سنہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل کی طرف سے اردن کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی مرتبہ سعودی عرب کا اعلیٰ سطح کا وفد مقبوضہ مغربی کنارے کے دورے پر ہے۔
اس وفد کے پہنچنے کے چند گھنٹے بعد اسرائیل کے وزیر سیاحت اقوام متحدہ کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچے ہیں۔
ان کے دفتر نے بتایا کہ ہائم کیٹز خلیجی ملک میں سرکاری وفد کی قیادت کرنے والے پہلے اسرائیلی وزیر بن گئے ہیں۔
یہ تاریخی دورے سعودی اور اسرائیلی رہنماؤں کی جانب سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں پر مثبت تبصرہ کرنے کے بعد ممکن ہو سکے ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں امریکہ بھی اپنے دو علاقائی اتحادیوں کے درمیان پیچیدہ مذاکرات کی ثالثی میں مصروف ہے۔
طاقتور ریاستوں کے درمیان معاہدہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک ڈرامائی تبدیلی کی نشاندہی کرے گا اور امریکی صدر جو بائیڈن کو خارجہ پالیسی میں ایک بڑی کامیابی حاصل ہو گی۔
منگل کی صبح فلسطینیوں کے لیے سعودی عرب کے پہلے سرکاری ایلچی، نایف السدیری، جو اردن میں سفیر بھی ہیں، دو روزہ دورے کے لیے کراما کراسنگ کے ذریعے مغربی کنارے پہنچے ہیں۔
اسرائیل سرحد پر داخلے کے انتظام کو کنٹرول کرتا ہے اور اسے اس کی آمد کی اجازت دینی پڑتی ہے۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے اسے ریاض کے ساتھ تعلقات میں ’ایک تاریخی سنگ میل‘ قرار دیا ہے۔
سعودی سفارت کار سے رام اللہ میں دھوم دھام سے ملاقات ہوئی، جہاں فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کا ہیڈ کوارٹرز ہے۔
صدارتی احاطے میں انھوں نے ’گارڈ آف آنر‘ کا جائزہ لیا جو ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے، جب کہ فلسطینی اور سعودی قومی ترانے بجائے گئے۔
اس کے بعد انھوں نے ایک تقریب میں فلسطینی صدر محمود عباس کو اپنی سرکاری اسناد پیش کیں۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نایف السدیری نے فلسطینیوں کو پیش رفت کے بارے میں یقین دلانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اس نایاب انٹرویو کا حوالہ دیا جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے چند روز قبل امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کو دیا تھا۔
واضح رہے کہ اس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ہر روز ہم سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معمول پر آنے کے معاہدے کے قریب آتے ہیں، جبکہ انھوں نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین اب بھی بات چیت کا ایک ’انتہائی اہم‘ حصہ ہے۔
سفیر نے کہا کہ ’فلسطینی کاز میں ولی عہد کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ پورا خطہ اور دنیا مستحکم اور محفوظ ہو کیونکہ یہ دنیا کی پوری آبادی کی مثبت انداز میں عکاسی کرتا ہے‘۔
ہائیم کرٹز کے دورہ ریاض کا پہلے اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
وہ دو دن سعودی عرب میں ہی رہیں گے، جہاں وہ اقوام متحدہ کی عالمی سیاحتی تنظیم کے عالمی یوم سیاحت کی تقریب میں شرکت کریں گے۔
ہائیم کاٹز کے دفتر نے ان کے حوالے سے کہا کہ ’سیاحت قوموں کے درمیان ایک پل ہے‘۔ ان کے مطابق ’سیاحت کے مسائل پر شراکت داری دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور اقتصادی خوشحالی کی صلاحیت رکھتی ہے‘۔
ان کے مطابق ’میں سیاحت اور اسرائیل کے خارجہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تعاون پیدا کرنے کے لیے کام کروں گا‘۔
گذشتہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ان کا ملک سعودی عرب کے ساتھ ایک معاہدے کے قریب ہے۔ یہ ایک ایسی پیش گوئی ہے جو مشرق وسطیٰ کو بدل کر رکھ دے گی۔
تاہم امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ بات چیت کے باوجود ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔
اگر آنے والے مہینوں میں کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس میں ریاض اور واشنگٹن کے درمیان دفاعی معاہدہ اور سعودی عرب کے لیے سویلین نیوکلیئر پروگرام کے لیے مدد کی توقع کی جا رہی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک نئے امن عمل کے مطالبات کے ہوتے ہوئے امریکہ اور سعودی عرب دونوں فلسطین کے سوال پر اہم پیش رفت دیکھنا چاہیں گے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست امن مذاکرات، جو امریکہ کی ثالثی میں ہوئے تھے، سنہ 2014 سے معطل ہیں۔
حال ہی میں خاص طور پر مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے درمیان دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔
صدر عباس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں سعودی اسرائیل کے درمیان معمول پر آنے والے معاہدے کے امکان کا حوالہ دیتے ہوئے نظر آئے اور کہا کہ جب تک فلسطینیوں کو مکمل حقوق نہیں دیے جائیں گے کوئی نیا مشرق وسطیٰ امن معاہدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
جب انھوں نے نیو یارک میں بات کی تو سعودی وزیر خارجہ نے دو ریاستی حل کے ہدف کو بحال کرنے پر بھی زور دیا۔