صبح ہوتی ہے تو اس گھر کی لڑکیاں تیار ہو کر ناشتہ کرتی ہیں اور پھر کلاس روم کا رخ کرتی ہیں۔ دوپہر دو بجے پڑھائی ختم ہونے کے بعد کھانا اور پھر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کوچنگ کلاسز۔ سورج غروب ہونے سے پہلے جوڈو کراٹے کی تربیت۔ شمالی سندھ کے مرکزی شہر سکھر کا یہ ایک منفرد گھرانہ ہے جس کا نام ’فیریز ہوم‘ یعنی پریوں کا گھر رکھا گیا ہے۔
فیریز ہوم شمالی سندھ میں یتیم اور بے سہارا لڑکیوں کے لیے ایک واحد غیر سرکاری نجی ادارہ ہے جس میں چار سال سے لیکر 18 سال کی لڑکیاں رہائش پذیر ہیں۔ اس ادارے کو پانچ سال قبل سماجی کارکن اور وکیل فرزانہ کھوسو نے قائم کیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فرزانہ کھوسو بتاتی ہیں کہ وہ ایک بار سیشن کورٹ میں بیٹھی تھیں تو وہاں ’ایک خاتون بچی کو چھوڑ کر چلی گئی کہ اسے یہ بچی نہیں چاہیے، اس کو یتیم خانے میں دے دیں۔‘
’اب جج ذاتی طور پر تو وکلا پر اعتماد کرتے ہیں لیکن کسی کو شخصی طور پر کسٹڈی نہیں دے سکتے ہیں لہٰذا یہ سوال اٹھا کہ سکھر میں کیا ایسا کوئی ادارہ ہے جس میں اس بچی کو رکھا جائے؟‘
’ایک ادارے کو عارضی طور پر بچی کی کسٹڈی دی گئی لیکن وہاں 200 سے 300 لڑکے تھے۔ اس صورتحال میں کسی بچی کے لیے وہاں رہنا دشوار تھا کیونکہ بچوں کی جنسی پراسانی کے کیسز عام ہیں اور اس بچی کی بھی بڑھتی ہوئی عمر تھی۔‘
فرزانہ کھوسو نے تعلیم کے ساتھ تربیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شمالی سندھ میں لڑکوں کے ادارے ہیں جہاں انھیں تعلیم فراہم کی جا رہی ہے لیکن لڑکیاں بھی بے سہارا ہو سکتی ہیں اور انھیں بھی بااختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی بھی یتیمی والی زندگی گزر سکتی ہے، وہ بھی غریب ہو سکتی ہیں تو ان کے لیے بھی کوئی پناہ گاہ ہونی چاہیے جو انھیں تربیت دے۔‘
لڑکیوں کے ادارے کی مخالفت
فرزانہ کھوسو کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے وکلا دوستوں کو تجویز دی کہ وہ مل کر لڑکیوں کا کوئی ایسا ادارہ بنائیں لیکن جواب میں انھیں سننے کو ملا کہ ’میڈم کیا پاگل ہو جو ایسا ادارہ کھولو گی، خرچہ کون دے گا؟ ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ لڑکیوں کے ادارے پر تو سوال اٹھیں گے۔‘
’میں جس سے بھی بات کرتی تھی تو لوگ حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ کوئی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ ہاں کھولو، ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
فرزانہ کھوسو کے شوہر عبدالواحد کھوسو انجینیئر ہیں اور ہوٹلنگ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ فرزانہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے بھی مشورہ دیا کہ وہ لڑکیوں کے ادارے سے دور رہیں لیکن وہ ڈٹ گئیں۔
بقول فرزانہ کے ان کے شوہر نے کہا کہ ’آپ جو قانونی مدد فراہم کر رہی ہو، وہ جاری رکھو لیکن لڑکیوں کا ادارہ نہ کھولو کیونکہ یہاں لوگوں کی خواتین کے بارے میں سوچ زیادہ تر منفی ہے، سوال اٹھیں گے اور لوگ مسئلے پیدا کریں گے، لہٰذا اس کام میں ہاتھ نہ ڈالو۔‘
’میں نے کہہ دیا کہ میں اپنا سب کچھ دے دوں گی، شاید وکالت کی پریکٹس بھی چھوڑ دوں لیکن فیری ہومز سے دستبردار نہیں ہوں گی۔ جب انھوں نے میرا جوش و جذبہ دیکھا تو وہ بھی ساتھ دینے لگے۔‘
فرزانہ کھوسو صبح سے لیکر شام تک فیری ہومز میں ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنی وکالت کی پریکٹس بھی کم کر دی ہے۔
اس ادارے میں رہنے والی لڑکیاں انھیں امی کہہ کر پکارتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس پناہ گاہ کا نام انھوں نے اس لیے فیریز ہوم رکھا تاکہ بچیاں اس کو اپنا گھر سمجھیں۔
فرازانہ کھوسو کے دو نوجوان بیٹے ہیں۔ ان کی بیٹی نہیں تو شاید وہ اسی لیے یہ سب کر رہی ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا نہیں، میں کہتی ہوں اب میری 70 بیٹیاں ہیں۔‘
نو عمری کی شادی اور تعلیم
فرزانہ کھوسو کا تعلق کشمور سے ہے اور ان کی نو عمری میں ہی شادی ہو گئی تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کی کمیونٹی میں 12-13 سال کی عمر میں شادی عام سی بات ہے اور ان کی بھی 13-14 سال کی عمر میں شادی ہوئی۔
’ہمارے یہاں پر لڑکیوں میں تعلیم کا تصور نہیں تھا، مرد سارے پڑھے لکھے ہوتے تھے تاہم لڑکیوں کو تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ جب میری شادی ہوئی تو میں نے اپنے شوہر سے بات کی اور کہا کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اگر تمہیں پڑھنے کا شوق ہے تو میں تمہارا ساتھ دوں گا۔‘
فرزانہ کے شوہر ان کو روزانہ سکول لے جانے لگے۔ اس طرح کالج سے لیکر لا گریجوئیٹ بننے تک انھوں نے فرزانہ کا بھرپور ساتھ دیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ وہ جب فرسٹ ایئر میں پہنچی تو ان کے بیٹے کی پیدائش ہو چکی تھی۔ ’یہ وقت کافی مشکل تھا کیونکہ ریگولر فرسٹ ایئر کی طالبہ بھی رہوں، بچے اور گھر کو بھی سنبھالوں، یہ ایک بڑا مشکل وقت تھا۔‘
فرزانہ کھوسو کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آئے جب انھیں اپنے بیٹے کے ساتھ کلاس میں پڑھنے کا تجربہ ہوا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا جب تیسری کلاس میں تھا تو انھوں نے اس کا انگلش زبان کی کلاس میں داخلہ کرایا اور خود بھی داخلہ لے لیا۔ ان دنوں وہ انٹر کے بعد بی اے کے تیاری کر رہی تھیں تو ایک ہی کلاس میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھیں۔
’بچے میں سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اچھی طرح سے تیاری کرکے جاتا تھا جبکہ میرے پاس گھر کی ذمہ داریاں اور کام کاج بھی ہوتے تھے۔‘
’ٹیچر میرے بیٹے کو ڈیسک پر کھڑا کر پریزینٹیشن دلواتا تھا اور کہتا تھا کہ اس کی ماں بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ مجھے خوشی ہوتی تھی کہ میرا بیٹا اتنا قابل ہے کہ میں اس سے گائیڈ لائن لے رہی ہوں۔‘
’مردوں کے ساتھ بیٹھے گی‘
فرزانہ کھوسو بتاتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہیں جس نے تعلیم حاصل کی۔
’شوہر کو یہ باتیں سننے کو ملیں کہ یہ اب گھر نہیں سنبھالے گی، تمہیں نہیں سنبھالے گی، تعلیم حاصل کرکے باہر نکلے گی۔‘
جب انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور بار میں انرولمنٹ لی تو ’لوگوں نے یہ سوال اٹھائے کہ تمھاری بیوی پولیس والوں کے ساتھ ملے گی؟ مردوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی؟‘
’میری فیملی کے لوگ مخالف ہو گئے۔ بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے کہ اس نے پڑھا ہے، میڈیا میں آتی ہے، یہ مردوں سے بات کرتی ہے، یہ پولیس والوں کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہے۔ میرے کردار پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔‘
فرزانہ کھوسو مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ طبعیت میں باغی ہیں لیکن اب گاؤں میں صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ اب ان کے خاندان میں کوئی لڑکی ڈاکٹر ہے تو کوئی ٹیچر۔
وہ بتاتی ہیں کہ اب عوامی طور پر بھی مثبت ردعمل نظر آتا ہے۔
’میرے والد نے خیراتی ہسپتال کے افتتاح کی تقریب رکھی تو خواتین کے لیے الگ بیٹھنے کا انتظام کیا گیا۔ میں نے والد کو کہہ دیا کہ اگر آؤں گی تو مردوں میں بیٹھوں گی، پردے کے پیچھے جا کر نہیں بیٹھوں گی۔ میں وہاں گئی اور مردوں میں بیٹھ کر ڈائس پر جا کر تقریر بھی کی تو اس کا مثبت نتیجہ آیا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ کھوسو صاحب کی بیٹی اچھا کام کر رہی ہے، اتنی ہمت ہے کہ مردوں میں آکر بات کر رہی ہے۔‘
’یہ لڑکیاں قتل کا کیس لڑیں گی؟‘
فرزانہ کھوسو سماجی کارکن بھی ہیں۔ سکھر کے ملٹری روڈ پر شہر کے معزز افراد کے بنائے گئے ایک پوٹریریٹ میں وہ واحد خاتون ہیں۔
وہ وکالت میں آنے کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ان کے علاقے کشمور میں زیادہ تر غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد کے واقعات زیادہ ہوتے تھے۔
’خواتین کو اپنے حقوق کا پتا نہیں ہوتا تھا تو ان مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچا جب تک میں اپنے حقوق نہیں جانوں اور پاؤں گی لوگوں کے حقوق کے لیے کیا جدوجہد کروں گی۔‘
فرزانہ کھوسو بتاتی ہیں کہ ’ہر شعبے میں مردوں کا تسلط ہے، وکالت بھی اس سے محفوظ نہیں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل وہ قتل کیس کے ایک کلائنٹ سے بات کر رہی تھیں تو ’ایک وکیل صاحب آئے اور کلائنٹ کو ساتھ لے گئے۔ کلائنٹ نے واپس آ کر کہا کہ وکیل صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ لڑکیاں ہیں، یہ کیا قتل کے کیس کی پیروی کریں گی؟‘
’میں نے کلائنٹ سے کہا کہ ہم لڑکیاں ہیں تو کیا ہوا؟ ہم ان مرد وکلا کے ساتھ کھڑے ہو کر دلائل دیتی ہیں، ان کے ساتھ کیسز بھی چلاتی ہیں، ایڈوکیسی میں کوئی مرد اور عورت نہیں ہوتا ہے، وکیل وکیل ہوتا ہے۔‘