سپرم وہیل کے پیٹ سے ملنے والا ’پانچ لاکھ ڈالر‘ مالیت کا پتھر جو اس کی موت کا باعث بنا

سپین کے کیناری جزیرے میں لا پالما کے ساحل پر ایک مردہ سپرم وہیل کی انتڑیوں میں سائنسدانوں کو ایک دلچسپ خزانہ ملا ہے جس کی مالیت پانچ لاکھ ڈالر ہو سکتی ہے۔

یہ نو کلو کا پتھر ’عنبر گرس‘ کہلاتا ہے اور مقامی میڈیا کے مطابق اس کی مالیت امریکی ڈالر پانچ لاکھ تک بتائی جا رہی ہے۔

یہ وہیل 13 میٹر لمبی اور تقریباً 20 ٹن وزنی ہے اور مئی کے وسط میں یہ لا پالما میں نوگالس کے ساحل پر پائی گئی تھی۔

چند ہفتوں کی فرانزک سٹڈیز کے بعد انسٹیٹیوٹ آف اینیمل ہیلتھ اینڈ فوڈ سیفٹی کے محققین نے گذشتہ ماہ انکشاف کیا تھا کہ جس چیز نے وہیل کی موت میں اہم کردار ادا کیا وہ اس کی بڑی آنت میں موجود پتھر تھا جس کی وجہ سے آنتوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

اس قسم کے ’پتھر‘ اس کھانے سے بنتے ہیں جو سپرم وہیلز کھاتی ہیں، جیسے سکویڈز کی چونچیں، جو بہت سخت ہوتی ہیں۔ اگرچہ ایسے پتھروں کو پاخانے یا الٹی کے ذریعے جسم سے باہر نکالا جا سکتا ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ وہیل کے جسم میں پیچیدگی کا باعث بنتے ہیں۔

پروفیسر انٹونیو فرنانڈیز نے بتایا کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں گردے میں پتھری بنتی ہے۔

’اسی طرح ایک چونچ کا تصور کریں جو اچھی طرح سے باہر نہیں نکلتی ہے کیونکہ آنت اچھی طرح سے کام نہیں کرتی ہے، یہ اس کی اچھی طرح حفاظت نہیں کرتی ہے، یا یہ آسانی سے پھنس جاتی ہے، اس سے پتھر بننا شروع ہو جاتا ہے۔‘

اس رکاوٹ کی وجہ سے جانور ’ڈیفتھرایڈ کولائٹس‘ میں مبتلا ہو گیا جس کی وجہ سے آنت سے بیکٹیریا خون میں شامل ہو جاتا ہے اور بہت سے اعضا میں خون بہنے لگتا ہے۔

عنبر گرس کیا ہے؟

جب سپرم وہیل کیٹل فش، آکٹوپس اور یا ایسے کسی دوسرے سمندری جانور کو کھاتی ہے تو اس کے ہاضمے کا نظام ایک خاص قسم کی رطوبت پیدا کرتا ہے تاکہ شکار کے نوکیلے کانٹے اور دانت وہیل کے جسم کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔

اس کے بعد سپرم وہیل اس ناپسندیدہ کیمیائی مادے کو قے کے ذریعہ اپنے جسم سے نکال دیتی ہے۔ کچھ محققین کے مطابق سپرم وہیل پاخانے کے ذریعے بھی عنبر گرس نکالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہیل کا شکار بننے والی سمندری مخلوق کے جسموں کے نوکیلے حصے بھی اس کے فضلوں میں پائے جاتے ہیں۔ وہیل کے جسم سے نکلنے والا یہ مادہ سمندر کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔

سورج کی روشنی اور سمندر کے نمک سے ملنے کے بعد عنبر تیار ہوتا۔ خوشبو دار چیزیں بنانے کے لیے عبنر بہت کارآمد ہے۔

عنبر سیاہ، سفید اور سرمئی رنگ کا چربی دار مادہ ہے۔ یہ بیضوی یا گول شکل میں ہوتا ہے۔ یہ سمندر میں تیرتے ہوئے ایسی شکل اختیار کرتا ہے۔

جس کی چند گرام قیمت بھی لاکھوں اور کروڑوں روپوں میں ہوتی ہے۔ یہ ایک ٹھوس، مومی اور آتش گیر مادہ ہوتا ہے۔

یہ وہیل کے نظام انضمام میں پیدا ہوتا ہے۔ جب وہیل کا معدہ اس سے بھر جاتا ہے تو وہ اس کی قے کر دیتی ہے۔

ماہرین کے مطابق وہیل کے جسم سے خارج ہوا مادہ یا عنبر ابتدا میں بدبو دار ہوتا ہے لیکن جیسے ہی اس کا ہوا سے رابطہ بڑھتا ہے اس کی بدبو ایک میٹھی خوشبو میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ عنبر خوشبو کو ہوا میں اڑنے سے روکتا ہے۔ ایک طرح سے یہ سٹیبلائزر کا کام بھی کرتا ہے تاکہ بو ہوا میں تحلیل نہ ہو جائے۔

عنبر نایاب ہے اور اسی وجہ سے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ اسے سمندری سونا یا تیرتا ہوا سونا بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی قیمت مارکیٹ میں سونے سے زیادہ ہوئی ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے فی کلو تک ہو سکتی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ عنبر گرس کی جگہ مصنوعی عنبر وکسانڈ نے لے لی ہے۔ مگر ابھی بھی اس عنبر گرس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔

اس پتھر کی مالیت اتنی زیادہ کیوں ہے؟

پرفیوم کی صنعت میں ’عنبر گرس‘ نامی پتھر کو اس کی خصوصیات کے باعث بہت زیادہ قیمتی سمجھا جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ایک سے پانچ فیصد سپرم وہیل ہی اسے پیدا کرتی ہیں جس سے اس کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔

زمانہ قدیم میں یہ پتھر مذہبی تقاریب میں استعمال کیا جاتا تھا اور مشرق وسطیٰ میں اسے شہوت انگیز دوا کے طور پر، چین میں خصوصی غذا، یا روایتی دوائیوں کے اجزا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور آج اسے زیادہ تر پرفیوم کی صنعت میں استعمال ہوتا ہے۔

برطانوی پرفیوم کمپنی شے اینڈ بلیو کے بانی ڈوم ڈیویٹا نے سنہ 2015 میں بی بی سی منڈو کو بتایا تھا کہ ’عنبر گرس کی ایک مخصوص خوشبو ہے۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’اس کی مہک شدید، میٹھی، حیوانی ہے۔ یہ خوشبو میں نئی چیز کا اضافہ کرتی ہے جو اسے شہوت انگیز بناتی ہے اور کسی بھی خوشبو میں یہ خاصیت حاصل کرنا مشکل ہے۔‘

’یہ کسی بھی پرفیوم کو جلد پر زیادہ عرصے کے لیے برقرار رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔۔۔ لیکن ہر خوشبو کی طرح یہ سب کو پسند نہیں آتی۔‘

لا پالما سپرم وہیل میں پائے جانے والے پتھر کے حجم اور وزن کی وجہ سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کی قیمت پانچ لاکھ امریکی ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔