سنیچر کے روز عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اب تک 700 اسرائیلی جبکہ 400 سے زیادہ فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اُدھر پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج اسرائیل میں جاری لڑائی کے دوران علاقائی مزاحمت کو تقویت دینے کے لیے بحری جہاز اور لڑاکا طیارے تعینات کر رہی ہے۔
حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملوں کو ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین میں موجودہ صورتحال کو گذشتہ دہائیوں میں سب سے زیادہ کشیدہ صورتحال قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے بہت سے شہری اور فوجیوں کو فلسطینی جنگجوؤں کی جانب سے یرغمال بنایا گیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری کے باعث اب تک ایک لاکھ 23 ہزار سے زیادہ فلسطینی بیدخل ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں ہم یہ جائزہ لیں گے کے حماس کی بنیاد کیسے پڑی، یہ تنظیم ہتھیار کہاں سے حاصل کرتی ہے اور اس کے پاس موجود راکٹ اور میزائل کس صلاحیت کے حامل ہیں۔
اس سے قبل شیخ احمد یاسین نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے مزاحمت کے لیے نئی نوجوان نسل کو تیار کرنے میں کافی وقت صرف کیا ہے۔
شیخ احمد یاسین، جنھیں کئی برس بعد اسرائیل نے ہلاک کر دیا تھا، اس وقت ادھیڑ عمر اور معذور تھے جن کے اعلان پر شاید اس وقت بہت زیادہ لوگوں نے دھیان نہیں دیا تھا۔
اس تحریک کے قیام کے اعلان کے بعد حماس کے عسکری ونگ کی بنیاد رکھی گئی تاہم اسرائیلی فوج کے خلاف پہلا آپریشن دو سال بعد ہوا جب دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا گیا۔
غزہ کی پٹی میں 2006 میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابات سے قبل حماس قابل قدر عسکری قوت کی حامل نہیں تھی تاہم 2006 کے انتخابات میں حماس نے اکثریت حاصل کی اور غزہ کی پٹی میں حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں آ گئی۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے ان نتائج کو مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ حماس تشدد کو ترک کرے اور اسرائیل کو تسلیم کرے۔
چند ماہ بعد حماس اور فتح تحریک کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ فتح کو بین الاقوامی طور پر فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ان جھڑپوں کے نتیجے میں فتح اراکین کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کر دیا گیا اور حماس نے غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
حماس اسلحہ کیسے حاصل کرتی ہے؟
اس تنازع میں یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب حتمی طور پر کسی کے پاس نہیں۔ تاہم چند تجزیے ممکن ہیں۔
حماس کی ابتدا ہلکے ہتھیاروں سے ہوئی اور بعد میں اس نے اسلحہ سازی بھی کرنا شروع کر دی۔ ماضی میں حماس سے منسلک اسلحہ کارخانوں پر اسرائیل نے وقتا فوقتا بمباری بھی کی۔
غزہ سے اسرائیل پر پہلی بار 2006 میں روسی ساختہ کاٹیوشا راکٹ داغا گیا جس کے بعد اسرائیلی فورسز کی جانب سے 2007 میں غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر لیا گیا اور حماس کے لیے ہتھیار حاصل کرنا آسان نہیں رہا۔
اسی وجہ سے حماس نے خود ہی ہتھیار بنانا شروع کر دیے۔ چند تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران لبنان کے ذریعے حماس کی مدد کرتا ہے تاہم ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔
اس دوران حماس نے میزائل بھی بنائے جو آغاز میں تو کافی ہلکے تھے۔ چند فلسطینی سیاست دانوں نے مطالبہ کیا کہ حماس کو اسرائیل کے ردعمل، جو فضائی بمباری اور زمینی حملوں کی شکل میں ہوتا، کی وجہ سے میزائلوں کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔
’گھوسٹ وار‘
سنہ 2007 میں حماس کی جانب ایک نئی طرز کی جنگی حکمت عملی سامنے آئی جسے ٹنل یا ’سرنگ کی جنگ‘ کہا گیا۔
اور پھر چند ہی برسوں میں حماس نے سرنگوں کا ایک پیچیدہ اور مربوط نظام بنایا جو غزہ کو مصر اور دیگر علاقوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ سنہ 2014 میں اسرائیل نے زمینی حملہ کیا تو حماس نے اس نظام کا فائدہ اٹھایا۔ حماس کے جنگجو اچانک نمودار ہوتے، گولیاں برساتے اور غائب ہو جاتے۔
اسرائیل نے اس نظام کو تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔
آنے والے برسوں میں حماس نے پہلے سے بہتر اور طاقتور میزائل بنائے جو جنوبی اسرائیل سے آگے تل ابیب اور حائفہ تک کو نشانہ بنا سکتے تھے۔
اب حماس کے میزائل اسرائیل کے مرکزی ایئر پورٹس تک کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اسرائیل کو اکثر پورے شہر بند کرنا پڑے ہیں اور رہائشیوں کو پناہ لینا پڑتی ہے۔ ان میزائلوں کی وجہ سے اسرائیل کو ایک معاشی دباؤ کا سامنا بھی ہے۔
حالیہ جھڑپوں کے دوران حماس کی ایک نئی صلاحیت بھی سامنے آئی جب گلائیڈرز حملے میں استعمال کیے گئے۔
حماس کے ہتھیار
حماس کے پاس مختلف نوعیت کے میزائل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے چند سرنگوں کے ذریعے مصر کے راستے لائے گئے تھے۔
تاہم اہم بات یہ ہے کہ اب میزائل غزہ میں ہی تیار کیے جاتے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں اب یہ صلاحیت موجود ہے۔
اسرائیلی اور غیر ملکی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران نے غزہ میں میزائل انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں مدد کی ہے۔
حماس کے پاس مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ’قسیم‘ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو 10 کلومیٹر تک داغے جا سکتے ہیں۔ القدس نامی میزائل 16 کلومیٹر جبکہ گراڈ میزائل سسٹم اور سیجل میزائل 55 کلومیٹر تک داغا جا سکتا ہے۔
ان کے علاوہ حماس کے پاس اب طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھی موجود ہیں جن میں الفجر 100 کلومیٹر جبکہ چند میزائل 120 سے 200 کلومیٹر کی رینج رکھتے ہیں۔
یعنی حماس کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو یروشلم اور تل ابیب تک کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
پہلے کاٹیوشا راکٹ سے نئے ڈرون تک، حماس کی عسکری صلاحیت ایک آئس برگ یا برفانی تودے جیسی ہے۔ یعنی جو دکھ رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ چھپا ہوا ہے۔