بہت سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ جب فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے جنگجو غزہ کی پٹی سے ملحقہ اسرائیلی علاقوں میں کھلے عام گھوم رہے تھے تو ان طویل گھنٹوں میں اسرائیل کا دفاع یعنی اس کی افواج کہاں تھیں؟
ایک اسرائیلی نے نشاندہی کی کہ جن آبادیوں پر حملہ ہوا ان میں سے چند کو فوج کے انتظار میں خود سول حفاطتی ٹیموں پر انحصار کرنا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ ’فوری ردعمل دینے والی قوت کے طور پر اسرائیلی فوج بالکل ناکام رہی۔‘
مگر یہ سب کیسے ہوا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں تو کافی وقت لگے گا۔ تاہم فی الحال ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چونکا دینے والی برق رفتاری اور حماس کے آپریشن کی وسعت نے اسرائیلی دفاعی نظام کو ناکام بنا دیا جو ایسے حملے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔
حماس کے حملے کا سب سے اہم پہلو ’سرپرائز‘ تھا یعنی اسرائیل کو اس کی بلکل خبر نہ تھی۔
اسرائیلی خفیہ اداروں کو حماس کی جانب سے اس حملے کی منصوبہ بندی کی بِھنک بھی نہیں پڑ سکی۔ ایسا لگتا ہے کہ حماس نے طویل مدت تک دھوکے سے یہ تاثر دیا جیسا کہ وہ کسی قسم کا حملہ کرنے کی صلاحیت اور خواہش کھو بیٹھی ہے۔
اس کے علاوہ حماس نے اسرائیلی خفیہ اداروں سے یہ راز چھپانے کے لیے شاید اس حملے کے بارے میں منصوبہ بندی کے دوران پیغام رسانی کے لیے الیکٹرانک آلات کا بھی استعمال نہیں کیا۔ اس کے بعد غیر معمولی برق رفتاری اور وسعت کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔
ہزاروں راکٹ داغے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر نظر رکھنے کے لیے نصب آلات پر ڈرون حملے بھی کیے گئے۔ سکیورٹی رکاوٹوں میں دھماکوں اور گاڑیوں کی مدد سے 80 سے زیادہ مقامات پر راستہ بنایا گیا۔
گلائیڈرز اور موٹر سائیکلوں پر سوار تقریبا 800 سے ایک ہزار مسلح افراد سیلاب کی طرح غزہ سے نکل کر اسرائیل میں متعدد مقامات پر پھیل گئے۔ یہ حکمت عملی اسرائیلی دفاعی نظام پر حاوی ہونے میں مددگار ثابت ہوئی، کم از کم کچھ مدت کے لیے۔
سنیچر کے دن، جب تہوار اور چھٹی بھی تھی، اتنی زیادہ نقل و حرکت نے اسرائیلی کمانڈ اور کنٹرول مراکز میں کھلبلی مچا دی ہو گی۔
حماس کے چند جنگوؤں نے عام شہری آبادیوں جبکہ دیگر نے فوجی چوکیوں اور اڈوں کو نشانہ بنایا۔ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ چند فوجی چوکیوں پر اتنی آسانی سے قبضہ کر لیا گیا اور تصاویر میں دیکھا گیا کہ اسرائیلی ٹینک تک حماس کے قبضے میں تھے۔
سرحد پر جو نقب لگایا گیا تھا، وہ اتنی دیر تک برقرار رہا کہ حماس کے جنگجو باآسانی اسرائیلی یرغمالیوں کو غزہ کی پٹی واپس لے جانے میں کامیاب ہوئے، اس سے پہلے کہ اسرائیل نے ٹینکوں کے ذریعے سرحدی رکاوٹوں پر لگی دراڑوں کو پُر کیا۔
اسرائیلی دفاع بظاہر کمزور تھا اور جگہ جگہ خامیاں نظر آئیں۔ حالیہ مہینوں میں اسرائیلی دفاعی نظام کی توجہ غربِ اردن پر رہی ہے اور غالباً حماس نے اسرائیلی فوج کو گمراہ کرنے کے لیے اسرائیلی معاشرے میں موجود اس تقسیم کا بھی فائدہ اٹھایا جس کی وجہ وزیر اعظم نیتن ہاہو کی پالیسیاں ہیں۔
طویل عرصے سے اسرائیلی فوج اور خفیہ ادارے مشرق وسطیٰ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے اولین صف میں شامل کیے جاتے ہیں۔ لیکن شاید انھوں نے اپنے مدمقابل کی صلاحیت کا درست اندازہ نہیں لگایا۔
امریکہ میں اسرائیل پر ہونے والے حالیہ حملوں کا موازنہ ستمبر 2001 کے حملوں سے کیا جا رہا ہے جب کوئی بھی یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا کہ طیاروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے اکثر ’تصور کی ناکامی‘ کہا جاتا ہے۔
شاید ایسی ہی تصوراتی ناکامی اسرائیل کے مسائل کی وجہ بنی اور وہ اپنے دشمن کی جانب سے اتنے جرات مندانہ منصوبے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔
یہ خدشات یقینا طویل المدتی تحقیقات کا حصہ ہوں گے جو آنے والے وقتوں میں کی جائیں گی۔ فی الحال اسرائیل کی کوشش ہو گی کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بحائے اس نکتے پر دھیان دے کہ اب کیا کرنا ہے۔