’جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر جا رہے ہیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ اللہ نے پی ٹی آئی کو الیکٹیبلز سے آزاد کر دیا ہے۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان آج اپنے خلاف درج آٹھ مقدمات میں حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو اس دوران وہ گاہے بگاہے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے نظر آئے۔
آج پہلے تو ان کے وکلا نے عمران خان کی گاڑی کو احاطہ عدالت میں لے کر آنے کی درخواست دے دی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی درخواست مسترد ہو جانی ہے کیونکہ اس سے پہلے اس قسم کی ان کی تمام درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہونا تھا جو کہ نئی عمارت کی تیسری منزل پر تھی۔
جب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں پہنچے تو کوئی بھی لفٹ نہیں چل رہی تھی جس کی وجہ سے عمران خان کو تیسری منزل پر جانے کے لیے سیڑھیوں سے جانا پڑا۔
کمرہ عدالت میں پہنچنے سے پہلے وہاں پر موجود سکیورٹی کے عملے نے عمران خان کی سکیورٹی پر مامور افراد کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے عمران خان کو بھی دروازے پر روک لیا گیا تاہم دھکم پیل کے بعد عمران خان کمرہ عدالت میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
عمران خان جب کمرہ عدالت میں آئے تو ان کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے جو انھوں نے کرسی پر بیٹھنے کے بعد اپنی انگلیوں سے ٹھیک کیے۔
عدالت میں مقدمات کی سماعت کا وقت دوپہر دو بجے مقرر کیا تھا لیکن ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی جب متعلقہ عدالت کے جج نہ پہنچے تو عمران خان نے اپنے وکلا سے پوچھا کہ ’کیا یہ جج کیس سنے گا؟‘
عمران خان نے آج وکلا کے ڈریس میں آئے ہوئے تھے یعنی سفید شلوار قمیض اور کالی واسکٹ اور جب کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ خان صاحب کہیں آج آپ خود تو دلائل نہیں دیں گے جس پر عمران خان مسکرا دیے۔
آج عمران خان کے ہاتھ میں لمبی تسبیح تھی جس کو دیکھتے ہوئے کمرہ عدالت میں موجود ایک وکیل نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کے خلاف جتنے مقدمات بن رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے تسبیح بھی لمبی ہوتی جا رہی ہے۔
میڈیا کے ساتھ گفتگو کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف مقدمات درج کرکے ان کو دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ’جب ملک میں فوجی عدالتیں قائم ہو جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک میں انصاف اور جمہوریت ختم ہو گئی ہے۔ لگتا ہے یہ عدالتیں میرے لیے ہی بنائی گئی ہیں۔‘
گفتگو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ سنہ 2018 کے انتخابات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ان کو اقتدار میں لانے کے لیے مدد کی تھی تو انھوں نے اس کا دو ٹوک جواب تو نہیں دیا تاہم انھوں نے یہ کہا کہ ’اب تو اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ نہیں ہے تو پھر اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ انتخابات سے کیوں بھاگ رہی ہے۔‘
جب صحافی عمران خان سے سوالات کر رہے تھے تو کمرہ عدالت میں تعینات پولیس اہلکار آواز لگا دیتے کہ کورٹ آنے والی ہے تو عمران خان یہ سنتے ہی اپنی بات مکمل بھی نہ کر پاتے اور خاموش ہو جاتے۔
ایک گھنٹے سے زیادہ کی تاِخیر کے بعد جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاورق کمرہ عدالت میں آئے تو عمران خان نے اپنے وکیل سلمان صفدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آر یو ریڈی؟‘ تو ان کے وکیل نے جواب دیا ’یس سر۔‘
کوئٹہ میں وکیل کے قتل کے مقدمے میں حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے لیے عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ’ان کے موکل کو عید تک ضمانت دی جائے کیونکہ کوئٹہ جانے والی فلائٹس نہ ہونے کے برابر ہیں‘، اس پر عدالت نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کب سے کوئٹہ کی فلائٹس کم ہو گئیں ہیں کیونکہ یہ بات ان کے علم میں تو نہیں ہے۔‘
عمران خان کے وکیل اپنے تئیں اس نقطے پر عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے تاہم عدالت ان سے مطمئن نہیں ہوئی اور وکیل کے قتل کے مقدمے میں عمران خان کو دو ہفتوں کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔