ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو گیا ہے اور لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ میچ دیکھنے والوں کی بھیڑ کہاں ہے؟
پہلا میچ گذشتہ ورلڈ کپ کی فاتح انگلینڈ اور رنر اپ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان انڈیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں جمعرات کو کھیلا گیا لیکن اکثریت میں لوگوں کے بجائے خالی سیٹیں ہی نظر آئیں۔
یہی حال جمعے کی شام پاکستان اور نیدر لینڈز کے درمیان حیدرآباد میں کھیلے جانے والے دوسرے میچ کا تھا جہاں زیادہ تر نشستیں خالی تھیں۔
بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا میں اس سے زیادہ بھیڑ تو آئی پی ایل کے میچز دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو جاتی ہے۔ تو کیا بی سی سی آئی لوگوں کو سٹیڈیم لانے میں ناکام رہی ہے؟
گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے ٹوئٹر پر احمد آباد میں جمعرات کو ہونے والے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں خالی سٹیڈیم کو ‘فیاسکو’ یا رسوائی قرار دیا اور بی سی سی آئی کی ٹکٹنگ کے عمل میں مبینہ شفافیت کی کمی پر تنقید کی ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ‘جب ‘بُک مائی شو’ (پلیٹ فارم) پر ٹکٹ کی فراہمی شروع ہوئی تو چند منٹوں میں ہی سارے ٹکٹ فروخت ہو گئے۔ تو پھر ایسا کیونکر ہوا کہ اتنے کم لوگ میچ دیکھنے کے لیے پہنچے؟’
ان رپورٹوں کی بنیاد پر جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ‘خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کا جشن منانے کے لیے’ بی جے پی کی جانب سے خواتین کو 40,000 ٹکٹ مفت پیش کیے گئے، مسٹر میوانی نے کہا کہ ٹکٹوں کی فروخت ستمبر کے پہلے ہفتے تک ختم ہو چکی تھی جبکہ بل آخری ہفتے میں منظور ہوا ‘تو پھر عورتوں کے لیے یہ اضافی ٹکٹ کہاں سے آئے؟’
کانگریس کے ایم ایل اے نے مزید سوال کیا کہ ‘کیا بی سی سی آئی اس طرح سے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ٹکٹ دے سکتی ہے؟’
مسٹر میوانی نے خالی سٹیڈیم کی ایک ویڈیو اور دو تصویریں ڈال کر لکھا: ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسا گٹھ جوڑ چل رہا ہے جس نے کرکٹ کے شائقین کو طویل عرصے سے اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ ٹکٹنگ کے عمل میں کوئی شفافیت نہیں ہے جس کی وجہ سے لاتعداد شائقین مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔’
بہر حال بہت سے کرکٹرز اور صارفین نے سٹیڈیم کے خالی ہونے کی توجیہ بھی پیش کی ہے۔
سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر عرفان پٹھان نے ٹویٹ کیا کہ ’جو لوگ خالی سٹیڈیم کا رونا رو رہے ہیں وہ محروم ہو گئے ہیں، اس لیے بیکار کی ٹویٹس کر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ انڈیا میں ہو رہا ہے اور دنیا کے بہترین سٹیڈیموں میں سے ایک میں۔ اس گھڑی کا مزا لیں اور انھیں رونے دیں۔’
جبکہ سابق انڈین اوپنر ویریندر سہواگ نے کہا ہے کہ جن میچز میں انڈیا نہ کھیل رہا ہو سکول کے طلبہ کو مفت ٹکٹ فراہم کیا جائے۔ انھوں نے لکھا کہ ’50 اوورز کے گیم میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی کے مد نظر نوجوانوں کو ورلڈ کپ دیکھنے کا تجربہ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کھلاڑی بھی بھرے ہوئے سٹیڈیم میں کھیلنے کا احساس کر سکیں۔’
پہلا میچ احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس سٹیڈیم میں ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے لیکن سوشل میڈیا پر جو حتمی تعداد پیش کی گئی ہے اس اعتبار سے بھی سٹیڈیم خالی ہی تھا۔ ریڈف کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال آئی پی ایل کے فائنل میں وہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی موجود تھے جبکہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں 50 ہزار سے بھی کم تماشائی وہاں پہنچے اور اس طرح سٹیڈیم ہر وقت خالی خالی سا نظر آیا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے 5 اکتوبر ہفتے کا وسط (ویک ڈے) تھا، اس لیے بھیڑ نہ پہنچ سکی تو کچھ لوگوں کے خیال میں میزبان ملک انڈیا کے نہ کھیلنے کی وجہ سے پہلے میچ میں تماشائی کم تھے۔
ایسے لوگ بھی ہیں جن کے مطابق اگر یہ میچ احمد آباد کے بجائے ممبئی کے وانکھیڑے میں کھیلا جاتا تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
بہت سے سوشل میڈیا صارفین بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ کو بھی ناقص انتظام کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں۔
میچ کے درمیان سینیئر صحافی پنیہ پرسون واجپئی نے لکھا: ‘کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو چکا ہے، سٹیڈیم خالی ہے۔۔۔ یہ کسی چھوٹے شہر میں ہوتا تو بہتر ہوتا۔۔۔’
انگلینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ڈینیئل ویٹ نے بھی ٹویٹ کیا کہ ‘بھیڑ کہاں ہے؟’
اس پر انڈین خاتون کرکٹر جمائمہ روڈریگس نے لکھا کہ ’انڈیا بمقابلہ پاکستان میچ کا انتظار کر رہی ہوں‘۔
انڈیا میں ورلڈ کپ اور واحد پاکستانی مداح
انڈین صحافی سوہاسنی حیدر نے لکھا کہ ‘پاکستان میڈیا اور مداح ابھی تک ورلڈ کپ کے لیے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ 60 صحافیوں نے ویزے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔
اس کے جواب میں کولسا نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ ‘اور ہم اولمپکس کا انعقاد کرنا چاہتے؟ کم از کم گجرات میں تو نہیں۔’
وقاص علی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘ورلڈ کا بدترین آغاز۔ پہلے تو انڈیا نے پاکستانی فینز کا ویزا مسترد کر دیا، جس کا نتیہ خالی سٹیڈیمز ہیں اور اس پر بھی ڈیجیٹل سکور بورڈ بھی ٹوٹ گيا۔’
بابر اعظم نام کے ایک صارف نے لکھا کہ حیدرآباد کا سٹیڈیم اس لیے خالی رہا کہ پاکستانی مداحوں کو ویزا نہیں دیا گيا۔ یہ سب سے خراب ورلڈ کپ رہا ہے اب تک۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ سے ورلڈ کپ دیکھنے آنے والے پاکستانی مداح ’چچا کرکٹ‘ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ پورے سٹیڈیم میں اکیلے پاکستانی مداح ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود ‘میرا جوش خروش اور آواز سو ڈیڑھ سو لوگوں کے برابر ہے۔’
شکاگو میں مقیم 67 سالہ محمد بشیر نے پاکستان کا قومی پرچم اٹھا رکھا تھا اور پاکستانی ٹیم کی جرسی بھی پہن رکھی تھی۔
سٹیڈیم میں یا اس کے باہر لوگ ان کے ساتھ اگر سیلفی لیتے نظر آ رہے ہیں تو ان کا مذاق بھی اڑاتے نظر آ رہے ہیں۔
پاکستانی صارفین بھی کم بھیڑ کے حوالے سے انڈین کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ایک صارف نے ٹویٹر پر لکھا: ’احمد آباد میں چند سو تماشائیوں کے ساتھ ورلڈ کپ کا افتتاح دیکھنا مایوس کن ہے۔’
پاکستانی سپورٹس چینل رفتار سپورٹس نے ایک مزاحیہ ویڈیو بنائی۔ کہا گیا کہ یہ ورلڈ کپ ہے اور اس کا انعقاد انڈیا میں ہو رہا ہے جہاں شائقین کرکٹ کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔ پہلا میچ بھی دنیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں ہوا۔ لیکن سٹیڈیم میں تماشائیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ’یہ بات کہیں بھی برداشت کی جا سکتی تھی۔ پاکستان، انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بھی لیکن انڈیا میں یہ گناہ ہے۔’
میچ کے دوران کمنٹیٹر اور انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل ایتھرٹن نے اپنے ساتھ کمنٹری کرنے والے روی شاستری سے سوال کیا کہ اگر میزبان انڈیا پہلا میچ کھیلتا تو گراؤنڈ میں زیادہ بھیڑ ہوتی۔
جواب میں روی شاستری نے کہا: ‘یقیناً، خاص طور پر اس طرح کے میدانوں میں، جہاں ایک لاکھ لوگوں کی گنجائش ہے۔۔۔ اگر یہ انگلینڈ بمقابلہ انڈیا کا میچ ہوتا تو گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوتا۔ ہفتے کے وسط میں بھی کم از کم 70-80 ہزار لوگ آتے۔ اس سے ماحول بن جاتا۔’
ایک رپورٹ کے مطابق 1999 کے ورلڈ کپ سے لے کر اب تک میزبان ٹیم ہی ٹورنامنٹ کا پہلا میچ کھیلتی رہی ہے۔
بی بی سی کے گجراتی کے نامہ نگار تیجس ویدیا میچ سے قبل نریندر مودی سٹیڈیم کے باہر گئے اور وہاں موجود شائقین سے بات کی۔
تیجس کہتے ہیں: ‘میچ دو بجے شروع ہوا اور ہم 4:30 تک وہاں رہے اور اس وقت تک لوگ آتے رہے۔ لیکن سٹیڈیم اتنا نہیں بھرا جتنا ہونا چاہیے تھا۔‘
احمد آباد میں 33-34 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت اور شدید گرمی کی وجہ سے کچھ لوگ اسٹیڈیم کے باہر ہی رہے اور گرمی کم ہونے پر اندر چلے گئے۔
کچھ شائقین نے تیجس ویدیا کو یہ بھی بتایا کہ سٹیڈیم تک پہنچنا بھی مشکل ہے۔
ایک مداح نے کہا کہ ’اگر آپ گاڑی سے جائیں گے تو آپ کو کافی دور پارک کرنا پڑے گا، میں صبح جاؤں گا، رات گئے واپس آؤں گا، اگر انڈیا کا میچ نہیں ہے تو ہم کیوں جائیں؟‘
کیا افتتاحی تقریب نہ ہونے کی وجہ یہی ہے؟
میچ سے پہلے مقامی حکام نے آدھی سیٹیں بھرنے کی توقع ظاہر کی تھی۔
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اس بار ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں غیر حاضری کی وجہ بھیڑ جمع نہ ہونے کو بتا رہے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا: ‘بی سی سی آئی اور جے شاہ برصغیر کی سیاست کو اس میں لا کر کرکٹ کو برباد کر رہے ہیں۔ کوئی افتتاحی تقریب نہیں، آج کے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے میچ میں کوئی بھیڑ نہیں، ٹورنامنٹ کی کوئی ہلچل نہیں، ورلڈ کپ کا تھیم گانا بیکار ہے۔ ٹکٹنگ کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے۔’
افتتاحی تقریب کا اہتمام ورلڈ کپ سے پہلے نہیں کیا گیا تھا لیکن بی سی سی آئی نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان میچ سے ایک دن پہلے شام کو کیپٹن ڈے کا اہتمام کیا۔ اس ایونٹ میں ٹیم کے دس کپتانوں میں سے انڈیا کے سابق کوچ روی شاستری اور انگلینڈ کے سابق کپتان ایون مورگن نے سوال کیا۔
بہر حال انڈین ٹیم کے کپتان روہت شرما نے کہا کہ ‘لوگ اس ٹورنامنٹ کو بہت پسند کریں گے۔ سٹیڈیم بھرے ہوں گے۔ انڈین کرکٹ کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا ٹورنامنٹ ہونے جا رہا ہے۔’
امت کمار سرکار نامی ایک صارف نے لکھا: ‘ڈیئر بی سی سی آئی، ورلڈ کپ کا پہلا میچ اور خالی سٹیڈیم صرف آپ کے زیادہ اعتماد کا نتیجہ ہے۔ ٹکٹ فروخت نہیں ہوئے، آپ نے جھوٹ بولا۔ اور صرف اسی وجہ سے آپ افتتاحی تقریب بھی نہیں کر سکے۔’