جب بحیرہ عرب میں موجود ’بپر جوائے‘ نامی سمندری طوفان شروع ہوا تو اس کا رخ کراچی کی طرف تھا اور سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہو گئی کہ کیا یہ طوفان کراچی کے ساحل سے ٹکرائے گا یا نہیں۔
اگر ہم اس بحث کے پس منظر کو جاننے کی کوشش کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سنہ 1990 کے بعد سے جتنے بھی سمندری طوفان آئے ہیں وہ کراچی پہنچنے سے قبل ہی اپنا رخ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے یا کسی کی شدت کراچی سے ٹکرانے سے پہلے اتنی کم ہو گئی کہ شہر محفوظ ہی رہا۔
کراچی کے بعض مقامی لوگوں اور خاص کر کے یہاں موجود درگاہ عبداللہ شاہ غازی کے مریدوں کا ماننا ہے کراچی یہاں دفن بزرگ ہستی کی کرامات کی وجہ سے سمندری طوفان سے بچ جاتا ہے۔
اب یہ بحث بھی اہم ہے کہ کراچی کے اس بار یا ہمیشہ طوفان سے بچ جانے کے پیچھے عبداللہ شاہ غازی کی کرامات ہی ہیں یا پھر اس کی کوئی سائنسی وجوہات ہیں؟
عبداللہ شاہ غازی سے متعلق بات آگے جا کر مگر پہلے ماہرین سے یہ جان لیتے ہیں کہ سمندری طوفان کیوں آتے ہیں اور حالیہ تاریخ میں ایسی قدرتی آفات سے کراچی کے بچ جانے کی وجوہات کیا ہیں؟
’کراچی کی پلیٹس رکاوٹ کا کام کرتی ہیں‘
قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ ’ارتھ سائنسز‘ کی پروفیسر ڈاکٹر مونا لیزا نے بی بی سی کو بتایا کہ دنیا کے اکثر ممالک اس طرح کے سائیکلون کو روکنے کے لیے دیگر پیشگی اقدامات کے علاوہ ساحل سمندر پر دیوار تعیمر کرتے ہیں تاکہ طوفان اس دیوار سے ٹکرا کر زیادہ نقصان کا باعث نہ بنے۔
ان کے مطابق کراچی تین پلیٹس (انڈین، یوروشیا اورعریبین) کی باؤنڈری پر واقع ہے جو سمندری طوفان کے لیے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔
’ان پلیٹس کی وجہ سے سمندری طوفان کو گھومنے کا موقع نہیں ملتا اور پھر یہ رخ موڑ لیتا ہے۔ یوں اپنی جغرافیے کی وجہ سے کراچی ہر بار بچ نکلتا ہے‘ تاہم ڈاکٹر مونا لیزا کے مطابق اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر بار یہ پلیٹس اس شہر کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اب قدرتی آفات کا ایک تسلسل ہے اور کم وقت میں یہ آفات دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ ان کے مطابق یہ سمندر خود بھی عریبین پلیٹ پر ہی واقع ہے۔
ڈاکٹر مونا لیزا کے مطابق جہاں یہ پلیٹس کراچی کے لیے اہمیت اختیار کر گئی ہیں وہیں یہ پاکستان کے لیے بڑے خطرے کا سبب بھی ہیں۔
’پاکستان اور خطے میں زلزلے بھی ان پلیٹس کی ’موومنٹ‘ کی وجہ سے آتے ہیں۔ یوں یہ سب عناصر مل کر قدرتی آفات کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان تین ’ہائی ایکٹو پلیٹس مارجن‘ پر واقع ہے، جس وجہ سے یہ ملک عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہے۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اب زلزلے بھی بہت کم وقفے سے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
ڈاکٹر مونا کے مطابق رقبے کے لحاظ سے پاکستان ان پلیٹس کی بہت چھوٹی سی جگہ پر واقع ہے مگر اس کے اثرات پاکستان پر کہیں زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مونا لیزا کا کہنا ہے کہ ایک طرف پاکستان کو گلیشئرز کے تیزی سے پگھلاؤ جیسی صورتحال کا سامنا ہے جو سیلاب کا سبب بنتے ہیں کیونکہ اس وقت دنیا کی دوسری اور تیسری بڑی چوٹیاں پاکستان میں ہیں اور وہیں یہ صورتحال زلزلوں اور سمندری طوفانوں کو بھی جنم دے رہی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے تیار نظر نہیں آتا اور اس وقت ہمارا انحصار باہر کے ممالک کے ڈیٹا اور تحقیق پر ہی ہے۔
ڈاکٹر مونا لیزا کے مطابق انڈیا نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے اور ان سائیکلون سے نمٹنے سے متعلق میکنزم بہت بہتربنایا ہے۔
سمندری طوفان کیوں آتے ہیں؟
ڈاکٹر مونا لیزا نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسی تمام قدرتی آفات جن کا تعلق پانی سے ہوتا ہے ان کی بنیادی وجہ ٹمپریچر یعنی درجۂ حرارت ہوتا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں جون کے مہینے میں سطح سمندر پر درجہ حرارت میں دو سے تین درجہ حرارت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق سادہ الفاظ میں سائیکلون درجہ حرارت اور ہواؤں کے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق درجہ حرارت اگر اس سمندری طوفان کو جنم دیتے ہیں تو پھر ہواؤں کا دباؤ اس کے رخ کا تعین کرتا ہے۔
سردار سرفراز کے مطابق مئی اور جون میں بحیرہ عرب، شمالی انڈیا اور بے آف بنگال میں یہ سائیکلون بنتے ہیں تاہم ان کے مطابق گذشتہ برس یہ سائیکلون سرے سے بنے ہی نہیں۔
چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کہتے ہیں کہ ان سمندری طوفانوں کا تعلق ’سپٹراپیکل ونڈ‘ سے ہوتا ہے۔ ان کے مطابق سطح سمندر، مڈل اور اپر ونڈز ان طوفانوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ان کے مطابق جب سمندر کا ٹمپریچر سطح سے لے کر 50 میٹر نیچے تک 26 سے 28 درجے سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے تو پھر یہ اس کی علامت ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ اس صورتحال میں زیادہ بخارات بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب مزید اوپر یہ بخارات جاتے ہیں تو گرم ہوا اوپر جا کر ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور یوں ’ڈائیورجنس‘ شروع ہو جاتی ہے۔
ان کے مطابق 40 ہزار فٹ بلندی پر جب یہ ہوائیں ہوتی ہیں تو پھر یہ سائیکلون یعنی سمندری طوفان کی وجہ بن جاتی ہیں۔ یہ ایسا ہی جیسے سلنڈر میں ہوا بھرتے رہیں اور پھر وہ اوپر سے مسلسل نکلتی رہے۔
سائیکلون کے دورانیے سے متعلق ڈاکٹر مونا لیزا کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق بھی درجہ حرارت سے ہی ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جب سائیکلون سست پڑ جائے تو پھر اس کا دورانیہ گھنٹوں سے بڑھ کر کئی دنوں تک ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق بپرجوائے کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ درجہ حرارت میں کم وقت میں زیادہ تبدیلی ہے۔
عبداللہ شاہ غازی: ’کتابوں میں مزار کا ذکر ہے مگر زیادہ تفصیلات نہیں‘
عبداللہ شاہ غازی کے مریدوں کا ماننا ہے کراچی اس درگاہ میں دفن بزرگ ہستی کی کرامات کی وجہ سے سمندری طوفان سے بچ جاتا ہے
اب بات کرتے ہیں ان عبداللہ شاہ غازی کی، جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ انھوں نے کراچی کی جانب آنے والے سمندری طوفان کو تھام رکھا ہے۔
مؤرخ اور شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن کے مطابق کراچی والوں کے لیے عبداللہ شاہ غازی پیر کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں شہر کا ’پیٹرن سینٹ‘ کہا جاتا ہے۔
ان کے مطابق عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں مختلف روایات ہیں تاہم ان کی نسبت امام حسن سے ہے۔ ان کے مطابق کچھ روایات میں ہے کہ ’عبداللہ شاہ غازی امیہ سلطنت کے خلاف جدوجہد کرنے آئے تھے اور پھر وہ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تاہم ایسی بھی روایات ہیں کہ شکار کرتے ہوئے ان کی موت واقع ہوئی۔‘
تاہم عارف حسن کہتے ہیں کہ بھلے سمندری طوفان کراچی سے نہ ٹکرایا ہو مگر یہ شہر کئی طوفانوں سے ہو گزرا ہے۔
مصنف و تجزیہ کار ندیم فاروق پراچہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے قریب ہی رہتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک چھوٹا سا مزار ہوتا تھا، جس کی توسیع وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی اور اب یہ ایک بڑا مزار بن چکا ہے۔
ان کے مطابق انھوں نے جتنی بھی تحقیق کی اور کتابیں پڑھی ہیں ان میں عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں ایسی تفصیلات درج نہیں۔ ان کی رائے میں 19 صدی میں انگریزوں کی بھی لکھی گئی کتابوں میں کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کا ذکر ملتا ہے مگر باقی کوئی زیادہ تفصیلات نہیں۔
ان کے مطابق عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں جتنی باتیں مشہور ہوئی ہیں ان کا تعلق گذشتہ 40 سے 50 برس سے ہی ہے۔ ندیم فاروق پراچہ کے مطابق اس طرح کی باتیں پہلے پہل مذاق کے طور پر کی جاتی تھیں مگر اب لوگ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں۔
محقق عقیل عباس جعفری بھی کراچی کے رہائشی ہیں۔ ان کے مطابق عبداللہ شاہ غازی پر سبط جعفر کے چھوٹے بھائی سبط اصغر اور ماری صبا ٹوانہ نے کتابیں لکھی ہیں، جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ عبداللہ شاہ غازی نفس ذکیہ کے بیٹے تھے۔
وہ کربلا کے واقعے کے بعد بنو امیہ کے مظالم سے تنگ آ کر دیگر سیدات کی طرح دیگر ممالک کی طرف کوچ کر گئے اور پھر کراچی پہنچ کر یہاں تبلیغ کی تاہم ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ امام حسن کی پانچویں پشت سے تھے تو یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ محمد بن قاسم کے بہت بعد میں یہاں آئے تھے۔
کراچی میں سمندری طوفانوں کی مختصر تاریخ
مئی 1985 میں ایک طوفان کراچی کی جانب بڑھا تھا اور کراچی کے جنوب میں 100 کلومیٹر دور ہی کمزور ہو کر ختم ہو گیا۔
نومبر 1993 میں کیٹیگری 1 کا طوفان مڑ کر سندھ و گجرات سرحد کے قریبی ساحل سے ٹکرایا، یہ طوفان کراچی میں صرف بڑے پیمانے بارش کی وجہ بھی بنا۔
جون 1998 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کی جانب آتے آتے جنوبی مشرقی سندھ کی طرف بڑھ گیا، سوائے چند مچھیروں کے کوئی بڑا جانی نقصان نہ ہوا۔
مئی 1999 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کے قریب ٹکرایا، اس سمندری طوفان نے سندھ کے ساحلی علاقوں کو کافی نقصان پہنچایا، یہ پاکستان کا ریکارڈ سخت ترین طوفان تھا۔
مئی 2001 میں کیٹگری 3 کا سائیکلون گجرات کے ساحل سے ٹکرایا۔
اکتوبر 2004 میں اونیل نامی سائیکلون کراچی اور سندھ کے ساحل کی جانب بڑھا مگر بعد میں سمندر کی طرف واپس مڑ گیا اور کراچی میں بس تیز بارش کا باعث بنا۔
جون 2007 کے اوائل میں گونو نامی سپر سائیکلون سے کراچی محفوظ رہا۔ جون 2007 ہی میں، یمین نامی ایک سمندری و ہوائی طوفان کراچی کے قریب سے گزرا۔
نومبر 2009 میں، پھائن نامی سائیکلون پہلے ہی دم توڑ گیا ور اس کی باقیات کراچی سمیت سندھ کے ساحل میں تیز ہواؤں کا باعث بنیں۔
جون 2010 میں، پھیٹ نامی سائیکلون جو کیٹیگری 4 کا طوفان تھا، کراچی کے قریب کمزور پڑگیا، البتہ طوفانی ہوائیں کراچی میں پہنچیں۔ اسی سال نومبر میں جل نامی سمندری و بادی طوفان بھی کراچی پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا اور اس کی باقیات کی وجہ سے کراچی اور جنوب مشرقی سندھ میں گرد آلود ہواؤں کے ساتھ بوندا باندی ہوئی ۔
سنہ 2014 میں نیلوفر نامی سائیکلون کا رخ بھی کراچی کی جانب تھا مگر عین موقع پر اس نے اپنا رخ موڑ لیا اور کراچی ایک مرتبہ پھر سمندری طوفان سے محفوظ رہا۔