے جب غیرقانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کے خلاف مہم شروع کی تو اس حوالے سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے احکامات کی روشنی میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ان کے سفارتخانوں کے تعاون سے ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا۔

اس پریس ریلیز میں عوام سے بھی کہا گیا کہ وہ ایسے غیرملکی افراد کی نشاندہی کریں جو غیرقانونی طور پر ان کے علاقے میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ملازمت، پناہ اور غیرقانونی مدد فراہم کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔

گذشتہ دنوں جب سٹیٹ اینڈ فرنٹئیر ریجن کے سیکریٹری سے ایک تقریب میں جب اس ضمن میں سوال کیا گیا کہ کیا افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے عناصر کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں، پاکستان کی سلامتی اولین ترجیح ہے مگر اس کے ساتھ اس معاملے سے جڑے انسانی پہلو کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے سے متعلق اقدامات پہلی مرتبہ نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کی کارروائیاں کی گئیں مگر یہ معاملہ مکمل طور پر کبھی حل نہیں ہو سکا۔

ایسے میں ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیوں اور اس کے بعد پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین کے اس میں مبینہ طور پر استعمال ہونے جیسے بیانات در بیانات کا بھی اس معاملے سے کچھ لینا دینا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کے تانے بانے افغانستان سے ملے ہیں۔

اس ضمن میں فوجی حکام اور سویلین رہنماؤں نے متعدد مرتبہ افغان طالبان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں۔

افغان اُمور کے ماہر صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بھی کہا گیا کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا تو کیا اس بار اس پر عمل درآمد ہو گا؟

طاہر خان کا کہنا تھا کہ 30 لاکھ افغان باشندوں کو ملک سے نکالنا اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان اس ضمن میں بین الاقوامی قوانین کا بھی پابند ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’نگراں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی طرف سے بھی ایسے بیانات آتے رہے ہیں جن میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ غیرقانونی طور پر ملک میں بسنے والے غیرملکیوں کو کسی طور پر بھی پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’افغان کمشنر عباس خان نے ایک حالیہ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ جن افغان مہاجرین کو پی او آر کارڈ جاری کیے گئے ہیں، ان کے لیے جلد ہی نئی پالیسی بنائی جائے گی۔‘

افغانستان میں پاکستان کے سابق قونصل جنرل ایاز وزیر کا کہنا تھا کہ جس طرح پاکستان میں بسنے والے افغان باشندوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کارروائیاں کرر ہے ہیں اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب حکومت نے ان کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا پلان بنا لیا ہے۔

ایاز وزیر کے مطابق ’طالبان کے افعانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ تر وہ افغان باشندے پاکستان میں قانونی طور پر داخل ہوئے تھے جو وہاں پر غیرملکی کمپنیوں اور اداروں کے لیے کام کرتے تھے اور ان افراد کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ پاکستان پہنچ کر ان کے ویزوں کا مرحلہ شروع کر دیا جائے گا، مگر بیشتر کیسز میں ایسا نہیں ہو گا۔‘

ایاز وزیر کا دعویٰ ہے کہ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے حکام کے ساتھ ملی بھگت کرکے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک حاصل کر رکھے ہیں۔

’اتنی بڑی تعداد میں افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجنا آسان نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ایک تفصیلی اور مکمل پلان کی ضرورت ہو گی۔‘

ایاز وزیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا حکومت پاکستان کا یہ اقدام افغان حکومت کو شدت پسندی کے معاملے پر دباؤ میں لانے کا ایک طریقہ ہے توانھوں نے کہا کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چھ لاکھ کے قریب جو افعانی پاکستان آئے ہیں ان میں سے اکثریت ان افراد کی ہے جو طالبان مخالف سمجھے جاتے ہیں۔