پاکستان کے ضلع سیالکوٹ پولیس کا کہنا ہے کہ 11 مئی 2023 کو پولیس کی حراست سے رہائی کے بعد لاپتہ ہونے والے پاکستانی اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے بھی ان کی بازیابی کی تصدیق کی ہے تاہم یہ معمہ اب تک حل نہیں ہو سکا کہ اتنا عرصہ عمران ریاض نے کہاں اور کن حالات میں گزارا۔
پولیس کی جانب سے بھی ابھی تک زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
عمران ریاض خان ماضی میں مختلف ٹی وی چینلز پر پروگرام کرتے رہے ہیں اور اپنے پروگرام کے مواد کے باعث وہ تحریک انصاف کے حلقوں میں کافی مقبول سمجھے جاتے تھے۔
واضح رہے کہ نو مئی کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں جب ملک کے مختلف شہروں میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
اسی روز عمران ریاض خان کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے پولیس نے اس وقت حراست میں لیا تھا جب حکام کے مطابق وہ مبینہ طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
حراست میں لیے جانے کے بعد ابتدا میں انھیں سیالکوٹ کے کینٹ پولیس سٹیشن میں رکھا گیا اور بعدازاں ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ منتقل کر دیا گیا۔
11 مئی کو عمران ریاض کو سیالکوٹ ڈسٹرکٹ جیل سے رہا کیا گیا لیکن پھر پولیس کے مطابق وہ جیل کے باہر سے لاپتہ ہو گئے۔
عمران ریاض کے ’لاپتہ‘ ہونے کے بعد ان کے والد کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں اُن کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی جس کی آخری سماعت 20 ستمبر کو ہوئی تو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے آئی جی پنجاب کو 26 ستمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے اسے آخری موقع قرار دیا اور کہا کہ اگر عمران ریاض کو آئندہ پیشی تک بازیاب کرا کے پیش نہیں کیا جاتا تو عدالت خود کوئی فیصلہ کرے گی۔
عمران ریاض کی گرفتاری: 11 مئی کو کس وقت کیا ہوا؟
وہ کیا حالات تھے جن کے تحت عمران ریاض خان گرفتار ہوئے اور پولیس کے بیان کے مطابق ان کی رہائی بھی عمل میں آئی مگر جیل سے قدم نکالتے ہی وہ لاپتہ کیسے ہوئے۔ بی بی سی نے عمران ریاض کے اہلخانہ اور ساتھیوں سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی تھی۔
سیالکوٹ جیل ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ کے گیٹ کے باہر ایک سیاہ رنگ کی ویگو گاڑی کافی دیر سے کھڑی تھی۔ اس ڈبل کیبن کے پیچھے ایک سفید رنگ کی کار بھی تھی۔
کچھ ہی دیر میں ڈبل کیبن سے تین افراد باہر نکلے جن کے چہروں پر نقاب تھے۔ رات 11 بجکر پانچ منٹ پر ایک شخص جیل کے گیٹ سے باہر قدم رکھتا ہے اور اس کے فورا بعد گیٹ کی دوسری جانب یعنی جیل کے اندر کھڑا پولیس اہلکار جلدی سے جیل کا داخلی دروازہ بند کر دیتا ہے۔
سیاہ ڈبل کیبن کے پاس کھڑے تین افراد میں سے ایک نقاب پوش آگے بڑھتا ہے اور جیل سے باہر آنے والے شخص سے ہاتھ ملاتا ہے۔
وہ دوسرا ہاتھ اُن کے کندھے پر رکھتے ہوئے ویگو کی جانب چلنے کا اشارہ کرتا ہے۔ پھر یہ تمام افراد گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں اور سیاہ ویگو اور اس کے پیچھے کھڑی سفید کار نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو جاتی ہیں۔
جیل سے نکلنے والے شخص اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض خان تھے جبکہ ویگو اور کار میں کون بیٹھا تھا، یہ گتھی فی الحال الجھی ہوئی ہے۔
پنجاب پولیس اور وزارت داخلہ کے عدالت میں دیے گئے بیانات کے مطابق وہ اب تک ان افراد کو ٹریس کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
اوپر بیان کیا گیا منظر اس سی سی ٹی وی فوٹیج کا ہے جو لاہور ہائیکورٹ میں پولیس کی جانب سے جمع کروائی گئی اور یہ تفصیل اس ویڈیو کو دیکھنے والے افراد نے بی بی سی کے ساتھ شیئر کی۔
عمران ریاض خان کے ان قریبی ساتھیوں نے بھی بی بی سی سے بات کی جو اس وقت اُن کے ہمراہ تھے جب انھیں سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔
ان کے اہلخانہ کے مطابق اُن کی گرفتاری سے ایک روز قبل پولیس نے اُن کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔
ان کے ایک ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ عمران ریاض خان کی گرفتاری کے وقت پولیس کے پاس گرفتاری کے وارنٹ موجود نہیں تھے، جس کی تصدیق بعدازاں لاہور ہائیکورٹ کے روبرو متعلقہ تھانے کے ایس ایچ نے بھی کی۔
ان کے مطابق ’انھیں تھانہ ایئرپورٹ کی پولیس نے گرفتار کیا تھا تاہم گرفتاری کے بعد انھیں کینٹ پولیس سٹیشن لے جایا گیا۔‘
ان کے ایک اور قریبی ساتھی نے بتایا کہ عمران ریاض خان کی عمان کی فلائٹ کا وقت صبح چار بجکر پانچ منٹ تھا جبکہ انھیں تین بجے کے قریب ایئرپورٹ کی حدود سے ایم پی او یعنی ’نقص امن‘ کے خطرے کے تحت حراست میں لیا گیا۔ اس کے بعد انھیں صبح پانچ بجے سے دن ایک بجے تک کینٹ پولیس سٹیشن میں رکھا گیا، اُن کے وکلا کو بتایا کہ انھیں تھری ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔‘
پولیس حکام کے مطابق اُسی روز دن ایک بجے کے بعد انھیں ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ منتقل کر دیا گیا۔ جیل حکام کے مطابق اسی رات ان کا ایم پی او آرڈر منسوخ کر دیا گیا اور انھیں رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔
رہائی کے بعد وہ رات 11 بج کر پانچ منٹ پر جیل سے باہر نکلے، جہاں سے انھیں سیاہ ڈبل کیبن میں بٹھایا گیا جس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔
اس واقعے کے کچھ دن بعد یعنی 16 مئی کو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بی بی سی کی آسیہ انصر کو بتایا تھا کہ ’عمران ریاض کو کچھ دن قبل گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا جہاں انھوں نے تحریری بیان میں اچھے رویے کی یقین دہانی کروائی جو عدالت میں بھی پیش کر دی گئی ہے۔‘
آئی جی کا کہنا تھا کہ اس یقین دہانی کے بعد ’ایم پی او واپس لے لیا گیا اور وہ آزاد ہو گئے تھے۔‘
عمران ریاض کیس: پولیس کا کیا موقف رہا؟
عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی تو اس میں پنجاب حکومت سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ پولیس اور ایف آئی اے حکام نے غیر قانونی طور پر عمران ریاض کو گرفتار کیا، عدالت عمران ریاض کو فوری بازیاب کراکے رہا کرنے کا حکم دیا جائے اور عمران ریاض کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔
کیس کی مختلف سماعتوں کے دوران عدالت کے احکامات اور ڈیڈ لائنز دینے کے باوجود حکام عمران ریاض خان کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہے۔
سماعت کے دوران آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے جیو فینسنگ کی تکنیک استعمال کی ہے مگر کوئی نمبر لوکیٹ نہیں ہو سکا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران ریاض کے معاملے میں کچھ غیر ملکی نمبرز بھی استعمال ہوئے، جو نمبرز استعمال ہوئے وہ افغانستان کے ہیں اور پنجاب پولیس کے پاس افغانستان کے نمبرز ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں۔‘
عمران ریاض کی گمشدگی کے بارے میں تحقیقات میں شامل ایڈیشنل آئی جی انویسٹیگیشن پنجاب شہزادہ سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے مقدمات میں تفتیش کسی سراغ کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور بدقسمتی سے اب تک عمران ریاض سے متعلق ایک بھی ایسا سراغ نہ مل سکا جو ان تک لے جاتا۔
’اب تک تفتیش میں ڈی پی او سیالکوٹ کی ٹیم نے بھرپور محنت سے سی سی ٹی وی فوٹیجز اکٹھی کیں اور سیالکوٹ شہر میں لگے کیمروں کی مدد سے اس گاڑی کی نقل و حرکت کو دیکھا گیا تاہم کچھ دور بعد جا کر اس کا نشان نہ مل سکا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران ریاض کی تلاش میں تمام صوبوں کی پولیس فورسز، ایف آئی اے، ایم آئی، آئی ایس آئی، سمیت تمام اداروں سے معلومات لی گئیں، ایئرپورٹ اتھارٹی سے رابطہ کیا گیا، زمینی و فضائی بارڈرز چیک کیے گئے، تمام ’کلاسیک لائنز آف انکوائریز‘ مکمل کی گئیں۔ جن لوگوں نے گاڑی میں ان کو بٹھایا ان کی بھی خاطر خواہ شناخت سامنے نہ آ سکی۔‘
شہزادہ سلطان نے بتایا تھا کہ ’عدالتی حکم پر ایک ورکنگ گروپ بنایا گیا جس میں ڈی پی او سیالکوٹ، ایف آئی اے، وزارت داخلہ وزارت دفاع اور پی ٹی اے سمیت ٹیکنالوجی کو ڈیل کرنے والے تمام متعلقہ محکموں کے افراد شامل ہیں۔‘
ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن کے مطابق وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے حکام نے بھی عدالت کو بتایا کہ عمران ریاض ان کے پاس نہیں۔
’پرامید‘ وکیل
جہاں پولیس کے اعلیٰ افسران عمران ریاض کا کوئی بھی سراغ نہ ملنے کا دعویٰ کرتے رہے وہیں ان کے وکیل میاں علی اشفاق ایڈوکیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چھ جون کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ عمران ریاض پولیس کے ذیلی ادارے کی تحویل میں ہیں اور انھیں امید ہے کہ جلد ہی عمران ریاض کو رہا کر دیا جائے گا۔
میاں علی اشفاق کے مطابق ’ہم سے ٹھوس اور دو ٹوک بات تو نہیں کی جاتی مگر آف دی ریکارڈ یہ بات ہمارے سامنے آ رہی ہے کہ عمران ریاض جلد بازیاب ہوجائیں گے۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’عمران ریاض کو غائب کرنے میں پولیس نے مرکزی سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ جس وقت عمران کو اٹھایا گیا اس کے شواہد ہمارے پاس ہیں۔‘
’پہلے دن سے حقائق کے برعکس چیزیں سامنے لائی گئیں۔ ہم نے وہ تمام ثبوت ورکنگ گروپ کے سامنے رکھے ہیں۔ اور ہمیں آف دی ریکارڈ ان کی جلد ملنے کی یقین دہانی ملنی شروع ہو گئی ہیں۔‘
’کیا کوئی پوچھے گا کہ وہ کہاں تھے اور کیسے باہر آئے‘
پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس وقت عمران ریاض ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ جہاں کئی صارفین ان کی واپسی پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں کئی صارفین یہ سوال کر رہے ہیں کہ عمران ریاض اتنا عرصہ کہاں لاپتہ رہے۔
صحافی مظہر عباس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’عمران ریاض خان تقریباً 140 دن بعد گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ میں ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں اور پوری طرح سمجھتا ہوں کہ وہ اور ان کے اہلخانہ کس قسم کے صدمے سے گزرے ہوں گے۔ ایک صحافی کا لاپتہ یا قتل ہونا دوسرے صحافیوں کے لیے پیغام ہے۔‘
صحافی مہر تارڑ نے لکھا کہ ’گذشتہ چار ماہ کے دوران وہ کس اذیت سے گزرے ہیں یہ وہ، ان کے اغوا کار اور تشدد کرنے والے ہی جانتے ہیں۔ صرف وقت، ان کے اہلخانہ کی محبت اور ان کے چاہنے والوں کی دعائیں ہی ان کا زخم بھریں گی۔ اللہ عمران ریاض خان کو حفاظت میں رکھے۔‘
مصطفیٰ عریز آبادی نے سوال کیا کہ پولیس کے مطابق عمران ریاض خان گھر پہنچ گئے ہیں۔ کیا کوئی پنجاب حکومت سے پوچھے گا کہ لوگوں کو بتائے کہ عمران خان کو کس نے کہاں قید کر رکھا تھا۔
اینکر اکبر باجوہ نے لکھا کہ ’عمران ریاض کو کس نے اغوا کیا یہ سب سے بڑا سوال باقی ہے؟ جو لوگ یہ سوال نہیں پوچھیں گے وہ اگلے مغوی ہو سکتے ہیں یا وہ اغوا کاروں کے ساتھ شریک ہیں۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’کیا کوئی پوچھے گا کہ وہ کہاں تھے اور کیسے باہر آئے اور انھیں اتنی دیر تک کس نے قید رکھا؟‘
’کیا ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کریں گے یا بیوقوفوں اور غلاموں کی طرح اللہ کا شکر ادا کریں کہ وہ 140 دن کے بعد رہا ہوئے اور بس۔ ہمیں بحیثیت قوم بدلنے کی ضرورت ہے ورنہ اس مہذب دنیا میں اب ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔‘