انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں افغانستان کے سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سفارتخانہ یکم اکتوبر 2023 یعنی اتوار سے اپنا کام بند کر رہا ہے۔
یہ سفارتخانہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جون 2002 میں دوبارہ کھولا گیا تھا۔ اس سے قبل افغانستان پر طالبان کی آمد کے بعد سے انڈیا نے طالبان کی پہلی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
بہرحال 21 سال کام کرنے کے بعد ایک بار پھر سے دارالحکومت دہلی میں موجود افغانستان کے سفارتخانے نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔
سنیچر کی رات دیر گئے افغانستان کے سفارتخانے نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’یہ فیصلہ افغانستان کے مفاد میں لیا گیا ہے۔‘
تین صفحات پر مشتمل اپنے بیان میں سفارتخانے نے اس فیصلے کی تین اہم وجوہات بتائی ہیں۔ ان میں سے پہلی وجہ انڈین حکومت کی جانب سے عدم تعاون کو قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے افغانستان کے مفادات کے تحفظ سے متعلق توقعات پر سفارتخانے کا پورا نہ اُترنا اور تیسری وجہ ملازمین کی تعداد اور وسائل کی کمی بتائی گئی ہے۔
اس اعلان سے کچھ عرصہ قبل افغانستان کے سفارتخانے نے انڈیا میں اپنے آپریشنز بند کرنے کے متعلق انڈین حکومت کو خط لکھا تھا۔ انڈیا نے تاحال اس بابت سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
بہر حال حالیہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سفارتخانے میں کام کرنے والے انڈین ملازمین کو بغیر اطلاع کے نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور بہت سے افغان سفارتکار انڈیا چھوڑ کر مغربی ممالک میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔
ہم نے اس بابت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد مظہر الحق سے بات کی جنھوں نے گذشتہ دہائیوں میں ایک اچھا خاصہ عرصہ افغانستان میں گزارا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ تو سب جانتے ہیں کہ انڈیا کا کابل میں موجود سفارتخانہ کسی نہ کسی صورت کام کر رہا ہے اور وہاں انڈیا کی ٹیم ٹیکنیکل طور پر موجود ہے لیکن انڈیا میں موجود افغان سفارتخانے میں صورتحال مختلف ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ دہلی میں تعینات بہت سے افغان اہلکار کے ویزوں کی میعاد ختم ہو گئی ہے اور اس میں انڈین حکومت کی جانب سے اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایک قسم کا تعطل پیدا ہو گيا ہے۔
معروف تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’افغان طالبان کی جانب سے نئی دہلی میں چارج ڈی افیئرز کے طور پر مقرر کیے گئے شخص قادر شاہ کے ویزے کی میعاد مبینہ طور پر ختم ہو گئی ہے جس نے اقتدار کی جدوجہد کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘
’اگر انڈین حکومت شاہ کے ویزے میں توسیع کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ نئی دہلی میں افغان سفارتخانے میں طالبان کے مقرر کردہ سفارتکار کو قبول کرنے اور ایک طرح سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے تعبیر کیا جائے گا۔‘
پروفیسر مظہرالحق نے بتایا کہ دوسری جانب اشرف غنی کے زمانے سے تعینات سفیر فرید ماموند زئی رواں سال جب حج کو گئے تو وہ وہاں سے واپس برطانیہ چلے گئے جہاں کی ان کی شہریت ہے اور جب انھوں نے حکومت ہند کو اپنے دہلی آنے کے بارے آگاہ کیا تو انڈیا کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا پھر انھوں نے حکومت ہند کو خط بھی لکھا اور بالآخر انھوں نے برطانیہ میں ہی رہنے کا اعلان کیا۔
افغان سفارتخانے نے کیا کہا؟
افغانستان کے سفارتخانے نے انڈیا میں آپریشن بند کرنے کے فیصلے کو ’بدقسمت‘ اور ’انتہائی مشکل فیصلہ‘ قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے بیان میں سفارتخانے نے لکھا کہ ’یہ فیصلہ افغانستان اور انڈیا کے درمیان تاریخی تعلقات اور دیرینہ تعلقات کے پیش نظر بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔‘
سفارتخانے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‘یہ فیصلہ تین اہم وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے۔ سفارتخانے نے کہا کہ پہلے تو ہمیں میزبان ملک سے کوئی خاص مدد نہیں مل رہی جس کی وجہ سے ہم اپنا کام مؤثر طریقے سے نہیں کر پا رہے ہیں۔
’دوسرے، ہم سمجھتے ہیں کہ انڈیا کی طرف سے سفارتی حمایت کی کمی اور افغانستان میں ایک جائز حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے، ہم افغانستان یا افغان شہریوں کی ضروریات اور مفادات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘
’تیسرے، ملازمین کی تعداد اور وسائل میں کمی کی وجہ سے ہمارے لیے اپنا کام جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ سفارتکاروں کے ویزے کی تجدید سے لے کر دیگر کاموں تک ہمیں وقت پر ضروری مدد نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے ٹیم کے اندر مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور اس سے کام متاثر ہو رہا ہے۔‘
سفارت خانے نے مزید کہا: ’ان وجوہات کے پیش نظر ہم نے سفارت خانے کے تمام آپریشنز کو بند کرنے کا مشکل فیصلہ کیا ہے۔ تاہم افغان شہریوں کے لیے ہنگامی قونصلر خدمات اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک کہ مشن سرکاری طور پر کام انڈیا کے حوالے نہیں کر دیتا۔ ویانا کنونشن کے تحت سفارت خانے کی جائیداد اور سہولیات میزبان ملک کے حوالے کر دی جائیں گی۔‘
الزامات کی تردید
سفارتخانے نے ملازمین کے درمیان اختلافات بڑھنے کے متعلق الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘سفارتکاروں اور سفارت خانے کے عملے کے درمیان اختلافات یا لڑائی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمارے سفارتکار کسی تیسرے ملک میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سب محض افواہیں ہیں۔ ہم افغانستان کے مفاد میں ایک ٹیم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘
’ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے انڈین وزارت خارجہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں سفارتخانہ بند کرنے کی وجوہات بتائی گئی ہیں۔ حکومت ہند سے درخواست ہے کہ وہ اس درخواست پر سنجیدگی سے غور کرے۔‘
بیان میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’ہم چاہیں گے کہ افغان پرچم کو سفارتخانے کی عمارت پر لہرانے کی اجازت دی جائے، اور ساتھ ہی کابل میں جائز حکومت کو جائیداد کی مناسب منتقلی کی جائے۔‘
انڈیا میں مقیم افغان شہریوں کے متعلق سفارت خانے نے کہا: ’ہم یہاں رہنے والے شہریوں کے مسائل اور خدشات سے آگاہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں جو کچھ بھی ہوا ہے اس کے بعد ان کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم انھیں ضروری معلومات فراہم کرتے رہیں گے۔‘
انڈیا میں افغانستان کے قونصل خانوں کے بارے میں بھی انتباہ جاری کیا گیا ہے۔
دہلی میں افغانستان کے سفارتخانے نے قونصل خانوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا: ’ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چند قونصلرز کے فیصلے افغانستان کی منتخب اور جائز حکومت کے مقاصد کے مطابق نہیں ہوں گے بلکہ یہ افغانستان میں موجود غیر قانونی حکومت کے مفاد میں ہوں گے۔‘
افغانستان کے ممبئی اور حیدرآباد میں قونصل خانے ہیں۔ دو دن پہلے ان دونوں سفارتخانوں نے کہا ہے کہ وہ انڈیا میں اپنا کام جاری رکھیں گے۔
انڈیا افغانستان تعلقات
انڈیا اور افغانستان کے تعلقات تاریخی رہے ہیں لیکن پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان کی آمد کے بعد اس میں تعطل آ گیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتکاری کا عمل رُک گیا تھا تاہم سنہ 2001 میں امریکہ کی حمایت میں آنے والی افغان حکومت کے قیام کے بعد انڈیا کے تعلقات بہتر ہوتے گئے۔
پروفیسر محمد مظہرالحق کا کہنا ہے کہ آج انڈیا کی افغانستان سے تجارت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد اگرچہ سفارتی تعلقات ظاہری طور پر نظر نہیں آتے لیکن ٹیکنیکل اسسٹینس کے طور پر انڈیا کی وہاں موجودگی کافی مضبوط ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں مستقل لگی ہوئی ہے اور چین کی جانب سے سفارتخانے کا کھولا جانا اس کی کامیابی ہے۔
انڈیا نے افغانستان میں بہت سے پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں اور اس نے تقریباً تین ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔
تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا نے 2001 اور 2021 کے درمیان 20 برسوں میں افغانستان کے 34 صوبوں میں 500 سے زیادہ منصوبوں پر کام کیا ہے اور اس طرح وہ رفتہ رفتہ افغانستان کی ترقی کے کاموں میں سب سے بڑا شراکت دار بن گیا اور اس نے اس دوران تین ارب ڈالر سے زیادہ کا تعاون کیا ہے۔
اس نے افغانستان کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے تعلیم و تربیت کے شعبے میں تعاون فراہم کیا اور گذشتہ 16 برسوں میں 60 ہزار سے زیادہ افغان شہریوں نے انڈیا میں تعلیم مکمل کی ہے جبکہ افغان فوجیوں کو تربیت بھی دی گئی ہے۔
مظہرالحق کا کہنا ہے کہ انڈیا نے وہاں جتنا کچھ لگایا ہوا ہے اور جس طرح سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے، وہ دونوں ممالک کے تعلقات پر بخوبی روشنی ڈالتے ہیں۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے انکشاف کیا کہ ان کی حکومت ‘بیرون ملک دیگر سفارتی مشنز کا چارج سنبھالنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
’سابق حکومت کے سفارتکار وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان، چین، روس، ایران، ترکی، قزاقستان اور بعض دیگر عرب اور افریقی ممالک میں افغان سفارتخانے اب طالبان کے مقرر کردہ سفارتکاروں کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔‘