’ایک لڑکی مجھے جذباتی خطوط لکھتی تھی اور میں نے دس بارہ بار خطوط کے جواب بھی دیے۔ پھر ایک دن میں نے جواب دینا بند کر دیا۔ اس نے میرے سارے خطوط جمع کیے اور الوداعی نوٹ کے ساتھ مجھے واپس بھیج دیے۔ اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ مجھے ہزاروں مداحوں کے خطوط ملتے تھے۔ ایک بار میں نے ایک مداح کے خط کا جواب دیا۔ اس کے بعد اس نے صرف اس امید پر مجھے 3720 خطوط بھیجے کہ میں دوبارہ جواب دوں گا۔‘
یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ انڈیا کے سدا بہار فلم سٹار کہے جانے والے اداکار دیو آنند نے اپنی سوانح عمری ’رومانسنگ ود لائف‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اگر دیو آنند زندہ ہوتے تو آج ان کی عمر 100 سال ہوتی۔
وہ ایک ایسے سٹار تھے جنھیں انڈیا، پاکستان، نیپال اور نجانے کتنے ممالک میں بے انتہا مقبولیت حاصل تھی۔ ہالی وڈ میں ڈیوڈ لین، گریگوری پیک، فرینک کوپالا جیسے بڑے فنکار انھیں جانتے تھے۔
دیو آنند کی پیدائش اس غیر منقسم پنجاب میں ہوئی جو اب پاکستان میں ہے۔ لاہور سے گریجویشن کے بعد جولائی 1943 میں جیب میں 30 روپے لے کر وہ فرنٹیئر میل سے بمبئی پہنچے اور چند ہی برسوں میں بڑے سٹار بن گئے۔
لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بعد انھیں اپنے شہر لاہور واپس آنے کے لیے 55 برس تک انتظار کرنا پڑے گا جہاں ان کے ہزاروں چاہنے والے رہے ہیں۔
جب دیو آنند دروازے سے لگ کر رو پڑے
جب دیو آنند نے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا تو صحافی گوہر بٹ لاہور میں تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گوہر نے وہ منظر بیان کیا جب دیو آنند 55 سال بعد اپنے شہر اور لاہور کے اس کالج میں واپس گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’جب ہم کالج میں داخل ہوئے تو میں نے چوکیدار سے کہا کہ دیو آنند آ گئے ہیں۔ چوکیدار نے حیران ہو کر کہا کہ ’او انڈیا توں آیا ہے؟‘ جیسے ہی دیو آنند نے اپنے کالج کو دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انھوں نے ایک دروازے کو گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ کالج کے دوران انھیں اوشا نامی لڑکی سے پیار تھا۔ اس کا نام پکارا۔‘
’سٹیج پر بیٹھ کر بھی روتے رہے۔ دیواروں سے گلے مل کر روتے رہے۔ انھوں نے وہ بات بتائی جو اوشا کو آخری بار لاہور کالج چھوڑتے وقت کہی تھی۔‘
اداکار بننے کا شوق
جب دیو آنند لاہور چھوڑ کر بمبئی آئے تو ابتدا میں انھوں نے بطور کلرک اور پھر برطانوی فوج میں کام کیا لیکن ان کی خواہش تو اداکار بننے کی تھی۔ ایک دوست جس کے ساتھ وہ میوزک کی کلاس لیتے، نے انھیں پروڈیوسر بابو راؤ پئے کی فلم کے بارے میں بتایا۔
وہاں پہنچے تو چوکیدار نے اندر جانے کی اجازت نہ دی لیکن بابو راؤ جو باہر ہی بیٹھے تھے، خوبصورت لڑکے کے چہرے کو نظر انداز نہ کر سکے۔
انھیں آڈیشن کے لیے ’دکن کوئین‘ ٹرین سے پونے بھیجا گیا جبکہ ان کی پہلی فلم ’ہم ایک ہیں‘ کا سفر 1946 میں شروع ہوا۔
پہلی ہی فلم میں دیو آنند کے سامنے ایک شرط رکھی گئی تھی۔ دیو آنند اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’مجھے بتایا گیا کہ تمہارے دانتوں کے درمیان فلر لگانا ہوں گے۔ میں نے اپنی زبان کو اس بات کا یقین کرنے کے لیے دانتوں پر پھیرا کہ واقعی میرے آگے کے دانتوں کے دونوں طرف خلا ہے۔ دانتوں میں جگہ کی وجہ سے میں فلرز کے ساتھ شوٹنگ کرتا رہا لیکن میں نیچرل محسوس نہیں کر رہا تھا۔ بعد میں میری درخواست پر اس فلر کو ہٹا دیا گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ لوگوں نے مجھے ویسا ہی قبول کیا ہے جیسا میں ہوں۔‘
دیو آنند کے لیے پرستار دانت تڑوانے لگے
دیو آنند کے چاہنے والوں کی دیوانگی کی کہانیاں نیپال میں بھی سنی جا سکتی ہیں جہاں انھوں نے فلم ’ہرے رام ہرے کرشنا‘، ’جانی میرا نام‘ اور ’عشق عشق عشق‘ کی شوٹنگ کی تھی۔
نیپال کے سینیئر صحافی بسنت تھاپا کہتے ہیں کہ ’نیپال میں دیو آنند کے جیسا ہیئر سٹائل بنانے کے لیے لڑکے اپنے بالوں میں بانس کی لکڑی میں ایک خاص قسم کا گرم تیل لگاتے تھے۔ دیو آنند کے دانتوں میں خلا تھا۔ صورت حال ایسی تھی کہ لڑکے اپنے دانتوں کی شکل بگاڑ کر دیو آنند کی طرح دانت نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب نیپال میں ہرے راما ہرے کرشنا کی شوٹنگ ہوئی تو پورا شہر جمع ہو گیا تھا۔
’ایک رات ہمیں معلوم ہوا کہ گانا ’دم مارو دم‘ کھٹمنڈو میں شوٹ ہو رہا ہے۔ دیو آنند اور زینت امان کو دیکھ کر ہجوم اتنا بے قابو ہو گيا کہ پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ یہ دیو صاحب کا جادو تھا۔‘
دیو آنند اور کالی قمیض کی کہانی
دیو آنند کی جھکی ہوئی گردن، ان کی مخصوص ٹوپی، گلے میں رنگین سکارف اور جس طرح وہ بغیر کسی توقف کے مسلسل بولتے تھے، بہت سے لوگ اس انداز کے مداح تھے۔
اس بارے میں دیو آنند نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دراصل میں جھکتا ہوں، ترچھا چلتا ہوں۔ مجھے فلموں میں لمبے لمبے ڈائیلاگ ملتے تھے اور میں اس مخمصے میں تھا کہ رکوں یا نہیں۔ تو میں ایک ہی سانس میں بولتا تھا۔ اور یہ دیو آنند کا انداز بن گیا۔‘
ان کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ دیو آنند کے بارے میں یہ بات پھیل گئی کہ انھیں کالی شرٹ پہن کر باہر جانے سے منع کر دیا گیا ہے کیونکہ لڑکیاں انھیں دیکھ کر اپنا ہوش کھو بیٹھتی ہیں۔
تاہم دیو آنند نے اس پر ہنستے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک افواہ تھی جو فلم ’کالا پانی‘ میں ان کے کالے لباس پہننے سے شروع ہوئی تھی۔
انڈونیشیا کے صدر شوٹنگ میں پہنچے
دیو آنند کے چاہنے والوں میں ڈاکوؤں سے لے کر سربراہان مملکت تک سب شامل تھے۔ فلم کالا پانی کی شوٹنگ کے دوران انڈونیشیا کے صدر سوکارنو خصوصی طور پر شوٹنگ دیکھنے آئے تھے۔
’رومانسنگ ود لائف‘ میں دیو آنند نے لکھا کہ ’ہم بےخودی میں تم کو پکارے چلے گئے’‘ گیت کی شوٹنگ ہونی تھی اور سب صدر کا انتظار کر رہے تھے۔ جب دو گھنٹے بیت گئے اور وہ نہیں آئے تو ہم نے گانا شوٹ کرنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی شوٹنگ ختم ہوئی ہمیں معلوم ہوا کہ وہ آ چکے ہیں۔ ہم نے وہ شوٹنگ دوبارہ انڈونیشیا کے صدر کے لیے کی۔ صدر نے زور سے تالیاں بجائیں۔ وہ ہندی فلم کی شوٹنگ دیکھ کر بہت خوش تھے۔ مجھے کالا پانی کے لیے فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا، جو میں نے مصری صدر جمال عبد الناصر سے حاصل کیا۔‘
ڈاکو نے تصاویر لیں
مداحوں کی بات چل نکلی تو دیو آنند کا چمبل میں شوٹنگ کرنے کا واقعہ یاد آ گیا۔
دیو آنند لکھتے ہیں کہ ’شوٹنگ کے لیے ہم چمبل کے علاقے کے ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کسی نے ہمیں خبردار کیا کہ ڈاکو حملہ کرنے والے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان سے کہو کہ آٹوگراف کے لیے کاپیاں لے کر آئیں اور اگر ان کے پاس کیمرے ہیں تو فوٹو کے لیے کیمرے لے کر آئیں، ان کے پاس اپنی زندگی کا آخری موقع ہے کہ وہ اپنے سکرین ہیرو کے ساتھ تصویر لے سکیں۔‘
’اگلے دن جب ہم شوٹنگ کر رہے تھے تو میں ٹرک پر کھڑا ہوا اور ان سے کہا، کیسے ہو میرے ہم وطنو۔۔۔ ان میں سے کوئی مجھ سے ہاتھ ملانے لگا اور کسی نے مجھے گلے لگا لیا۔‘
دیو آنند کے دوست بھی ان کے اتنے ہی مداح تھے۔
سنہ 2011 میں اداکار منوج کمار نے یہ بات بی بی سی کی مدھو پال کے ساتھ شیئر کی تھی کہ ’جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میں بہت اداس تھا، پھر ڈیڑھ ماہ تک دیو صاحب روزانہ دو گھنٹے میرے ساتھ گزارتے تھے، چاہے وہ صبح ہو، دوپہر یا شام۔‘
منوج کمار کہتے ہیں کہ ’ایک بار کسی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ارے بھائی! یہ ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ آپ کا ٹائٹل ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ فون پر موجود شخص نے کہا کہ آج سے یہ میرا ہو گیا۔ وہ دیو جی تھے۔‘
رسک لینے والے دیو آنند
دیو آنند کو سٹائلش سٹار ہونے کے علاوہ ہندی فلموں میں دوراندیش بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان میں خطرہ مول لینے کی ہمت تھی۔
وہ لڑکا جو 1943 میں تقریباً خالی ہاتھ ممبئی آیا تھا اس نے سنہ 1949 میں اپنا نیا پروڈکشن ہاؤس کر لیا۔
انھوں نے ’ٹیکسی ڈرائیور‘، ’کالا بازار‘، ’ہم دونوں‘ جیسی مین سٹریم فلمیں کیں لیکن ’گائیڈ‘ (1965) کی شکل میں ایک بولڈ موضوع کا انتخاب بھی کیا جس میں محبت کا بالکل مختلف روپ دکھایا گیا تھا۔
اس وقت لوگ ’گائیڈ‘ فلم خریدنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن آج بہت سے لوگ گائیڈ کو دیو آنند کا شاہکار سمجھتے ہیں۔
جب ان کی کتاب ریلیز ہوئی تو مجھے لندن میں دیو آنند کے انٹرویو کا موقع ملا۔
اپنے مخصوص انداز میں انھوں نے کہا کہ ’اگر لوگ کہتے ہیں کہ گائیڈ بہترین کام ہے تو ہمیں لوگوں کی بات سننی ہو گی لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں ہو گا کہ میں اپنے پچھلے اچھے کام سے بہتر کام نہیں کر سکتا۔ ہم بھی دیو آنند ہیں۔‘
ثریا اور دیو آنند کی محبت
دیو آنند کی ذاتی زندگی بھی کھلی کتاب کی طرح تھی۔ وہ اداکارہ ثریا سے محبت کرتے تھے لیکن مذہب کی رکاوٹوں کی وجہ سے دونوں کی شادی نہ ہو سکی اور ثریا ساری زندگی تنہا رہیں۔
سینیئر صحافی علی پیٹر جان دیو آنند کے دوست اور مداح بھی تھے۔
اپنی کتاب ’مائی دیو، میموری آف این اممورٹل مین‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’دیو آنند کہتے تھے کہ کاش ہماری کہانی کا انجام کچھ اور ہوتا۔ میں اس وقت سکرین میگزین میں کام کرتا تھا اور 2002 میں سکرین نے ثریا کو لائف ٹائم ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ثریا میرے ساتھی فیروز سے پوچھتی رہیں کہ کیا دیو آئیں گے۔ فیروز نے کہا کہ دیو کبھی بھی سکرین کے کسی فنکشن کو نہیں چھوڑتے لیکن دیو آنند نے کہا کہ علی یہ اچھا نہیں لگے گا۔ میں نے 40 سال سے نہ اسے دیکھا اور نہ ہی اس سے فون پر بات کی۔ اس بار رہنے دو۔ میں جانتا ہوں کہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی اسے برداشت نہیں کر سکے گا۔‘
’بعد میں دیو جاننا چاہ رہے تھے کہ ثریا کیسی نظر آ رہی تھیں، ان کے بالوں میں پھول تھے، انھوں نے کس قسم کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ ثریا کی موت کے دن انھوں نے مجھے بلایا۔ وہ ٹیرس پر ایک خیمے میں اکیلے بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بس آنسو تھے۔‘
لیکن اپنے گیت ’میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا‘ کی طرح دیو آنند نے زندگی میں آگے بڑھ کر اپنی ہیروئن کلپنا کارتک سے شادی کی۔
’ایور گرین دیو آنند‘
سینیئر فلم صحافی بھارتی دوبے کہتی ہیں کہ ’انھیں ہندوستان کا پہلا ’اربن ہیرو‘ کہا جاتا تھا۔ وہ دیہاتی کردار ادا نہیں کر سکے لیکن دیو آنند کا انداز اور دلکشی مختلف تھی۔
آئیے دیو آنند کے بچپن کی طرف واپس چلتے ہیں۔ دیو آنند اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کے قریب شربت پی رہے تھے۔
شربت بیچنے والے نے دیو صاحب کی طرف دیکھا اور کہا کہ آپ کی پیشانی پر بڑا سورج ہے اور آپ بڑے مشہور انسان بنیں گے۔
اسے قسمت کہیے، محنت، جذبہ یا اتفاق، وہ بچہ بڑا ہو کر بڑا سٹار بن گیا۔
شاید اسی لیے پونے کے ان کے مداح یووراج شاہ نے دیو آنند کے لیے ایک باغ بنوایا جس کا نام ’ایور گرین دیو آنند ادیان‘ رکھا ہے۔